کہہ مکرنی کر مکرنی

وارث رضا  جمعـء 9 دسمبر 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

ہمارے جنم بھومی گاؤں دادومیں ایک شریفاں مائی تھی، جو پیشے کے لحاظ سے دائی تھی، چونکہ زمانے کی ترقی پذیری کے اس وقت میں زچہ کا اسپتال جانا معیوب اور حیا کے خلاف سمجھا جاتا تھا،سو اس واسطے نئی تولید گھر میں تجربہ کار دائیاں ہی کیا کرتی تھیں اور اس وقت تک وہ در نہ چھوڑتی تھیں جب تک وہ زچہ اور بچہ کی مکمل صحت یابی سے مطمئن نہ ہو جائیں۔

یہ ان دائیوں کا جہاں احساس فرض تھا وہیں وہ گھر کے فرد کی طرح سمجھی جاتی تھیں،یہی دائیاں زچہ و بچہ کے ابتدائی علاج کی کمال ڈاکٹر بھی ہوا کرتی تھیں اور مجال ان کے معاملے میں کوئی بولے یا انھیں رائے دے،یہ دائیاں گھر کی جہاں نگہبان ہوا کرتی تھیں وہیں یہ نوتے پہنچانے اور پیغام رسانی کا کام بھی کیا کرتی تھیں۔

اسی بنا یہ بلا کی رازداں اور مکمل جاسوس بھی ہوا کرتی تھیں، شریفاں دائی اکثر سب گھروں کے بڑوں سے تعلقات کی بنا پر بچوں کو ڈانٹنے اور ڈپٹنے کا کام بھی سر انجام دیا کرتی تھی۔

اس بنا محلے کے بچے دائیوں کے تعلقات سے خوف زدہ بھی رہا کرتے تھے،مگر ان تمام خصوصیات کے ہوتے ہوئے ان دائیوں میں مختلف گھروں کا رازداں ہونے کی بنا پر رازوں کا کافی ذخیرہ ہوا کرتا تھا سو شریفاں دائی اکثر اِدھر اُدھر کی لگائی بجھائی سے بھی پرہیز نہیں کیا کرتی تھی،شریفاں دائی رازوں سے لبریز اکثر باتوں کو لغو کی بنیاد پر بڑھا چڑھ کر بیان کرنے یا بات سے مکرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی تھی۔

اسی بنا اکثر خواتین اس لگائی بجھائی کو دائی کے پیٹھ پیچھے کہا کرتی تھیں کہ ذرا بچ کے رہا کرو شریفاں سے وہ’’کہہ مکرنی اور کر مکرنی‘‘ ہے۔ ہم اپنے بچپن میں اس کہہ مکرنی اور کر مکرنی پر نہ توجہ دیا کرتے تھے اور نہ ہی اس کی تشریح کی کبھی پرواہ کی،مگر جوں جوں شعور کی منازل طے کیں تو سمجھ آیا کہ ’’کہہ مکرنی اور کر مکرنی‘‘ کا مطلب شیخی بگھارنے کے لیے کوئی بھی بات کہہ جانا اور جب اس بات کی اصلیت سامنے آجائے تو صفائی سے مکر جانا ہے۔

گویا کسی طور شکست یا ناقص معلومات کسی دوسرے تک پہنچانے کی غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہی ماہرانہ صفت ہے۔

بچپن کی یادیں اور بزرگوں کی حکایتیں ایسا اثاثہ ہیں جو کبھی ضایع نہیں جاتا،بلکہ یہ دانش سے بھری حکایتیں ناخواندہ بزرگوں کے عمیق مشاہدے کا وہ سچ ہوتا ہے جو نصابی کتب یا یونیورسٹی میں نہیں ملتا بلکہ انسان اپنے تجربے سے سچ اور حق کے نتیجے پر پہنچتا ہے۔

آج کل ہماری سیاسی تاریخ میں رہنے والی غیر سول یا سول حکومتیں صرف اس وجہ سے ایک بے ڈھنگ اور اعلیٰ اقدار سے نبرد آزما ہیں کہ ان جملہ حکومتوں نے تعلیم دینے کی غرض سے وہ من پسند اور تاریخ سے نابلد نصاب اپنی نسل کو پڑھایا جس میں علم کی اعلیٰ اقدار اور تہذیب تو پروان نہ چڑھ سکی البتہ،جھوٹ فریب،دھوکہ،بدعنوانی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا۔

جس کا لازمی نتیجہ سیاسی اور اخلاقی تاریخ سمجھنے کے بر عکس جھوٹ کے پروپیگنڈے کو جدید ٹیکنالوجی سے اس نسل میں منتقل کیا جو سیاسی سے زیادہ اپنے نصاب کی بنیاد پر ہلڑ ہوئی اور پھر جھوٹ کے بیانیے ہی کو نئی نسل سوشل میڈیا کی بنیاد پر سچ سمجھنے لگی،حالانکہ پروپیگنڈہ تاریخی طور سے جنگی حکمت عملی کا وہ آلہ ہوتا ہے جو اپنے دشمن کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،مگر بھلا ہو ہمارے غیر آئینی اور غیر جمہوری حکمرانوں کا کہ جنہوں نے قوم کے رہنماؤں کی فیکٹری بھی خود ہی بنا لی اور اس کے پیداواری رہنما اور مختلف قوم پرست عوام کو دے کر اپنے مقاصد پورے کرتے رہے اور تا حال اب تک اسی تاک میں ہیں کہ سماج کی جمہوریت اور عوام کے بنیادی حقوق کو درست سمت نہ دی جائے۔

جہاں آمرانہ دور میں اپنی پسند کے سیاسی رہنما بنا کر قوم کو دیے گئے، وہیں ان میں سے چند رہنماؤں کے سیاسی شعور کے اجاگر ہونے کو بھی پسندیدگی سے نہ دیکھا گیا اور شاید اسی وجہ سے ان کے بدلتے تیور بھانپتے جنرل ضیا کے طالبان سوچ رکھنے والوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ نئے مہرے عمران خان کی نہ صرف تربیت کریں بلکہ عمران خان کو سیاسی داؤ پیچ بھی سکھائیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کے کتنے داؤ پیچ سے عمران خان کو آگاہ کیا اور بقیہ رہ جانے والی تربیت میں کتنا حصہ دیگر نے ڈالا،البتہ ان سب کی محنت و مدد کا نچوڑ عمران خان آخر میں ’’کہہ مکرنی اور کر مکرنی‘‘ کی عملی تفسیر کے طور پر عوام کے سامنے ضرور آگئے۔

کہہ مکرنی اور کر مکرنی کی اس حکایت کو عمران خان کے قول و فعل کے تضاد میں دیکھا جائے تو لاتعداد مثالیں دی جاسکتی ہیں جس کا احاطہ شاید ایک کالم میں کرنا ممکن نہ ہو،عمران خان کی چند وہ کہاوتیں اور مکرنے کو یوٹرن کہنے کی مثالیں قارئین کے گوش گذار ہیں،جن سے عمران خان اور انکے چاہنے والوں کی سیاسی بالیدگی کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

جنرل مشرف کے دور میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے مولانافضل الرحمن کو ووٹ دینے کا برملا اظہار کرنا اور بعد میں مولانا کو نازیبا خطابات سے نوازنا، جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کرنا اور بعد میں جنرل مشرف کے خلاف جسٹس افتخار چوہدری کی وکلا تحریک کی حمایت کرنا اور پھر بعد میں جسٹس افتخار چوہدری کو انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ اترنے والا منصف قرار دینا، میثاق جمہوریت کا حصہ بننا اور بعد میں اسی کو چوروں کا گٹھ جوڑ قرار دینا، الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کی سچائی اور بے داغ کردار کی تعریف کرنا اور الیکشن کے بعد جسٹس فخرو کو بے ایمان قرار دینا، اقتدار میں آنے کے لیے دو سو ارب کی منی لانڈرنگ کے پیسے ملک میں لانے اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلانے کا وعدہ کرنا اور پھر یو ٹرن لینا۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خود کشی قرار دینا اور پھر حکومت میں آکر آئی ایم ایف کی تمام عوام دشمن پالیسیاں ماننا،فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے بعد جسٹس فائز عیسی کو معطون کرنا اور اقتدار جاتے ہی جسٹس فائز کے خلاف مقدمے کو غلطی کہنا، ،آرمی چیف باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھنا اور انھیں جمہوریت پسند جنرل قرار دینا مگر اقتدار سے اترتے ہی ان کے خلاف بیان بازی کرنا ، جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو ملکی بقا اور سلامتی کی ضمانت قرار دینا اور پھر یہ کہنا کہ اسے ایکسٹنشن دینا میری سب سے بڑی غلطی تھی۔

الیکٹیبلز سیاست دانوں کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کرنا مگر ذاتی مفادات کے لیے انھیں ہی ٹکٹ دینا،لوٹوں کی سیاست پر شدید تنقید کرنا مگر پھر انھی کو وزیر بنانا،نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور پھر بعد میں موقف دینا کہ ہم نے نئی تعیناتی کا عمل خاموشی سے کروا کر مارشل لا کا راستہ روکا ہے۔

یہ اور اسی قسم کے انگنت جھوٹ اور غیر سیاسی دعوے کرتے رہنا اور ان سے مکر جانے کے فن کے داتا عمران خان کی پٹاری میں نجانے اور کتنے جھوٹ قینچلی دبائے بیٹھے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا مگر یہ طے ہے کہ کم از کم ہماری دائی شریفاں نے ’’کہہ مکرنی کر مکرنی‘‘ کے عمل دوران عمران خان ایسے یو ٹرن ہرگز نہ لیے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔