نیا میثاق جمہوریت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 10 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عمران خان ایک نئے دلچسپ کردار کے ساتھ سیاسی منظرنامہ پر ابھرے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اقرار کیا کہ جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کرنا ان کی غلطی تھی۔

عمران خان نے اس انٹرویو میں الزام لگایا کہ جنرل (ریٹائرڈ )باجوہ نے ان کی حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے دہرا کردار ادا کیا، وہ مختلف سیاسی رہنماؤں کو مختلف ہدایات دیتے تھے۔

عمران خان نے پھر اقرار کیا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنا ان کی غلطی تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بااختیار وزیر اعظم بنیں گے۔دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو جنرل صاحب نے مشورہ دیا کہ انھیں عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ آپ کے لیے عمران خان والا راستہ بہتر ہے۔ جنرل باجوہ نے ڈبل گیم نہیں کی۔پرویز الٰہی نے مزید کہا کہ سابقہ ناتجربہ کار ٹیم نے پنجاب کا بیڑا غرق کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن پر بات چیت ہونی چاہیے، فائدہ پی ٹی آئی اور پنجاب کا ہوگا۔

عمران خان کے اپنی غلطیوں کے اقرار اور وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے بیانات سے بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ حالات حاضرہ اور ملک کی سیاست پر نظر رکھنے والے مدبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے صرف چند غلطیوں کا اقرار کیا ہے ۔ عمران خان اور ان کی جماعت درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔

ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو جب دوسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئیں تو انھیں ڈھائی سال تک حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کو تین سال تک اقتدار میں رہنے کا موقع ملا ۔ دونوں منتخب وزرائے اعظم نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی روش اختیار کی تھا۔

دونوں رہنماؤں نے داخلی اور مالیاتی امداد میں بھی اس طرح کے فیصلے کیے تھے کہ اسٹبلشمنٹ کا کردار محدود ہوا۔ دونوں رہنما بھارت سمیت دیگر پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات کے لیے کوشاں رہے مگر دونوں حکومتیں شفافیت کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نظام چلانے میں ناکام رہی تھیں۔

اسٹبلشمنٹ کے مفکرین خیال تھا کہ دونوں جماعتوں کی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا جائے اور سماجی شعبہ سے ایسے فرد کو سامنے لایا جائے جو عوام میں پہلے سے مقبول ہوں، یوں قرعہ فال عبدالستار یدھی اور عمران خان کے نام کا نکلا۔ عبدالستار ایدھی نے انکار کر دیا۔

عمران خان کی زندگی پر بہت سے اعتراضات ہوچکے ہیں مگر ان کا مسٹر کلین کا کردار خوب روشن ہوا۔ عمران خان نے اپنی جماعت بنائی۔ تحریک انصاف میں جو لوگ سب سے پہلے شامل ہوئے ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے قریبی روابط رکھتے تھے۔

بہرحال عمران خان کے کھیل کا دوسرا حصہ 2013 میں شروع ہوا جب ان کا اچانک علامہ طاہر القادری سے اتحاد ہوا اور دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے خراب موسم میں بھی کئی دن تک ہزاروں افراد کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں جمع رکھا۔ عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے مسئلہ پر رائے عامہ کو ہموار کرنا شروع کریا، انھوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ۔ اس دھرنا میں لینڈ مافیا کی حمایت انھیں مکمل حاصل رہی۔ ایک منصوبہ کے تحت مختلف جماعتوںکے بااثر افراد کو بھیج کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا ایک نیا دور آیا۔

اس دور میں مسلم لیگ ق سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ علیم خان اور جہانگیر ترین مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر تحریک انصاف کی بس میں سوار ہوئے۔ 2018کے انتخابات سے کچھ ماہ قبل سرائیکی وسیب کے علاقہ سے ماضی میں منتخب ہونے والے اراکین کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ ان میں عثمان بزدار بھی شامل تھے جنھیں پنجاب کی قیادت سونپ دی گئی اور جن کے کارنامے عمران خان بتاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔

عمران خان کی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر حقیقی طور پر عمل کیا۔ تحریک انصاف کے قائدین اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحہ پر ہونے کا نعرہ لگاتے رہے مگر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے تھے۔ عمران خان کی حکومت ڈکٹیشن پر چل رہی تھی۔

عمران خان کی پالیسیوں کے نتیجہ میں پاکستان بین الاقوامی منظرنامہ میں تنہائی کا شکار ہوا۔ توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کے مسئلہ پر فرانس سے تعلقات خراب ہوئے۔ طالبان کی سرپرستی کرنے پر امریکا، پاکستان سے دور ہوا۔ عمران خان سعودی ولی عہد کے طیارہ میں امریکا گئے مگر وہاں جا کر ملائیشیا اور ترکی کے مؤقف کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

سعودی حکومت کاطیارہ جب وہ عمران خان کو لے کر وطن واپس آرہا تھا واپس بلالیا۔ عمران خان کو بغیر پروٹوکول کے نیویارک ایئرپورٹ پر اترنا پڑا۔ عمران خان نے امریکا کے دورہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے انڈراسٹینڈنگ بنائی۔ ٹرمپ نے دعویٰ کردیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر مصالحت کرائیں گے۔

بھارت کی حکومت نے صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے فوراً بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بھارت میں ضم کردیا۔ عمران خان نے دوست عرب ممالک سے مدد مانگی مگر وہ بھارت کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدوں میں منسلک ہوئے۔

عدم اعتماد کی تحریک کا نقشہ تیار ہوا اور عمران خان کے اتحادی اسے چھوڑ گئے تو عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگی مگر خان کو ان سے مایوس ہونا پڑا۔ انھوں نے امریکا اور اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ عمران خان کی حکومت کی ناقص پالیسیاں موجودہ حکومت کو ورثہ میں ملیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ نے عالمی معیشت کو متاثر کیا۔

آئی ایم ایف نے ماضی کے تجربات کی طرح سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ موجودہ حکومت ایک عوامی حکومت نہ بن سکی اور اپنے محدود منڈیٹ کی بناء پر وہ عوام کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے میں ناکام رہی جس کے نتیجہ میں مہنگائی اتنی بڑھی کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔

عمران خان نے پنجاب میں اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ خیبرپختون خوا میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والے گروہوں نے ان کی حمایت کی مگر عمران خان اپنی عوامی طاقت حاصل کرنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ سے مدد کے منتظر ہیں اور اب بھی انھیں مولانا فضل  الرحمن کے اس مشورہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ سیاست دانوں کو گالیاں دینا بند کردیں ، ایک نئے میثاق جمہوریت کے لیے مذاکرات کریں۔

ایک نیا میثاق جمہوریت تیار کیا جائے جس میں سویلین سپرمیسی یقینی ہونی چاہیے۔ عمران خان کو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوگا ،ورنہ ان کی جدوجہد رائیگاں جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔