اپنے کمرے سے محبت کیجیے

شاہد کاظمی  جمعـء 9 دسمبر 2022
کمرے کے ایک ایک انچ کو اپنی خواہشات، حسرتوں اور محبت کے احساس سے ترتیب دیجئے۔ (فوٹو: فائل)

کمرے کے ایک ایک انچ کو اپنی خواہشات، حسرتوں اور محبت کے احساس سے ترتیب دیجئے۔ (فوٹو: فائل)

’’ریٹائرمنٹ ایک ایسا دورانیہ ہے جس کو آپ باقاعدہ منصوبہ بندی اور بہترین گزارنے کی تدبیر کے ساتھ نہ ترتیب دیں تو آپ کو مریض بنادے گا۔ اس کے لیے آپ کو اپنے کمرے سے محبت کرنا ہوگی۔ ایسی محبت کہ کمرہ آپ کو برداشت کرے۔ کیوں کہ یہ ایک المیہ رہا ہے کہ آپ پوری زندگی اپنے کمرے سے محبت نہیں کرپاتے اور ستر سال کی عمر میں جب آپ کے پاس سوائے اس کمرے کے وقت گزارنے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی تو پھر یہ کمرہ آپ کو کاٹ کھانے کو آتا ہے اور پھر آپ رفتہ رفتہ مریض بن جاتے ہیں۔

میرا دل چاہتا ہے تو رات تین بجے اپنے کمرے میں بچھے گالف میٹ پر پریکٹس شروع کردیتا ہوں اور قرآن کریم کی باقاعدہ واضح تلاوت کو گھنٹوں سنتا رہتا ہوں۔ مجھے یہ احساس کامل ہوتا ہے کہ اس وقت موجود فرشتے بھی میرے ساتھ یہ تلاوت سن رہے ہوتے ہیں اور کمرے کے در و دیوار بھی۔ کمرے میں ہوا پینٹ، اس کے در و دیوار، بچھا ہوا کارپٹ (یا کچا فرش ہی کیوں نہ ہو)، چرچراتے کواڑ، ملگجی روشنی، ہر چیز سے محبت کی جائے تو ہی کمرہ بھی آپ کو اپناتا ہے۔ کیوں کہ عمر کا ایسا حصہ جب آپ مشقت کرنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زیادہ مسافت طے کرسکتے ہیں تو پھر کمرے میں صرف وقت گزارنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ کمرے سے محبت کرکے ہی آپ خوش رہ سکتے ہیں۔‘‘

سیاست، حالات حاضرہ، معیشت، لڑائی جھگڑوں پر قلم کو جنبش دینے کے بجائے، آج اس تحریر کی وجہ ایک بزرگ بنے۔ پارکنسن کی بیماری کا شکار 80 سالہ بزرگ اپنی روداد سنانا شروع ہوئے تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ المیہ تو انسان کو ہمیشہ سے درپیش رہا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں یہ تاثر تقویت پاچکا ہے کہ بس ریٹائرمنٹ ہوئی اور بندہ کام کاج کے قابل نہیں رہا۔ ہمارا معاشرہ بھی فارغ کہہ کر انسان کو بیمار بنا دیتا ہے اور بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی باتوں اور اپنوں کی کج ادائیوں کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کا اکثر وقت بستر پر ایک مریض کی صورت ہی گزار دیتا ہے۔

مجھے حیرانگی اس لیے بھی ہوئی کہ اگر پارکنسن کا ایک مریض اس بزرگی اور بیماری کے عالم میں گالف کی اسٹک ہاتھوں میں تھام کر زندگی کو جی رہا ہے تو ہم میں سے اکثریت زندگی کا یہ لطف کیوں اٹھا نہیں پارہی۔ گالف چلیے ایک مہنگا کھیل ہی سہی، مان لیا، لیکن مڈل کلاس میں بھی بغور جائزہ اس حقیقت سے پردہ اُٹھا دیتا ہے کہ اکثر اوقات ساٹھ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے بزرگ گوشہ نشیں ہوجاتے ہیں، اور اس میں زیادہ کردار ہماری نسل کا ہے کہ ہم ان کو یہ احساس دلا دیتے ہیں کہ وہ بس اب معاشرے کا اضافی بوجھ ہیں۔

کتنے ہی بزرگ ایسے ہیں کہ تکنیکی شعبہ جات سے فراغت پاتے ہیں۔ ہماری نسل کے کتنے افراد ہیں جو ان سے ان کی ملازمت کے دوران پیش آنے والے واقعات میں دلچسپی لیتے ہیں؟ کتنے افراد ایسے ہیں جو ریٹائرڈ بزرگان سے ان کا فن سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور کتنے افراد ہیں جو اپنے ریٹائرڈ بزرگ افراد کی دلچسپی کا سامان ان کے کمرے میں مہیا کرنے کا سوچتے ہیں؟

ہم ہمیشہ نانیوں دادیوں کی کہانیوں کو ایک طویل عرصہ مثال بناتے رہے، لیکن ہم آج کیا کر رہے ہیں؟ ہم لاکھوں روپے خرچ کرکے خودساختہ موٹیویشنل اسپیکرز کے لیکچرز تو سن رہے ہیں لیکن ہم اپنے ریٹائرڈ بزرگوں کی کہانیوں میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے؟ ایک سوئپر سے لے کے بائیس گریڈ کے افسر تک آپ اگر ریٹائرڈ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو یقین مانیے ہمیں کسی موٹیویشنل اسپیکر کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ بزرگ افراد آپ کو مفت یہ لیکچر دیں گے جن کےلیے آپ سے خودساختہ موٹیویشنل اسپیکر لاکھوں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔

Falling in love with your room یہ کہنے کو تو ان بزرگ کا ایک جملہ تھا لیکن اس ایک جملے میں ایسے گماں ہوا کہ جیسے ہم ڈھلتی عمر کا ایسا حسین رخ کھو بیٹھے ہیں جو ہمارے لیے کتنا مفید ہوسکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کمرے میں ایک پرانی ٹیبل، بوسیدہ کرسی، اُگلدان، لحاف، زمانہ قدیم کا بستر، چرچراتے کواڑ، اور کسی کے آنے کی اُمید… ہمارے ہاں اکثریت اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ ایسا ہی منظرنامہ پاتے ہیں۔ اور اس میں بنیادی تصحیح ہی یہی مقصود ہے کہ کسی سے اُمید کے بجائے اپنے کمرے سے محبت۔ دل جو پوری زندگی نہیں کر پایا وہ کیسے کیا جائے? اس ریٹائرمنٹ کی زندگی میں یہ اصل سوچ اپنانا ہمیں بہت سے نفسیاتی مسائل سے نجات دے سکتا ہے۔ اپنے کمرے کے در و دیوار کو اپنی منشا کے مطابق ترتیب دیتے ہوئے، ایک قالین سے صوفے تک اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا اور اپنے کمرے میں وقت ایسے گزارنا کہ جیسے اپنی کسی پسندیدہ جگہ پر چھٹیاں انجوائے کررہے ہوں، جیسا طرز عمل بظاہر مشکل لگتا ہے لیکن سوال پھر بھی یہی ہے کہ پارکنسن کا ایک مریض اگر ایسا انداز اپنا سکتا ہے تو ریٹائرمنٹ کے وقت مکمل صحت مند افراد ایسا مثبت رجحان کیوں نہیں اپنے اندر پیدا کرسکتے؟

بزرگوار کے ایک جملے میں نہ صرف بھرپور زندگی گزارنے والے بزرگوں کےلیے ایک واضح پیغام ہے بلکہ نوجوان نسل کےلیے بھی ایک لائحہ عمل موجود ہے کہ سب سے پہلی ابتدا تو ہمیں اُسی جگہ سے محبت ہونی چاہیے جہاں ہم تمام جہاں کے جھمیلوں سے آزاد ہوکر آتے ہیں۔ اگر ہم انتہائی پریشاں کن حالات کے بعد بھی ایسی جگہ سستائیں کہ جس کے درو دیوار سے ہماری محبت جھلک رہی ہو تو یقین مانیے ہم نجانے کتنی ہی پریشانیاں پس پشت ڈال دیں گے۔

کمرے کے ایک ایک انچ کو اپنی خواہشات، حسرتوں اور محبت کے احساس سے ترتیب دیتے ہوئے یقین مانیے آپ کا دل خود کہے گا کہ Falling in love with my room۔ اور اس محبت میں گرفتار ہوکر ہماری یہ محبت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قائم رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔