مساجد و مدارس ہماری ریڈ لائن

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعـء 9 دسمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کے طول و ارض میں قائم لاکھوں مدارس و مساجد ﷲ کے نام پر وقف شدہ زمینوں پر قائم ہیں۔ جب کوئی چیز اللہ کے نام پر وقف کردی جائے تو وہ اللہ کی ملکیت میں آجاتی ہے، اسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہی خریدا جاسکتا ہے۔

انتقال میں کسی فرد کا نام قانونی اور شرعی تقاضا ہے کہ جب بھی وہ کوئی مسلمان اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر مسجد و مدرسہ کے لیے زمین دے گا تو دوسرا مسلمان چاہے وہ مدرسے کا مہتمم، مسجد کا خطیب یا کوئی عام مسلمان اسے اللہ رب العزت کے لیے اپنی ذمے داری کے ساتھ قبول کرے گا، اس کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے گا۔

ﷲ کے نام پر وقف شدہ زمین پر جب مسجد یا مدرسہ بن جائے جہاں شبانہ روز ﷲ کے ذکر و اذکار کی آوازیں گونج رہی ہوں، جہاں دور دراز سے آئے بچے علوم نبوت سے اپنے سینوں کے اندھیروں کو دور کرکے سارے عالم میں بکھیرنے کے لیے علم کی روشنائی بھرتے ہوں تو ایسی مقدس جگہوں کی حفاظت صرف خطیب یا مہتمم کی ذمے داری نہیں، یہ نہ صرف ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے بلکہ من حیث القوم ہم سب پر فرض کفایہ بن جاتا ہے۔

آج ہم مردان میں قائم جامع مسجد صفہ، قرآن و سنت کے تعلیم و ترویج کے ادارے ’’دارالعلوم تجوید القرآن مردان‘‘ دینی بنیادوں پر عصری علوم، حفظ قرآن کے ساتھ کردار سازی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے مشہور ادارے ’’ابن عباس ایجوکیشنل سسٹم مردان‘‘ کا ذکر کریں گے جو پورے علاقے میں عصری اور نبوی علوم کے لیے مشہور و معروف ہے۔

ابن عباس ایجوکیشنل سسٹم مردان، جامعہ الرشید کے طرز پر خیبر پختونخوا میں ایک منفرد ادارہ ہے جہاں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ بچوں کو علوم عصریہ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

مذکورہ جامع مسجد، دارالعلوم تجوید القرآن اور ابن عباس ایجوکیشنل سسٹم مردان کے شہری علاقے پار ہوتی اور سکندری کے سنگھم کلپانی (آبی نالا) کے کنارے پر واقع ہیں۔ جہاں حفاظتی پشتہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے اورزمین کے جاری کٹاؤ کی وجہ سے ان اداروں کے ساتھ ساتھ علاقے کے مکانات کو بھی خطرات لاحق تھے، جس کی وجہ سے علاقے مکین، ادارے کے ذمے داران اور زیر تعلیم سیکڑوں بچوں کے والدین پریشان تھے۔

آج سے چند ماہ قبل علاقہ عمائدین نزد باغ کورونہ پار ھوتی مردان کا ایک وفد ایریگیشن آفس مردان گیا جن میں کئی مفتیان کرام اور جید علماء بھی شامل تھے۔ اور جن کے پاس محکمہ مال کے سرکاری رجسٹرڈ دستاویزات بھی تھے انھوں نے ایکسئین مردان کو ایک درخواست پیش کی کہ ہمارے زیرکنٹرول وقف شدہ زمین جس پر ہم نے ایک عدد مسجد ایک بڑا مدرسہ قائم کررکھا ہے اور اس مدرسے میں تقریباً چار سو کے قریب طلباء دینی علوم کے حصول میں مصروف ہیں۔

اس مدرسہ اور مسجد میں ختم نبوتﷺ سمیت حج اور عمرے کے تربیتی کورسز بھی کرائے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے مدرسے کے لیے وقف شدہ زمین کلپانی ندی کے کنارے واقع ہے، اور اسکی کوئی حفاظتی دیواربھی موجود نہیں ہے جس سے سیلاب کی صورت میں مدرسے کے بہہ جانے سے تقریباً چار سو دینی طلباء کی جان کو خطرہ ہے۔

اس درخواست پر ایکسئین صاحب نے یہ معاملہ فوری طور پر ڈپٹی کمشنر مردان سے ڈسکس کیا، اور معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سرکاری وفد جس میں ڈپٹی کمشنر اور ایکسئین، ایریگیشن، محکمہ مال اور محکمہ آبپاشی کے پٹواری وغیرہ بھی شامل تھے ان پر مشتمل پوری ایک ٹیم نے اس مدرسے کا دورہ کیا، مدرسے کی حفاظت کے لیے فوری طور پر فنڈ منظور کرکے (پی، سی، ون) جاری کیا مگر بدقسمتی سے چند لوگوں نے اس کام کی مخالفت کی جس کی وجہ سے حفاظتی دیوار مطلوبہ مقام کے بجائے دوسری جگہ سے تعمیر کرنا پڑی۔ پھر کچھ لوگوں نے مدرسے کے لیے وقف شدہ زمین سے تقریباً بارہ فٹ مٹی بھی نکالی۔

مدرسے کی حفاظتی دیوار کی مطلوبہ اونچائی کو بھی کم رکھی گئی۔ وہاں سے مٹی نکلنے کی وجہ سے قریب واقع پورے علاقے کا گندہ پانی وہاں جمع ہونا شروع ہوگیا جس سے مدرسے کی بنیادیں متاثر ہو چکی ہیں، بلکہ کچھ دیواروں میں شگاف بھی پڑ گئے ہیں، اب پورے مدرسے کے منہدم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حفاظتی دیوار کو مطلوبہ جگہ یعنی سکندری اور خواجہ گنج رابطہ پل سے شروع کیا جاتا اور موجود مقررہ فنڈ کے مطابق ممکنہ حد تک لے جایا جاتا۔ مدرسے کے لیے وقف شدہ زمین سے نکالی گئی مٹی واپس اسی جگہ ڈالی جاتی۔ مدرسے کے قریب علاقے کے سیوریج کے پانی کے پائپ کو ٹھیک کرکے کلپانی تک پہنچایا جاتا تاکہ گندگی سے مدرسے کے طلباء اور مسجد کے نمازی محفوظ رہیں۔ لیکن انتظامیہ کی اس معاملے میں توجہ ہی نہیں ہے۔

حکومت وقت کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے‘ میرا خیال ہے کہ فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے جو اس بات کا پتا چلائے کہ اس مدرسہ اور مسجد کی حفاظت کے لیے جو دیوار بننا تھی اسے طے شدہ ڈیزائن، اونچائی اور جگہ پر کیوں نہیں بنایا گیا۔ مسجد و مدرسہ کی زمین سے مٹی کیوں نکالی گئی؟ جب تحقیقات ہوں گی تو یقینی طور پر حقائق بھی سامنے آجائیں گے۔

دوسری بات یہ کہ ڈپٹی کمشنر مردان صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنائیں جو مدرسہ و مسجد کی بنیادوں اور عمارت کی حالت کا جائزہ لے اور جتنی جلدی ممکن ہوسکے اس کا ازالہ کرے۔ بلاشبہ عرفان اللہ مروت کے بطور ڈی پی او تعیناتی کے بعد سے ضلع مردان میں منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد پر زمین تنگ کر دی گئی ہے مگر جامعہ ابن عباس ایجوکیشنل سسٹم کے گرد و نواح میں یہ دھند ابھی چل رہا ہے لہذا ڈی پی مردان اس علاقے میں بھی آپریشن کریںتاکہ یہ علاقہ بھی پر امن ہو سکے۔

ابن عباس ایجو کیشن سسٹم مردان میں سیکڑوں غریب و نادار طلبا کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ طلبا کو مختلف دینی شعبوں حفظ، ناظرہ، تجوید کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں، اس سے ملحقہ مسجد علاقہ مکینوں کا مرکز ہے، جن کی حفاظت ریاست اور عوام کی اولین ذمے داری ہے۔مدرسہ کے مہتمم مولانا سعید الرحمان نے صوبائی وزیر ظاہر شاہ خان طوروسے بھی درخواست کی ہے کہ:

(1) حفاظتی دیوار کو سکندری خواجہ گنج رابطہ پل سے شروع ہوکر آگے ممکنہ حد تک کیا جائے۔ (2) حفاظتی دیوار کی اونچائی مطلوبہ حد تک کرائی جائے، تاکہ سیلاب کے خطرے سے مدرسہ محفوظ رہ سکے۔ (3) ٹوٹے ہوئے گندے پانی کے پائپوں کو ٹھیک کرایا جائے۔(4) نکلالی گئی بارہ فٹ مٹی کو واپس لاکر حفاظتی دیوار کے پشت پر ڈالا جائے تاکہ مدرسے کے گرنے کا خطرہ ٹل جائے۔

آخر میں، میں ملک کے تمام مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ میں نے شروع میں کہا ان اداروں کی حفاظت ہم سب کے لیے فرض کفایہ ہے، جسے ادا تو ہر صورت کرنا ہے۔ اگر معاشرے کے دو چار یا چند افراد کردیں گے تو پورے معاشرے کی طرف سے ادا ہوجائے گا، اگر ضرورت پڑے تو سارے معاشرے کو بھی کار خیر میں حصہ ڈالنا چاہیے۔

اہل قلم و علم دانش کو بھی بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کی شرعی حیثیت کو دیکھیں تو اللہ رب العزت کے لیے وقف شدہ زمین کی پوری امت نگہبان ہے۔ اللہ کریم اس ملک کی حفاظت فرمائے، اس میں آباد مساجد ومدارس کی حفاظت فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔