تقسیمِ رزق کی حکمتیں

راحیل گوہر  جمعـء 9 دسمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ربّ کائنات نے اپنی حکمت و مصلحت کے تحت انسان کو بہت قلیل عقل و فہم عطا کیا ہے۔

صرف اتنا ہی جس سے وہ اس دنیا میں اپنی زندگی کے معاملات بہتر طریقے سے طے کر سکے، حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھے، اپنے لیے اپنے متعلقین اور دیگر لوگوں کے لیے دنیا کی نعمتوں سے فائدے پہنچانے کا ذریعہ بنے اور ایک اچھا انسان بن کر احترامِ آدمیت کا ثبوت دے سکے۔

اس لیے کہ اجتماعیت کا مقصد ہی ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور ان کو تقویت پہنچانا ہے۔ یہ تقویت ہی انسان کی اپنی شناخت بنتی ہے۔ ورنہ کسی چیز کے ٹکڑے ہوجائیں تو وہ وقت اور حالات کی تیز و تند آندھی کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ان کی کوئی شناخت اور پہچان باقی نہیں رہتی۔

مگر انسان کی زندگی کے کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جنہیں وہ سمجھ نہیں پاتا اس لیے کہ اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں ہے، چوں کہ یہ باتیں علوم غیب سے تعلق رکھتی ہیں جن کا نہ جاننا ہی انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔

سارے پردوں کا آنکھوں کے سامنے سے اُٹھ جا نا تو ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ غیب کے ان امور میں ایک حساس پہلو انسان کے رزق کا ہے۔ جس کی تقسیم اس کے سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ یہ انسان کے اپنے ذہن کی اختراع ہے کہ رزق میں کمی بیشی اس کے لیے عزت و ذلت کا باعث بنتی ہے۔

اگرچہ ایسا ہرگز نہیں ہے، انسان کے رزق میں کمی بیشی میں اﷲ کی کئی مصلحتیں اور حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے رزق کی فراوانی اس کے لیے اﷲ سے سرکشی اور نافرمانی کا سبب بنتی ہے جسے اﷲ پسند نہیں کرتا۔ اور بسا اوقات رزق کی تقسیم میں انسان کی آزمائش اور اس کی بندگی کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے، مفہوم: ’’اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصانات سے تمہاری آزمائش کریں گے۔ تو صبر کرنے والوں کو (اﷲ کی خوش نُودی) کی بشارت سنا دو۔‘‘ (البقرہ)

ان آیاتِ مبارکہ میں جن چیزوں کے نام گنائے گئے ہیں وہ سب محض انسان کی آزمائش اور اس کا امتحان ہیں۔ چناں چہ جو شخص بھی ان سب آزمائشی مراحل سے صبر و تحمل کے ساتھ گزر گیا وہی اﷲ کی نظروں میں کام یاب اور فلاح پانے والا ہے۔ دراصل ہماری یہ زندگی تو ہے ہی امتحان اور مسلسل امتحان، اور یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔

اس حقیقت کو جو بھی سمجھ گیا اس کے لیے نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی خوف! ہر بندہ اﷲ کا غلام ہے جسے اپنی بندگی کا ثبوت اسی دنیا میں اﷲ کے سامنے پیش کرنا ہے جس کا دورانیہ اس کی موت پر ہی ختم ہوتا ہے، اور اس وقت تک آزمائشوں کے دائرے میں ہی سفر کرتا رہتا ہے، یہ اس کی مجبوری ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں!

ارشاد الٰہی ہے، مفہوم: ’’اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے۔‘‘ (الملک )

رزق کی ترسیل کا معاملہ سراسر اﷲ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور اس کی مصلحت پر منحصر ہے کہ وہ کس کے رزق میں فراوانی کرتا ہے اور کس کی رزق میں تنگی، اس کا فیصلہ ا سی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

البتہ یہاں یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو بہ ظاہر بدکار، گم راہ، بے راہ روی میں مبتلا اور خدا ناشناس ہے، بلکہ وہ اﷲ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مانتا ہی نہیں وہ یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے، دنیا کی تمام آسائشیں اسے حاصل ہیں، رزق اتنا مل رہا ہے کہ اس کی ناقدری کی جارہی ہے اسے ضایع کیا جارہا ہے، اللے تللے ہو رہے ہیں۔

اس کے کتّوں کو بھی وہ کچھ مل رہا ہے جو ایک ضرورت مند انسان کو بھی میسر نہیں ہوتا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے رزق کی وسعت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، وہ مٹی کو ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔

جب کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو نیکو کار اور صالح ہے، حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہے اور اپنے دائرہ اختیار میں حتی الامکان اﷲ کی نافرمانیوں سے دامن بچا تا ہے مگر نظر یہ آتا ہے کہ وہ بے چارہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی پوری طرح فیض یاب نہیں ہوتا۔

صبح سے شام تک وہ جسم کو تھکا دینے والی اور جاں گسل محنت کرتا ہے مگر اس محنت سے اس کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو پاتیں اور جس کی وجہ سے وہ کبھی اپنی زندگی سے بھی مایوس ہوجاتا ہے، اﷲ کی طرف سے بھی اسے بدگمانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ آئے دن اخبارات اور میڈیا پر جو خبریں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں کہ فلاں آدمی یا عورت نے غریبی، مفلسی اور فاقہ کشی سے تنگ آکر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جان سے مار کر خود بھی خودکشی کرلی، یہ سب اسی مایوسی، کسمپرسی، بھوک، پیاس اور احساسِ محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

دراصل یہ دنیا اور اس میں ملنے والی زندگی میں اﷲ کی جو مصلحتیں اور حکمتیں کام کر رہی ہیں ان کو انسان سمجھ نہیں پاتا۔ اپنے مسائل، پریشانوں اور بنیادی ضرورتوں کی محرومی اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بے کار کردیتی ہے۔

قرآن و حدیث کی تعلیمات سے لاعلمی اس کی عقل و فہم کو ناکارہ کر دینے کا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ اگر دینی تعلیم سے اسے آگاہی ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ جو انسان اس دنیا میں اﷲ کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے اس کے نعم البدل کے طور پر اسے آخرت میں کتنے بیش بہا انعامات ملنے والے ہیں اس کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اور فرض کریں اگر کسی کو اﷲ کی بے شمار نعمتیں یہاں میسر آ بھی گئیں تو اس سے کتنے دن فائدے اٹھا سکتا ہے۔ موت کا کسی کو بھی پتا نہیں کہ کب سامنے آکھڑی ہو۔

عمر بن عبدالعزیزؒ صاحبِ ثروت انسان تھے، جب ریاست کی ذمے داریاں سنبھالیں تو سب کچھ بیت المال میں جمع کروا دیا۔ اس دوران عید کا تہوار آگیا ، بیت المال سے جو مشاہرہ ملتا تھا اس میں گزارہ تنگی ترشی سے ہوتا تھا، چناں چہ صاحب بیت المال سے کہا کہ مجھے ایک ماہ کی تن خواہ پیشگی دے دیں بچوں کے نئے کپڑے بنانے ہیں، میں ایک مہینے کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے یہ رقم واپس کر دوں گا، صاحب بیت المال نے عرض کی: کیا آپ کو یہ یقین ِ کامل ہے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہ سکیں گے۔

اس جواب سے عمر بن عبدالعزیزؒ کی آنکھیں کھل گئیں اور پھر پورے شہر نے دیکھا کہ شہر کا ہر بچہ عید کے نئے کپڑے زیب تن کئے ہوا تھا اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ کیا تھا ؟ یہ وہ سوچ تھی کہ یہ دنیا عارضی ہے، یہاں کی آسائشیں اور یہاں کی تکالیف بھی عارضی ہے۔ یہاں نہ عیش و آرام ہمیشہ رہیں گے اور نہ دکھ، تکلیف اور مصائب و آلام، جب انسان ہی ہمیشہ نہیں رہے گا تو پھر آسائشیں اور کلفتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟ انسانی زندگی تو پانی کا بلبلہ ہے ابھی بنا ابھی پھوٹا، جو سانس اندر گئی ہے کیا پتا وہ واپس آئے نہ آئے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ ننھے ننھے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر ماں باپ کا پتّا پانی ہوجاتا ہے ، خاص طور پر ماں تو ایسے موقع پر تو گویا انگاروں پر لَوٹ رہی ہوتی ہے۔ انسان پر ایک دیوانگی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر اس ہول ناک صورت حال سے مغلوب ہوکر بچوں اور اپنی جان کے درپے ہوجانا بھی نہ مسئلے کا حل ہے اور نہ عقل و فہم کی علامت۔ کیوں کہ رزق میں کمی بیشی بھی مشیّت ایزدی کا تقاضا ہے، انسان کو جو زندگی اور موت کی حقیقت سمجھائی گئی ہے جس کا مرکزی نقطہ آزمائش ہے اس پر اسے نظر رکھنی چاہیے۔ اﷲ کے رزق اور اس کی دیگر نعمتوں کی تقسیم سے انحراف کرنا اور سرکشی کی روش اختیار کرنا، دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کردینے کا باعث ہے۔ کیوں کہ ربّ، ربّ ہے اور بندہ، بندہ!

ارشاد الہٰی کا مفہوم ہے: ’’اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ کردی جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘ (طہٰ)

انسان کی زندگی کا تنگ ہونا اور اس کے رزق میں کمی کا ایک سبب اﷲ کے احکامات سے اعراض برتنا ہے، رزق اس کا کھائیں اور بندگی اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی کریں تو اس سے بڑی احسان فراموشی اور کیا ہوگی۔ اس دنیا میں اکثریت کی طرز ِزندگی کچھ ایسی ہی ہے مگر انہیں اس کا کوئی احساس ہی نہیں۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ جو لوگ کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں وہ تو بہ ظاہر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں ، یہ کیا ماجرا ہے؟

حدیث مبارکہ میں ایسے لوگوں کے لیے فرمایا گیا ہے، مفہوم: ’’یہ دنیا قید خانہ ہے مومن کے لیے اور جنّت ہے کافر کے لیے۔‘‘ (مسلم)

قرآن و حدیث کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی ہر اعتبار سے انسان کے لیے آزمائش اور امتحان ہی ہے۔ اگر وہ عیش و نشاط کی زندگی گزار رہا ہے تو شُکر کے ذریعہ سے اس کا آزمائش کی جا رہی ہے اور اگر غربت و افلاس، کسمپرسی اور مصائب میں کسی کا وقت گزر رہا ہے تو وہ صبر کے امتحان میں مبتلا ہے۔ دونوں ہی آزمائش و امتحان کے حصار میں مقید ہیں، جس کا اچھا یا بُرا نتیجہ آخرت کے دن برآمد ہوگا۔ اور جو ان دونوں حالتوں میں صبر اور شُکر کی روش اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں اﷲ کے رسول ﷺ نے بڑی حوصلہ افزا بات فرمائی ہے، مفہوم: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اﷲ کا شُکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لیے خیر ہیں۔‘‘ (مسلم)

ان دونوں حالتوں کا انسان کے لیے خیر ہونا اس کے مومن ہونے سے مشروط ہے۔ انسان کے لیے اس کا کوئی عمل بھی خیر ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دل ایمان سے مزین نہ ہو۔ اس کے ہر عمل کا اﷲ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرنا ایمان کی بہ دولت ہی ہے، ایمان نہ ہو تو اچھے سے اچھا عمل او راس کی نیکی صفر ہوجاتی ہے۔

انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اﷲ کی طرف سے جو نعمتیں اسے میسر ہوتی ہیں اس کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، مگر جن نعمتوں سے وہ محروم ہے اس کا رونا روتا رہتا ہے۔ اصل میں وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے کہ اﷲ نے اپنے جن بندوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے ان کو بھی بہت ساری دوسری نعمتوں سے محروم رکھا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کے ہر انسان کے حالات سے واقف نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ تو غیبی امور ہیں جن سے خالق ارض و سماء ہی پوری طرح واقف ہے۔ انسان کی عافیت تو راضی بہ رضا رہنے ہی میں ہے۔ اﷲ کے سامنے تو اپنے وقت کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرکشوں اور سورماؤں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک عام انسان کی حیثیت ہی کیا ہے! تیز و تند ہواؤں میں اڑتا ایک حقیر ذرّہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔