سیاسی فضاؤں میں تبدیلی کی گونج برقرار

عارف عزیز  منگل 1 اپريل 2014
وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے امیدوار عوام سے رابطوں اور سیاسی جوڑ توڑ  کے لیے سرگرم نظر آئیں گے۔ فوٹو : فائل

وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے امیدوار عوام سے رابطوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے لیے سرگرم نظر آئیں گے۔ فوٹو : فائل

کراچی:  سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ایک مرتبہ پھر صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کا شور سنائی دے رہا ہے۔

جیسے جیسے وقت گزرے گا سیاسی جماعتوں کے امیدوار عوام سے رابطوں اور سیاسی جوڑ توڑ  کے لیے سرگرم نظر آئیں گے اور کراچی میں بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی۔ کراچی کے شہری بنیادی ضروریات اور سہولیات کی عدم فراہمی کا شکوہ کرتے کرتے تھک چکے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا چناؤ کر کے اپنے مسائل اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ منتخب بلدیاتی نمائندے ہی شہری مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس افسر شاہی اور  سرکاری اثر رسوخ کے ذریعے شہری اداروں میں عہدے حاصل کرنے والے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے التوا سے قبل کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور جوڑ توڑ کے دوران اس میدان میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی نظر آرہے تھے۔

انہی دنوں عدالت میں الیکشن کمیشن، صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کی تیاریاں مکمل نہ ہونے، امن و امان کی خراب صورت حال، مردم شماری، حلقہ بندیوں پر اعتراضات اور دیگر امور پر درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان بلدیاتی نظام اور انتخابات سے متعلق زبردست اختلافات کے بعد ان کے درمیان فاصلے بڑھے تھے۔ دونوں جماعتوں کے راہ نماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے سیاسی ماحول خاصا گرم رہا اور پھر عدالت کی جانب سے التوا کا فیصلہ سامنے آگیا۔ اب یہ جماعتیں ایک مرتبہ پھر سیاسی اتحاد اور مفاہمت کی جانب بڑھ رہی ہیں اور اس سلسلے میں جلد ہی اہم اعلان متوقع ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 15نومبر تک انتخابی عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایم کیو ایم کا حکومت سندھ میں شمولیت کا فیصلہ ہو گیا تو متوقع الیکشن میں ان جماعتوں کے مابین اختلافات کا فائدہ اٹھانے کے لیے  تیار جماعتوں کو شدید مایوسی ہو گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادتوں کے درمیان سیاسی رابطوں کے بعد ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ تاہم کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ سیاسی مبصرین ان جماعتوں کے مابین رابطوں کو متوقع بلدیاتی الیکشن سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے  بلاول ہاؤس میں پارٹی کے راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، جس میں مختلف پارٹی امور اور سندھ کی سیاسی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ پی پی پی کے راہ نما رحمن ملک سے ملاقات میں  ایم کیو ایم سے مذاکراتی عمل زیرِغور آیا۔ باخبر ذرایع کے مطابق ان رابطوں میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور رحمٰن ملک اس سلسلے میں کافی سرگرم ہیں۔ ایم کیو ایم کی حکومت میں ممکنہ شمولیت سے جُڑی وزارتوں کا معاملہ بھی حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ پچھلے ہفتے آصف علی زرداری سے پی پی پی کراچی ڈویژن کے صدر قادر پٹیل نے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔ پی پی پی کے راہ نما نے قیادت کو کراچی میں پارٹی کے تنظیمی امور پر بریفنگ دی۔

گذشتہ دنوں ملیر میں ووٹرز آگاہی مہم کے سلسلے میں تقریب ضلعی الیکشن کمشنر نوید عزیز کی صدارت میں ہوئی۔ قائم مقام ریجنل الیکشن کمشنر سید نوید حیدر، رکن صوبائی اسمبلی وقار حسین شاہ بھی اس میں شریک تھے۔ اس تقریب میں پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ این جی اوز کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں بتایاگیاکہ ووٹر کے اندراج کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے، لیکن اس کا حصول نادرا کے طریقۂ کار نے بہت مشکل بنا دیا ہے۔ سید نوید حیدر اور نوید عزیز نے شرکا کو یقین دہانی کرائی کہ الیکشن کمیشن ووٹرز کے اندراج کے لیے ہر سہولت فراہم کرے گا۔ عوامی نمائندے اور سماجی تنظیمیں عوام کو ووٹ کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں تاکہ ووٹ کاسٹ کی شرح میں اضافہ کیا جاسکے۔

پچھلے دنوں عوامی نیشنل پارٹی (سندھ) کی آرگنائزنگ کمیٹی کا اجلاس مردان ہاؤس میں چیئرمین الطاف خان ایڈووکیٹ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کراچی سمیت سندھ میں بھر میں اضلاع کی سطح پر پارٹی الیکشن کے شیڈول کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں باچا خان مر کز سے جاری کردہ اعلامیے میں مختلف اضلاع میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہے۔

دوسری طرف جماعت اسلامی کراچی کے امیرحافظ نعیم الرحمن نے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن سے قبل حد بندی اور ووٹر لسٹوں سمیت تمام معاملات حل کیے جائیں۔ اسی کے ذریعے شفاف اور غیر متنازع انتخاب میں عوام کا حقیقی مینڈیٹ سامنے آسکے گا۔ انہوں نے کہاکہ ٹھپا مافیا اور جعلی مینڈیٹ کے راستے بند کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا ہے، مگر صوبائی حکومت نے اس کے خلاف اپیل دائر کی ہے، جس سے اس کی بدنیتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ادھر آل پاکستان مسلم لیگ کے کارکنان نے اتوار کو کراچی پریس کلب کے باہر پرویز مشرف کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف محب وطن ہیں اور فوج کے سربراہ رہے ہیں، ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنا زیادتی ہے۔ ان کا مطالبہ تھاکہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ واپس لیا جائے اور انہیں رہا کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔