زیادتی کیسز؛ حکومت اور پولیس جان لیں قانون پر عمل کے سوا کوئی رستہ نہیں، عدالت

ویب ڈیسک  جمعـء 9 دسمبر 2022
قانون پر عملدرآمد نہ کرنا پولیس اور حکومت کا افسوسناک رویہ ہے، عدالت عالیہ (فوٹو فائل)

قانون پر عملدرآمد نہ کرنا پولیس اور حکومت کا افسوسناک رویہ ہے، عدالت عالیہ (فوٹو فائل)

 لاہور: ہائی کورٹ نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں قانون پر عملدآمد نہ ہونے پر پولیس، محکمہ داخلہ و قانون کے سینئر افسران کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت اور پولیس جان لیں کہ قانون پر عمل کے سوا کوئی رستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق  زیادتی کا شکار یتیم لڑکی نور بخت کی درخواست پر سماعت جسٹس علی ضیا باجوہ نے کی، جس میں ہائی کورٹ نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے محکمہ قانون اور محکمہ داخلہ کے سینئر افسران کو بھی تفصیلی جواب سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں: یتیم لڑکی سے زیادتی؛درخواست ضمانت خارج ہونے پر ملزم عدالت سے فرار

درخواست گزار کی جانب سے میاں داؤد ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ زیادتی کا یہ کیس پولیس کی ناقص تفتیش کی بہترین مثال ہے کہ رپورٹ میں ڈین این اے میچ ہونے کے باوجود خاتون تفتیشی نے لکھا کہ زیادتی نہیں ہوئی۔ پنجاب بھر میں پولیس جنسی زیادتی کی متاثرہ خواتین کے ساتھ یہی سلوک کر رہی ہے۔

وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں خاتون تفتیشی افسر فرزانہ مشتاق نے بھاری رشوت کے عوض ثبوتوں کے خلاف ملزم کے حق میں تفتیش لکھی۔ ناقص تفتیش کی ایک ہی وجہ ہے کہ انسداد جنسی زیادتی ایکٹ پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس کیس کو مثال بنا کر دیکھ لیا جائے کہ پولیس جنسی زیادتی کے متاثرین کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ متاثرہ لڑکی نے 2 ماہ سے تفتیش تبدیلی کی درخواست ڈی آئی جی کو دے رکھی ہے، تاہم ملزم اتنا بااثر ہے کہ تفتیش ہی تبدیل نہیں ہونے دے رہا۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے زیادتی کے مقدمات کی تفتیش خصوصی ٹیم سے کروانے سے متعلق سمری محکمہ داخلہ کو بھیج رکھی ہے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ معاملہ سمریاں بھجوانے سے نہیں بلکہ قانون پر واضح عملدرآمد سے حل ہوگا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون پر عملدرآمد نہ کرنا پولیس اور حکومت کا افسوسناک رویہ ہے۔ بتایا جائے کہ حکومت اور پولیس کیوں اس قانون پر عمل نہیں کرنا چاہتی۔حکومت اور پولیس کو بتا دیں کہ اس قانون کے عملدرآمد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ عدالت نے 15 دسمبر تک تمام افسران کو تفصیلی جوابات سمیت پیش ہونے کا حکم دیدیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔