فیض صاحب اور محترمہ ایلس فیض

شاکر حسین شاکر  جمعـء 9 دسمبر 2022
Shakir.hussain512@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے اسلام آباد کی قدرے نیم سرد رات کوڈاکٹر حمیرا اشفاق کے گھر جناب احمد سلیم سے عزیزم خاور رحیم کے ہمراہ ملاقات ہوئی تو کئی برس پہلے لاہور میںان سے ہونے والوں ملاقاتوں کی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع مل گیا۔

1990 کی دہائی میں جناب احمد سلیم لاہور میں مختلف موضوعات پر کتب شائع کیا کرتے تھے۔ انھی دنوں انھوں نے مجھے ایلس فیض کی کتاب Over My Shoulder تحفے میں دی تھی، اسے پڑھ کر میرے دل میں یہ خواہش ابھری کہ اس کتاب کا ترجمہ تو اردو میں ہونا چاہیے، پھر جناب احمد سلیم ایک طویل بیماری کا شکار ہوئے تو میری اردو ترجمہ والی خواہش دل میں رہ گئی۔

2011 میں جب فیض احمد فیض کی سو سالہ سالگرہ کی تقریبات کا منصوبہ بنا تو اْس کتاب کا خوبصورت ایڈیشن برادرِ من افضال احمد نے اپنے ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز سے شائع کیا۔ اس مرتبہ بھی کتاب کا نیا ایڈیشن دیکھ کر خیال آیا کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی آنا چاہیے۔

ہماری یہ خواہش 2018 کے آخری ماہ میں پوری ہوئی جب نیر رباب نے اس کتاب کو اردو کا پیراہن دیا۔ میری اس خواہش کے پس منظر میں وہی بات تھی کہ چونکہ یہ کتاب فیض احمد فیض کی اہلیہ نے لکھی ہے تو اْن دونوں کے تعلقات‘ واقعات اور کہانیوں کو اردو پڑھنے والوں سے دور کیوں رکھا جائے؟ نیر ربا ب لکھتی ہیں کہ ’’یہ کتاب دو لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔

ایک وہ جو تاریخ کا کھردرا چہرہ بغیر میک اپ کے دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں اور جو بیروت‘ فلسطین‘ ویت نام‘ کمپوچیا کے کئی دہائیوں سے دل و دماغ میں رسنے والے زخموں کو اصل شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس تحریر کو اردو کے قالب میں ڈھالتے ہوئے میں اپنے آنسوؤں کو بہنے سے نہیں روک سکی ، کئی بار میں قلم رکھ دیتی اور کئی دن تک دوبارہ اٹھانے کی ہمت نہ کر پاتی۔ دوسرے یہ کتاب اْن لوگوں کو پڑھنی چاہیے جو محبت تو کرتے ہیں مگر محبت کی طاقت سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ ایلس نے فیض سے ٹوٹ کر عشق کیا اور ساری زندگی کبھی فیض کی نظریاتی ساتھی بن کر تو کبھی اْن کے سامنے سپر بن کر اور کبھی سہارا بن کر کھڑی رہیں۔

وہ فیض کے چہرے پر پھیلنے والی ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے لیے پوری دنیا کو ایک طرف کر سکتی تھیں‘‘۔

اس کتاب میں کیا ہے؟ وہ تو ہم اپنے پڑھنے والوں کو بعد میں بتائیں گے۔پہلے ایلس فیض کی اپنے شریکِ حیات کے لیے ایک نظم ملاحظہ فرمائیں جس میں ایلس بھی فیض احمد فیض کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔

ترے جانے کے بعد گیت گاؤں گی تیرے

جب ہزار قدم کا ہو گا ہر اِک نقشِ پا

جب لا انتہا دکھوں کا فسانہ

کھلتے گلابوں کی خوشبو سے مہکا

ستائش کے لفظوں میں بھیگا ہوا

بھولی یادوں کو تازہ کر دے گا

صدائیں دینے کا غم، موت کو چوم کر چل دیا

پھر ترے گیت گاؤں گی میں

نہ ہزار قدم نقش پا کے لیے

نہ لا انتہا دکھوں کے لیے

نہ کھلتے گلاب

نہ تعریف کی بازگشت

نہ صدائیں کوئی، نہ ہی اقرار ہے

تمہارے لیے مرے گیت کا

نہ آغاز ہے نہ انجام ہے

اِک محبت فقط، جاوداں جاوداں

ایلس فیض کی یہ نظم پڑھ کر مجھے روس کے نامور ادیب رسول حمزہ توف کی ایک نظم یاد آتی ہے جس کا ترجمہ مستنصر حسین تارڑ نے کچھ یوں کیا۔

عورت

اگر ایک ہزار مردتمھاری محبت میں مبتلا ہوں تو

یقینا رسول حمزا توف اْن میں ایک ہو گا

اگر سو مرد تمھاری محبت میں مبتلا ہوں تو

رسول حمزا توف ،اْن میں، ظاہر ہے ضرور شامل ہوگا

اور اگر دس مرد تمھاری محبت میں مبتلا ہوں تو

رسول حمزا توف اْن میں سے ایک ہوگا

اور اگر…

صرف ایک مرد تمھاری محبت میں مبتلا ہو تو

وہ رسول حمزا توف کے سوا اور کون ہوسکتا ہے

اور اگر تم تنہا ہو، اکیلی ہو

اور کوئی بھی تمھاری محبت میں مبتلا نہیں ہے

تو یقین کر لینا کہ

کہیں بلند پہاڑوں میں رسول حمزا توف مر گیا ہے

ایلس فیض کی یہ کتاب کبھی ہمیں محبت کی داستان لگتی ہے تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے ایلس نے اپنے محبوب سے دوبارہ اظہار محبت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا پہلا حصہ ’’اِک محبت فقط‘ جاوداں جاوداں‘‘ کے نام سے شامل ہے جس میں ایلس فیض اپنے بچپن کی کہانیاں لے کر بیٹھی ہے، پھر 1938 کے ہندوستان کا منظرنامہ اور اْسی منظرنامے میں وہ مس ایلس سے مسز ایلس فیض کیسے بنیں؟بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

وہ شملہ شہر جہاں28اکتوبر 1941 کو شادی ہوئی اور اْس شام کا منظرنامہ انھوں نے بڑی خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ ایک چھوٹی سی تھکی ہاری مٹی میں لپٹی بارات پہنچ ہی گئی۔ سب سے پہلے فیض نے شادی کی انگوٹھی دکھائی۔

ایلس نے پہن کر دیکھا‘ سائز بالکل ٹھیک تھا تو پوچھنے لگیں، تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟ تو فیض نے اپنی انگلی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اْسے سب سے پہلے اپنی انگلی میں پہنا تھا۔ میرا یہ سننا تھا تو فیض مزید کہنے لگے ، یہ چھلا سدا بہار محبت کی نشانی اور ابدیت کا چھلا ہے۔

ہم دونوں نے قہقہہ لگایا اور ہنس دیے۔ فیض جو ساڑھی لائے میں اْس کو پہن کر تیار ہو گئی۔ خوبصورت سنہرے تاروں سے بنے کام کی عنابی ساڑھی اور مختصر سی تعداد میں خواتین چھوٹی سی بیٹھک میں موجود اور ہم سب میں سب سے زیادہ خوش میری چھوٹی سی بھانجی سلمیٰ (سلمان تاثیر کی بہن) مجھ سے کہنے لگی آپ کی شادی ہو رہی ہے‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘۔

ایلس اس کتاب میں لکھتی ہیں کہ فیض نے نکاح کے بعد طلاق دینے کا اپنا حق بھی مجھے دے دیا اور پھر شادی کے بعد چند روز سری نگر میں گزارے وہاں سے پنڈی کا سفر کیا اور وہاں سے مجھے لاہور جانا تھا۔ لاہور میں فیض کے گھر والے موجود تھے۔

ایک پر ایک چڑھ کر گھونگھٹ سے میرا چہرہ دیکھنا چاہ رہے تھے۔ میرے ہاتھوں میں قرآن پاک تھما دیا گیا‘ میرا نیا نام کلثوم رکھ دیا گیا۔ گلے میں سونے کی زنجیر‘ ہاتھوں میں کڑے‘ زانو پر چاندی کے روپے اور میں سب کچھ چپ چاپ دیکھتی رہی۔

قارئین کرام! یہ ایلس فیض کی وہ خود نوشت ہے جو میں ایک عرصے سے پڑھنا چاہ رہا تھا اور دسمبر 2022 کی نیم ٹھنڈی لیکن بہت سی اداس راتیں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے گزرگئیں اور جی چاہ رہا ہے آپ بھی تو یہ کتاب پڑھیں کہ 2023میں اگر آپ کسی کو نئے سال میں اچھی کتاب کا تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں کہ ایلس فیض کی یہ کتاب واقعی فیض کی یادوں سے سجی ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔