کراچی میں نومولود بچی چھینے جانے کا واقعہ جھوٹا نکلا

اسٹاف رپورٹر  بدھ 7 دسمبر 2022
فوٹو : ایکسپریس نیوز

فوٹو : ایکسپریس نیوز

 کراچی: بلدیہ ٹاؤن سے مبینہ طور پر خاتون سے نومولود بچی چھینے جانے کے معاملے کا ڈراپ سین ہوگیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون نے بچی چھینے جانے کا بے بنیاد دعویٰ کرکے پولیس کو گمراہ کیا، دعویٰ کرنے والی خاتون نے بچی اپنی سابقہ کرائے دار سے لی تھی جسے وہ اس کی حقیقی ماں کو واپس کر آئی تھی، جھوٹا دعویٰ کرنے پر خاتون اور اس کے اہلخانہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

منگل کو مدینہ کالونی تھانے کے علاقے بلدیہ ٹاؤن روبی موڑ کے قریب سے مشرف کالونی کی رہائشی خاتون عینی بیگم کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی 11 روز کی نومولود بچی کو مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا ہے۔

واقعے کے بعد مغوی بچی کے اہلخانہ اور پولیس کی جانب سے بچی کو تلاش کیا گیا لیکن بچی کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا جس پر پولیس نے واقعے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرنے والی مغوی بچی کی مبینہ والدہ عینی بیگم زوجہ شاہد کی مدعیت میں بچی کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

مغوی بچی کی مبینہ والدہ عینی بیگم نے پولیس کو بتایا تھا کہ نومولود بیٹی کو اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی تھی، واپسی میں بس میں سوار ہو کر بلدیہ روبی موڑ کے قریب بس سے اتری تو نومولود بیٹی سدرہ سلیپنگ بیگ میں موجود تھی اور بیگ میرے ہاتھ میں تھا، اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار 2 نامعلوم ملزمان میری نومولود بچی کو چھین کر فرار ہوگئے۔

انہوں نے بتایا کہ واقعے کے فوری بعد میں نے اپنے شوہر شاہد کو فوری اطلاع کی، شوہر کے ہمراہ نومولود بیٹی کو تلاش کیا لیکن کوئی سراغ نہ ملا، دو نامعلوم صورت شناس ملزمان میری بیٹی کو اغوا کرکے لے گئے ہیں لہٰذا قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ڈی ایس پی بلدیہ ٹاؤن مسرور احمد جتوئی نے بتایا کہ رات گئے جب پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کی تو پولیس کو کہیں سے بھی بچی کے اغوا کے شواہد نہیں ملے، جس پر پولیس کو شبہ ہوا اور جب تفتیش کے دوران خاتون نے بتایا کہ بچی کی ولادت ایک دائی کے گھر پر ہوئی ہے اور جب پولیس اس دائی کے گھر پہنچی تو دائی نے بھی انکار کر دیا کہ ایسی کسی بچی کی ولادت نہیں ہوئی ہے جس سے یہ یقین ہوگیا کہ خاتون نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔

مسرور احمد نے بتایا کہ پولیس جب خاتون کے گھر پہنچی تو خاتون عینی بیگم کی والدہ نے ساری حقیقیت بتا دی اور مزید بتایا کہ بچی امبرین نامی خاتون کی تھی اور عینی نے امبرین سے بچی گود لی تھی اور چند روز گھر میں رکھنے کے بعد منگل کو ہی بچی اس کی حقیقی ماں کو واپس کر آئی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق خاتون عینی بیگم کے شوہر شاہد نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور شوہر دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ خاتون نے شوہر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ دعویٰ کیا، پولیس نے خاتون اور اس کی والدہ کا ویڈیو بیان حاصل کرلیا ہے، ویڈیو بیان میں خاتون کی والدہ نے من و عن تمام واقعہ بتایا ہے۔

بعدازاں پولیس نے امبرین نامی خاتون، عینی بیگم، شوہر شاہد اور ساس کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کر دیا۔

تھانے میں امبرین نامی خاتون نے بتایا وہ عینی بیگم کی سابقہ کرائے دار ہے اور چار ماہ کرائے پر رہ کر جا چکی ہے۔ خاتون نے بتایا کہ انھوں نے اپنی بچی خود عینی کو دی تھی اور منگل کو انہیں بچی کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے اپنی بچی واپس لے لی انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ عینی نے اپنے شوہر کو کیا بتایا تھا۔

امبرین نے بتایا کہ ان کا گھریلو مسئلہ تھا جس کہ وجہ سے انھوں نے اپنی نومولود بچی عینی کے حوالے کی تھی اب انھوں نے اپنی بچی واپس لے لی ہے اور اب بچی میرے پاس ہی رہے گی۔ امبرین خاتون نے بتایا کہ بچی کو عینی کے حوالے کرنے کا مسئلہ ذاتی نوعیت کا ہے جو وہ کسی کو نہیں بتانا چاہتی ہیں۔

عینی بیگم کے شوہر شاہد نے بتایا کہ 11 روز قبل بیوی عینی نے فون کال کر کے بتایا کہ اس کی طبعیت خراب ہے اور آپ رقم کا بندوبست کرلو اور کچھ گھنٹے کے بعد دوبارہ بیوی عینی نے بتایا کہ بیٹی کی ولادت ہوئی ہے اور ہم گھر آگئے ہیں جس کے بعد میں گھر پہنچا اور بچی کو دیکھ کر میں خوش ہوگیا، دوسرے دن بازار جا کر بچی کے لیے کپڑے اور دیگر سامان خریدا، تقریباً 10 سے 11 بجے نومولود بچی میرے گھر میں رہی، منگل کو بچی گھر میں موجود تھی اور بچی کو دیکھ کر گھر سے کام پر نکل گیا تو سوا بارہ بجے کے قریب بیوی عینی کا فون آیا کہ فوراً روبی موڑ آجاؤ ہماری جان کو خطرہ ہے اور جب میں روبی موڑ پہنچا تو بیوی رو رہی تھی اور بتایا کہ دو نامعلوم ملزمان بچی چھین کر فرار ہوگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچی کو تلاش کیا اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو پولیس کو اطلاع دی اور پولیس کے ہمراہ جگہ جگہ بچی کو تلاش کرتا رہا اور اس کے بعد ہم گھر چلے گئے، صبح تک بیوی نے مجھے کچھ نہیں بتایا، بدھ کی صبح ایس ایچ او مدینہ کالونی کا فون آیا اور انھوں نے پوچھا کہ بچی کہاں پیدا ہوئی تھی تو جیسا بیوی نے  مجھے بتایا کہ ویسے ہی میں نے ایس ایچ او کو بتایا کہ بچی گھر میں ہی پیدا ہوئی ہے اور پھر ایس ایچ او نے پوچھا کہ جب بچی پیدا ہوئی تو ماں کے پاس کون موجود تھا تو میں نے بتایا کہ ساس موجود تھی جس پر ایس ایچ او نے بتایا کہ میں آپ کے گھر آ رہا ہوں اور جب میں اپنے ساس سسر کے گھر پہنچا اور انہیں بتایا کہ پولیس آپ لوگوں سے تفتیش کرنے آرہی ہے تو ساس اور سسر میرے سامنے پھٹ پڑے اور انھوں نے ساری حقیقت بتا دی بچی کسی اور کی تھی اور ہم نے گود لی تھی۔

شوہر شاہد نے بتایا کہ سارا واقعہ بیوی اور ساس کے علم میں تھا، میں اور سسر معاملے سے لاعلم تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر روزانہ آیا کرتے تھے اور بیوی بتاتی تھی اس کی طبیعت خراب ہے تو اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ بیوی کو ڈاکٹر کے پاس بھجوا دیا کرتا تھا۔

عینی بیگم نے بتایا کہ چند روز قبل امبرین کا نکاح ہونے والا تھا اور نکاح سے پہلے امبرین سے فون کال کرکے بتایا کہ وہ بہت پریشان ہے، میرے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ہے تو میں نے امبرین سے کہا کہ یہ بچی میری گود میں ڈال دو تو امبرین نے رضا مندی ظاہر کر دی اور بچی میری گود میں ڈال دی تھی، گزشتہ 4 روز سے امبرین مجھے مسلسل پریشان کر رہی تھی اور بچی کی واپسی کا مطالبہ کر رہی تھی آپ کے گھر پولیس رینجرز آئے گی تمہیں، تمارے میاں اور بچوں کو لیکر جائے گی جس پر میں نے امبرین سے کہا ایسا نہ کرو تو امبرین نے کہا میں ایسے ہی کروں گی اور امبرین نے ایک دن کے لیے مجھ سے بچی واپس لی اور اس کے بعد سے میں مسلسل امبرین کو فون کر رہی تھی اور امبرین میرا فون نہیں اٹھا رہی تھی۔

عینی بیگم نے بتایا کہ امبرین جس شخص سے نکاح کر رہی تھی اس شخص سے امبرین یہ بات چھپائی تھی کہ اس کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ہے اور امبرین کا رشتہ جس خاتون نے کروایا تھا امبرین نے یہ بات اس خاتون سے بھی چھپائی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ امبرین کی عزت بچانے کے لیے انھوں نے بچی گود لی اور اپنے شوہر سے جھوٹ بول کر غلطی کی۔

عینی بیگم نے بتایا کہ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ امبرین کا تیسرا نکاح تھا، امبرین نے ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا مجھے نہیں معلوم، جس دن امبرین کا نکاح ہوا تھا اسی دن بچی کی ولادت ہوئی تھی۔ امبرین نے بچی واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بچی واپس تمہارے پاس پہنچ جائے گی اس لیے میں نے جھوٹا ڈراما رچایا جو کہ میری غلطی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔