حکمران کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا

عبد الحمید  جمعـء 9 دسمبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

کیا ہم میں سے کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ باپ اپنے پہلوٹی کے بیٹے کو قتل کر دے یا کروا دے حالانکہ وہ بیٹا تابعدار، قابل اور اچھے مستقبل کی نوید ہو۔ طلوعِ اسلام سے پہلے دنیا میں دو بڑی طاقتور سلطنتیں تھیں۔

مغرب میں رومن سلطنت تھی۔ مشرق میں فارس کی طاقتور سلطنت تھی۔ 308عیسوی کے لگ بھگ کانسٹنٹائن قیصرِ روم بنا۔ اسے کانسٹنٹائن دی گریٹ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ اپنی وفات 327عیسوی تک سریر آرائے سلطنت رہا۔ یہ وہی قیصرِ روم ہے جس نے اپنے مفاد کی خاطر روم اور مغرب میں عیسائیت کو جڑ پکڑنے میں مدد دی۔ رومن سلطنت 320کے لگ بھگ تفرقے کا شکار ہوگئی۔

کانسٹنٹائن غیر مقبول ہونا شروع ہوا اور اس کا پہلوٹی کا بیٹا شہزادہ کرس پس عوام کے دلوں میں تیزی سے جگہ بنانے لگا۔ کرس پس ایک قابل، سمجھدار اور منجھا ہوا جنگجو تھا۔ بادشاہ کو اپنے بیٹے کی اچھی شہرت اور مقبولیت سے خوف لاحق ہوا کہ کہیں وہ اس کی زندگی میں ہی اس کی جگہ نہ لے لے۔ عوامی بے چینی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک طرف بادشاہ نے اپنی سلطنت میں مذہبی طبقے کے سر پر ہاتھ رکھا۔

بادشاہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے پہلوٹی کے بیٹے شہزادہ کرس پس کو اپنی سلطنت کے ایک صوبے کروشیا کے ایک مقام پر قتل کروا دیا تاکہ اس کی زندگی میں اس کی حکمرانی کو کوئی چیلنج نہ ہو۔ کانسٹنٹائن نے مزید حکم دیا کہ سلطنت کے تمام ریکارڈ اور کاغذات سے شہزادہ کرس پس کا نام مٹا دیا جائے اور آئندہ کوئی اس کا نام تک نہ لے۔

پچھلے کئی سالوں میں ہمارے ٹی وی چینلوں پر برادر ملک ترکی کے سیریل ڈرامے بہت مقبول ہوئے، اس لیے بہت سے قارئین عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان Suleman the magnificient کے نام سے خوب واقف ہوں گے۔ سلطان سلیمان 6نومبر 1494 کو پیدا ہوا اور اپنے باپ سلطان سلیم اول کی وفات پر عثمانی خلیفہ بنا۔ سلطان سلیمان نے چھیالیس برس تک حکومت کی اور 1566میں فوت ہوا۔

سلطان سلیمان کا پہلا بیٹا طفلگی میں ہی فوت ہوگیا تو سلطان نے اپنے دوسرے بیٹے شہزادہ مصطفیٰ کی بہترین تربیت پر بہت توجہ دی۔ شہزادہ مصطفیٰ نے بھی بہت شوق اور محنت سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور بہت قابل، محنتی، سمجھ دار اور ماہر جرنیل بن گیا۔سلطان سلیمان نے اپنے دورِ حکومت میں یورپ میں دور دور تک فتوحات کیں اور ہنگری تک پہنچ گیا۔

اس نے شمالی افریقہ پر تسلط حاصل کیا اور مشرق میں ایرانی صفوی سلطنت کے خلاف بھی مہم جوئی کی۔ اس کے دور میں عثمانی بحری بیڑہ بہت شاندار تھا۔ سلطان نے یہ سب تو کیا لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کو ریاست کی سرپرستی نہ دی بلکہ مذہبی علماء کو ضرورت سے زیادہ قوت حاصل ہوئی۔ سلطان نے جنگ میں قید ہو کر آنے والی ایک عیسائی لونڈی کو حرم میں داخل کیا اور پھر وہ اس کی ملکہ اور کمزوری بن گئی۔

حورم کی محبت نے اسے بہت مغلوب کیا اور اس سے نہایت اہم امور میں غلط فیصلے ہوئے۔ شہزادہ مصطفیٰ عوام کی نظروں میں بہت مقبول تھا۔ سلطان کے ایک درباری ہاشم پاشا نے شاید حورم کے کہنے پر سلطان کے کان میں وسوسہ ڈالا کہ لوگ شہزادہ مصطفیٰ کو تخت پر دیکھنا چاہتے ہیں اور شہزادہ مصطفیٰ بھی دلچسپی رکھتا ہے۔

سلطان غضبناک ہوا اور شہزادے کو بلا بھیجا۔ شہزادہ جب اپنے والد سے ملنے اس کے خیمے میں داخل ہوا تو سلطان کے مصاحبوں نے اس کو دبوچ لیا۔ شہزادہ مصطفیٰ بہت بہادر اور ماہر جنگجو تھا۔ جب بہت سے اہلکار بھی شہزادے کی جان نہ لے سکے تو سلطان نے خیمے سے باہر نکل کر پہرہ داروں کو طلب کیا اور ان کو بھی قاتلوں کے ساتھ مل کر شہزادہ مصطفیٰ کو ختم کرنے کا حکم دیا۔

یوں سلطان سلیمان نے اپنے ہونہار اور قابل فخر ولی عہد بیٹے کو محض شک کی بنیاد پر مروا دیا۔ سلطان کے حورم سے تین بیٹے تھے۔ ان میں شہزادہ سلیم دوئم بہت نالائق، کند ذہن اور عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ حورم سے ہی سلطان سلیمان کا ایک بیٹا بیازد بہت قابل، جفا کش اور علم والا تھا۔ شہزادہ بیازد بھی محلاتی سازشوں کا شکار ہوا۔ اس کام کے لیے صفوی بادشاہ کو زرِ کثیر اور بہت سی رعائیتیں دی گئیں۔

صفوی بادشاہ نے شہزادے بایزید اور اس کے چار بیٹوں کو گرفتار کر کے تہہ تیغ کر دیا۔ اس طرح سلطان سلیمان نے پہلے اپنے ولی عہد مصطفیٰ اور بعد میں دوسرے بیٹے اور اپنے چار پوتوں کی جان لے لی۔ سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا جہانگیر اپنے بڑے بھائی کے اندوہناک انجام کو جان کر صدمے سے مر گیا۔ سلطان سلیمان کے قابل اور ہونہار بیٹوں کے بعد شہزادہ سلیم وارثِ تخت ہوا۔

برِ صغیر میں چوتھا مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر 30اگست 1569 کو پیدا ہوا۔ جہانگیر اپنے والد شہنشاہ اکبر کی امیدوں کے برعکس انتہائی کھلنڈرا اور غیر ذمے وار تھا۔ جہانگیر سے پہلے اکبر کے دو بیٹے حسن مرزا اور حسین مرزا بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔

بڑی دعائیں کرنے اور منتیں ماننے سے جب سلیم جہانگیر پیدا ہوا تو اکبر نے اس کی تعلیم و تربیت پر بہت دھیان دیا لیکن جہانگیر کو جہاں بانی کے امور میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

جہانگیر کے لا ابالی پن کو دیکھتے ہوئے اکبر نے جہانگیر کے بیٹے خسرو مرزا کو جانشین بنانے کا ارادہ کیا۔ کچھ تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ اکبر نے اپنے پوتے خسرو مرزا کے حق میں وصیت بھی کر دی تھی۔ بعد میں اکبر اور جہانگیر کے تعلقات میں بہتری آ گئی اور جہانگیر کو ہی جانشین مقرر کر دیا گیا لیکن اکبر کا پوتے کے حق میں سوچنا، پوتے کے حق میں جان لیوا ثابت ہوا۔ جہانگیر نے تختِ سلطنت سنبھالنے کے بعد خسرو کو تخت کی امید رکھنے کا مزہ چکھانے کے لیے لاہور میں کامران کی بارہ دری پر دربار منعقد کیا اور حکم دیا کہ خسرو مرزا کو پابجولاں اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

خسرو اور اس کے تین سو ساتھیوں کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خسرو میرزا کی آنکھیں نکال دی جائیں اور پھر مار دیا جائے۔ شہنشاہ جہانگیر کے کچھ درباریوں نے اجازت لے کر بادشاہ سے التجا کی کہ خسرو کو مارنے کے بجائے جلا وطن کر دیا جائے۔

جہانگیر نے درباریوں کی درخواست نا منظور کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ خسرو کو کامران کی بارہ دری سے شاہی قلعے لاہور تک گھسیٹا گیا اور اس کو موت سے ہمکنار کرنے کے لیے چھوٹے بھائی خرم)شاہ جہاں(کے حوالے کر دیا گیا۔

خرم نے اپنے بڑے بھائی کا چارج سنبھالتے ہی اس کی آنکھیں جلوا دیں اور کچھ عرصہ مزید اذیتیں دینے کے بعد مروا دیا۔خسرو کی موت سے شہزادہ خرم شاہ جہاں کے لیے تختِ ہندوستان کی راہ ہموار ہو گئی۔شاہ جہان نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے بیٹے اورنگ زیب کی جان لینے کی تین مرتبہ ناکام کوشش کی۔

کانسٹنٹائن،سلیمان اور جہانگیر کی مثالیں سامنے رکھیں تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار میں رہنے کے لیے کوئی رشتہ،کوئی تعلق اور کوئی بندھن بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی،اقتصادی اور سیاسی منظرنامے کو اس پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔