جنرل باجوہ پر موقع پرستوں کی یلغار

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 8 دسمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

کرسی صرف آیت الکرسی والے ہی کی ہے، کائنات کے معرض وجود میں آنے سے لے کر، کائنات کو لپیٹ دیے جانے تک کسی دوسرے کی کرسی نہ قائم رہ سکی ہے نہ رہ سکے گی، یہی اٹل حقیقت ہے۔ جس سے انکار کسی باشعور فرد کے لیے ممکن ہی نہیں، مگر جو اقتدار میں ہوتے ہیں‘ ان کی آنکھوں پر پٹی اور دماغ پر چربی کی تہہ جمی رہتی ہے۔

لہذا یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ بڑی بڑی طاقتور ہستیاں آئیں جو خود کو ناگزیر سمجھا کرتی تھیں، آج ان کی قبروں کے نام و نشان بھی نہیں ملتے۔ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ انسان کو واقعی انسان یعنی اشرف المخلوقات بن کر رہنا چاہیے، اسے یہ بات ہمہ وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اس دار فانی میں آئے ہیں تو ایک دن جانا بھی ہے۔ اور یہ جانے کی یاد ہی ہمیں ہمیشہ درست فیصلوں پر مجبور کرتی رہے گی اور سرخرو کرائے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ چھ سال اسلامی دنیا کی طاقتور ترین فوج کے سپہ سالار تعینات رہے، پاک فوج کا سپہ سالار تین سالہ مدت کے لیے ہی تعینات کیا جاتا ہے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معمولی حالات کے پیش نظر مدت ملازمت میں ایک فل ٹینور یعنی تین سال کی توسیع دی گئی یوں وہ چھ سال پورے ہونے کے بعد 29 نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ان کی جگہ پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر نے کمان کی چھڑی تھام لی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور سپہ سالار پاک فوج انتخاب اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا۔لیکن یہ بھی پاکستانی سیاست کا اتفاق ہے یا کچھ اور کہ انھی ایام میں پانامہ پیپرز سامنے آ گئے‘ اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ادھر پروجیکٹ عمران خان پہلے سے شروع تھا، جس پر کام ڈان لیکس کے بعد تیز کردیا گیا۔

میاں نواز شریف اور ان کی فیملی پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس بنائے گئے۔ انھی کیسوں کی بنیاد پر انھیں گھر بھیج دیا گیا۔

یوں تحریک انصاف کا راستہ صاف ہو گیا اور عمران خان کے لیے ایوان اقتدار تک جانے کا سفر آرام دہ اور خوشگوار ہوگیا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کرشماتی لیڈر شپ کی مداح بن چکی تھی، جو ان کے خیال میں پاکستان کو کرپشن سے پاک ملک بنا دیتی۔جب عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو جھوٹا قرار دے کر تاحیات نااہل قرار دیا‘ دوسری طرف عدالت عظمیٰ نے عمران کو صادق و امین قرار دے دیا۔

امت مسلمہ کی تاریخ شاہد اور بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ صادق و امین رسول اللہﷺ   کے القابات ہیں، خلفائے راشدین سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے اور امانت دار تھے مگر ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی نے کسی کو بھی صادق و امین کہہ کر نہیں پکارا۔ نہ کسی کی آج تک جرات ہوئی کہ اپنے آپ کو صادق و امین کہتا پھرے۔ کسی صحابی، کسی تابعی، کسی صدیق، کسی شہید، کسی غوث، کسی قطب، کسی ابدال،کسی عالم، کسی فاضل نے آج تک ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ آئین و قانون میں درج صادق و امین کے القابات حذف کر کے کوئی دوسرے لفظ ڈالے جائیں۔

2018کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی جماعت اور دوسرے عوامی طور پر مقبول ترین لیڈران کو دیوار سے لگادیا گیا، کسی کو نااہل قرار دلوا کر میدان سے باہر کردیا گیا تو کسی کو ڈرا دھمکا کر میدان سے باہر کیا۔عمران خان کو ہر جائز و ناجائز سپورٹ دی گئی تاکہ الیکشن جیت جائے۔ تمام تر حربوں کے باوجود تحریک انصاف اتنی سیٹیں بھی نہ جیت سکیں کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے۔

پھر ان چند جماعتوں کو بیساکھیاں بنا کر خان کے ساتھ کھڑا کیا گیا جو ہمیشہ بالادست قوتوں کے اشاروں کی منتظر ہوا کرتی ہیں۔ کھینچ تان کے حکومت بھی بنا دی گئی، خان صاحب وزیر اعظم کی مسند پر بیٹھ گئے اور سو دن کا پلان دے دیا، سو دن بھی گزر گئے لیکن اس پلان پر عملدرآمد کے بجائے معاملات اس کے بالکل الٹ چلنا شروع ہوگئے، نوکریاں دینے کے بجائے حکومتی اقدامات نے لوگوں سے نوکریاں چھین لیں، گھر دینے کے بجائے لوگ سڑکوں پر آگئے۔

ملک میں ایسی تبدیلی آئی کہ ہر طرف تباہی و بربادی نظر آنے لگی۔ اب لانے والوں کو بھی شرمندگی ہونے لگی کہ کس اناڑی کو اٹھا لائے لیکن اسے اب لے آئے تھے تو چلانا تو تھا ورنہ یہ ساری ناکامیاں ان کے کھاتے میں جاتیں، اور عزت بچانے کی خاطر ریاست کے معاملات چلانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔

ہم نے اسی کالم میں تبدیلی سرکار  کے ابتدائی دنوں میں لکھا تھا کہ اس حکومت سے معاملات نہیں سنبھلیں گے لہٰذا اس سے بچ کر رہیں لیکن ہماری اور ہمارے جیسے دوسرے خیر خواہوں کی نہیں سنی گئی۔ اتحادی بھی حکومت کا بوجھ اٹھانے سے تنگ آگئے، پی ڈی ایم نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پیش کی، خان کے اتحادی ہی نہیں، اپنی جماعت کے کئی اراکین بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ یوں انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ اس ان ہاؤس تبدیلی کو انھوں نے امریکی سازش کا نام دے دیا۔

اب جنرل باجوہ سبکدوش ہو چکے ہیں جس روز سے انھوں نے پاک فوج کی کمان نئے سپہ سالار کے سپرد کی ہے اس دن سے عمران خان، ان کے ورکر اور ان کے حمایت یافتہ صحافی جنرل باجوہ پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔ الزام تراشیاں،کردار کشی، ان اور ان کی فیملی کے اثاثوں سے متعلق بے بنیاد خبریں پھیلا رہے ہیں۔ جنرل باجوہ سے یقیناً غلطیاں ہوئی ہونگی، انھوں نے یوم شہداء کی تقریب سے خطاب میں اس بات کو تسلیم بھی کیا ہے۔

اگر ان سے دو تین غلطیاں ہوئی ہوں گی تو انھوں نے اس ملک و قوم کے لیے بے شمار اچھے کام بھی تو کیے ہوں گے۔ انھوں نے اپنے دور میں ناصرف اپنی ان پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو نبھایا جو ان پر فرض تھیں، بلکہ ایسے مشکل ٹاسک بھی پورے کیے جو ان کی ذمے داری تھی نہ ان پر فرض تھے بلکہ وہ کام اس قوم پر جنرل باجوہ کے قرض و احسان ہیں۔

ان میں سے ایک بڑا کام ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانا، دوسرا کام پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے دوست ممالک سے تعاون حاصل کرنا اور تیسرا کام سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے برادر اسلامی ممالک جو حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں دور ہوگئے تھے انھیں دوبارہ قریب لاناتھا۔ زندہ قومیں اور باغیرت و با کردار لوگ اپنے محسنوں کو نہیں بھولا کرتیں۔

جنرل باجوہ صاحب! مٹھی بھر گروہ کی احسان فراموشی کی غلیظ مہم سے آپ پریشان نہ ہوں، آپ سے غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن اس ملک کے عوام کی اکثریت آج بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور دعا گو ہے کہ آپ جہاں بھی رہیں اللہ کریم آپ کو صحت، سلامتی اور ایمان کے ساتھ عمر خضر عطا کرے اور آپ کو ہمت دے کہ جو غلطیاں آپ سے سرزد ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرسکیں۔

موجودہ عسکری قیادت سے میری گزارش ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے لیے خصوصاً ان کے لیے ایک سبق ہے، اگر کوئی سیکھنا چاہے تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، ہر باشعور بندے کو موقع پرستوں کی صحبت سے بھی دور رہنا چاہیے۔

اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں بالکل نیوٹرل رہیں لیکن پاکستان کے لیے آپ ہرگز نیوٹرل نہ رہیں، کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچانا آپ کی ذمے داری ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم اس وطن عزیز کو ایک بار پھر فصل بہاراں کی جانب لوٹا کر اسے حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ اور امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کے لیے تیار کر دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔