یہ سیاست ہے کہ کھیل

محمد سعید آرائیں  جمعرات 8 دسمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ نئے آرمی چیف کے تقرر پر اپنے صدر مملکت کے ساتھ مل کر آئین و قانون کے مطابق کھیلیں گے مگر ان کی راولپنڈی آمد سے قبل نئے آرمی چیف کا تقرر بھی ہو گیا اور بعد میں پنڈی میں جلسہ بھی ہو گیا جو عمران خان کی توقعات کے مطابق شاید نہیں تھا اور ملک بھر سے بلائے گئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جلسے کے بعد واپس بھیج دیا گیا اور عمران خان نے جس کھیل کا ذکر کیا تھا وہ نہ کھیلا جا سکا۔

ایک ہفتے بعد عمران خان نے نیا اعلان کیا ہے کہ پی ٹی آئی اب’’ الیکشن کراؤ، ملک بچاؤ‘‘ مہم شروع کر رہی ہے جو پہلے مرحلے میں لاہور میں دس روز تک جاری رہے گی، جس کے دوران ریلیاں اور اجتماعات منعقد ہوں گے اور اب اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حتمی اختیار عمران خان جب چاہیں گے استعمال کریں گے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے جلسے اور ریلیاں و مارچ تو ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے ہی شروع ہو گئے تھے اور 25 مئی کے بعد ان کے دھرنے کے کھیل کا بھی اختتام ہو گیا تھا جس کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، توہین کا معاملہ عدالت اور عمران خان کے ہی درمیان ہے۔

عمران خان جس طرح اداروں پر حملے کرتے آ رہے ہیں انھیں دیکھ کر ان کے رہنما کیوں پیچھے رہتے اس لیے دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی سیاست کو کھیل سمجھ کر ہر حد پار کر گئے جس پر معترض ہو کر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس جواد حسن کو بھی کہنا پڑ گیا کہ 26 نومبر کے جلسے میں اسد عمر نے عدالتوں کو اسکینڈلائز کیا جس پر انھیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو اپنے ادارے کی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں توہین پر کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے کیونکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے ایک اہم آئینی ادارے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ پر جس طرح شرم ناک حملے اور جو زبان استعمال کی اور ذاتی حملے کیے ایسا تو کسی کھیل میں بھی نہیں ہوتا کیونکہ آئینی طور پر قائم الیکشن کمیشن اور وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھوں مقرر اس کے سربراہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی طرح نہیں ہیں کہ ان پر ہر قسم کے بے سروپا الزامات لگا دیے جائیں۔

کرکٹ بورڈ کے سربراہ پر بھی آج تک کسی کھلاڑی نے ایسے ذاتی حملے نہیں کیے جیسے چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے کیے ہیں۔

ہر ادارے پر تنقید کی بھی مہذب دنیا میں ایک حد مقرر ہے مگر پی ٹی آئی چیئرمین مادر پدر آزادی کے قائل ہیں اس لیے انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کو وہ عزت بھی نہیں دی جو کسی کھیل کے ادارے کے سربراہ کی ہوتی ہے۔

اس پر بھی ناجائز ہونے کے باوجود کوئی کھلاڑی اتنے ذاتی حملے نہیں کرتا جتنے عمران خان نے ناجائز طور پر چیف الیکشن کمشنر پر کیے ہیں مگر انھیں کسی نے نہیں روکا۔ یہ درست ہے کہ 30 سال قبل عمران خان کرکٹ کے کھلاڑی اور کپتان رہے اور ورلڈ کپ جیتنے کے باعث دنیا میں مشہور ہوئے اور اسی مقبولیت اور اچھی شہرت کے باعث وہ بالاتروں کے اعتماد کے باعث 2018 میں ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے۔

یہ یقین دلایا گیا تھا کہ عمران خان ایماندار اور کرپشن سے پاک ہیں۔ ایک چیف جسٹس پاکستان نے تو انھیں صادق و امین قرار دے دیا تھا۔ عمران خان کھیلوں خصوصاً کرکٹ کے معاملات واقعی بہتر طور جانتے ہوں گے جس کے باعث انھوں نے کرکٹ کے نام ور کھلاڑیوں کو بھی نہیں بخشا تھا مگر سیاست کبھی کھیل یا شو بزنس نہیں رہی۔ دنیا بھر میں کھیل کے علاوہ دیگر شعبوں سے آئے لوگ حکمران بنے، میئر شپ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے بعد میں ملک کے کامیاب اور بہترین حکمران ثابت ہوئے مگر عمران خان غالباً واحد کھلاڑی تھے جو حکمران بنے مگر انھوں نے اپنے اقتدار میں کرکٹ کی بنیاد ہی ختم کردی جہاں سے مستقبل ابھرا کرتا تھا۔

عمران خان سیاست کو بھی کھیل ہی سمجھتے ہیں انھوں نے اقتدار کو بھی کھیل سمجھا اور کھیل میں بھی انھوں نے اپنے ہی مقبول مخالف کھلاڑی

کو دشمن سمجھا اور جیت کے لیے انھوں نے کرکٹ کھلاڑی کے ساتھ دشمنی جیسا سلوک کیا اور یہی طریقہ انھوں نے سیاست میں اپنے مخالفین کے ساتھ روا رکھا۔

عمران خان کے نواز شریف کے ساتھ سیاست میں آنے سے قبل اچھے تعلقات تھے جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نواز شریف نے عمران خان کو ان کے اسپتال کے لیے زمین سمیت تمام مراعات اور عمران خان کو ذاتی گھر کے لیے پلاٹ دیا جس کے لیے عمران خان کی درخواست سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

عمران خان کے نواز شریف سے ذاتی تعلقات بھی اچھے اور دوستانہ تھے مگر اپنے اسپتال کی تکمیل کے بعد انھوں نے 26 سال قبل جب سیاست کا آغاز کیا تو انھوں نے اپنی سیاست کھیل کی طرح شروع کی تھی جس میں مخالف کو سیاسی حریف نہیں مخالف کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے۔

کھیلوں میں بھی بعض معاملات پر بہتری کے لیے آپس میں مل کر کچھ فیصلے کرلیے جاتے ہیں اور میچ میں کامیابی کے بعد فاتح ٹیم ہارنے والوں سے ہاتھ ملاتی ہے مگر عمران خان نے سیاست کو کھیل سے بھی بدتر سمجھا اور اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے ذاتی دشمن کا درجہ دیا اور وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پورے ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنی پارٹی اور حکومتی اتحادیوں ہی کے وزیر اعظم بنے اور ثابت ہوئے۔

انھوں نے تو شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی بھی مخالفت کی تھی مگر مجبوراً بنایا مگر اپوزیشن کی طرف سے کی گئی مفاہمت کی پیشکش کو بھی قبول نہ کیا بلکہ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو اپنا ذاتی دشمن سمجھا اور تمام بڑے اپوزیشن رہنماؤں کو مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کرا دینے کو اپنی بڑی کامیابی اور فخریہ کارنامہ سمجھا جو بعد میں سب ضمانت پر رہا ہوگئے تو پھر عمران خان نے ان کی عدالتی ضمانتوں پر بھی تنقید کی ۔

اب عمران خان کو اپنے غیر سیاسی رویے کے باعث یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ اب حکومتی اتحادی ان سے مذاکرات کرنے پر بھی تیار نہیں اور عمران خان ان سے مشروط مذاکرات چاہتے ہیں۔ عمران خان اگر سیاست کو سیاست رہنے دیتے تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا اور سیاست کھیل سے بھی بدتر نہ ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔