’’تاریخ‘‘ بنتی جا رہی ہے اور ’’حال‘‘ پر کوئی نگاہ نہیں

نصرت جاوید  بدھ 2 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

لکھنا میں اس بھلے آدمی کے بارے میں چاہ رہا تھا جو کچھ معاملات پر ایک سوچی سمجھی رائے رکھتا ہے مگر اسے بیان بڑے منطقی اور مہذب انداز میں کرتا ہے۔ اس کی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر مشتعل ہو جانا ممکن ہی نہیں۔ اپنے دھیمے پن کے باوجود نشانہ بنا اور موت اسے تقریباً چھو کر گزر گئی۔ یہاں تک پہنچتے ہی مگر میرے ذہن میں خیال یہ آیا کہ اگر مر بھی جاتا تو ’’نجی ٹیلی وژن کا ایک اینکر پرسن‘‘ ہی رہتا۔ سوائے اس کے اپنے ادارے کے لوگوں کے کوئی اور اس کا نام تک بھی نہ لیتا۔ بے بسی اور تنہائی کے اس شدید احساس کے بعد میں فی الوقت Safe-Safe کھیلنے پر مجبور ہوں۔ ٹُک ٹُک مصباح الحق اور Safe-Safe سوچتے ہی انگریزی والا Win-Win بھی یاد آ گیا جس میں کوئی قضیہ اس طرح حل ہو جاتا نظر آتا ہے جس میں کسی ایک فریق کی جیت نہیں ہوتی۔ سب فریقین کے ہاتھ دُنیا کو دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ آ جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے تو صرف اتنی کہ مشرف صاحب کے حوالے سے اس Win-Win تک پہنچنے کے لیے اتنی دیر کیوں لگی۔ یہ کام کئی ہفتے پہلے بھی ہو سکتا تھا۔

’’تاریخ‘‘ ایک حوالے سے یقیناً بنی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل مشرف تک پہنچتے ہوئے اس ملک میں جمہوریت کبھی کبھار ہی نظر آتی رہی۔ 2007 میں اپنے ’’انکار‘‘ کے بعد افتخار چوہدری صاحب نے بھی ’’تاریخ‘‘ ہی تو بنائی تھی۔ یہی ’’تاریخ‘‘ ان کی پہلے جنرل مشرف اور پھر آصف علی زرداری کے ہاتھوں بحالی تک مسلسل بنتی رہی۔ تاریخ بناتے بناتے اس ملک میں واقعہ یہ بھی ہوا کہ ایک وزیر اعظم کو اسمبلی میں واضح اکثریت کے باوجود چٹھی نہ لکھنے کی پاداش میں گھر جانا پڑا۔ ان کی جگہ جو وزیر اعظم آیا اس نے چٹھی لکھ کر اپنی جان چھڑائی۔ چٹھی لکھے جانے کے باوجود مبینہ طور پر کروڑوں ڈالر والی بھاری رقم ملکی خزانے میں واپس نہیں آئی۔

ایک منتخب وزیر اعظم کو فارغ کرنے کے بعد کوئی بھی عدالت جنرل مشرف صاحب کے ساتھ فدویانہ برتائو نہیں کر سکتی تھی۔ پنجابی کے اُس محاورے والا عمل جو ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو بالآخر دانتوں سے کھولنے کا ذکر کرتا ہے۔ مشرف کا شکریہ کہ انھوں نے بالآخر عدلیہ کی ’’تاریخی مجبوریوں‘‘ کا ادراک کر لیا۔ صرف ایک صحافی ہوتے ہوئے مجھے ان کے دور میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود پوری دیانت داری سے اس بات پر بضد ہوں کہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘ والی بات ذہن میں رکھتے ہوئے وہ ’’تاریخ بنانے‘‘ کا سب کام اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے۔

1985 سے اسلام آباد میں بیٹھا حکومتوں کی آنیاں، جانیاں بڑے قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ حکمران فوجی ہو یا جمہوری، مجھے ہمیشہ چند لوگوں کی نفرتوں اور خواہشوں کو پورا کرتا محض ایک آلہ کار ہی نظر آیا۔ ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کسی طرح صرف میری ذات ہی کو نہیں خلقِ خدا کو بھی سمجھایا جا سکے کہ بظاہر طاقتور نظر آنے والے حکمرانوں سے فیصلے کیسے کروائے جاتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے پہلے دورِ حکومت میں دو مرتبہ مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ سے گھر بھیج دیا گیا۔ اس طیارے کے اُڑنے سے چند ہی گھنٹے پہلے جسے وزیر اعظم کو لے کر پہلے جاپان اور دوسری بار جرمنی جانا تھا۔ 1994 میں بطور اپوزیشن لیڈر مجھے میرے والد کی وفات پر پرسہ دینے آئے تو بار بار نواز شریف ایک ہی سوال کرتے رہے۔

’’آپ کو ابھی تک یہ پتہ کیوں نہیں چل سکا کہ آپ کو ایئرپورٹ سے کیوں لوٹا دیا گیا تھا۔ میں نے تو ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ یہ سب کیسے ہوا؟‘‘۔ میں سوائے منافقانہ مسکراہٹ کے اور کوئی جواب نہ دے پایا۔ ایک عام آدمی ہوتے ہوئے میری ذاتی عزت یا بے عزتی کوئی اہم بات نہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کے روز جنرل مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ تو بہت ہی اہم تھا۔ وہ فیصلہ تو صرف اور صرف نواز شریف صاحب نے کیا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود انھوں نے قوم کو یہ بتانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ وہ کونسی ٹھوس وجوہات تھیں جن کی بناء پر انھوں نے ایسا ’’تاریخی‘‘ فیصلہ کر ڈالا اور پھر کئی برس تک اس کی وجہ سے جلاوطنی بھگتے رہے۔

جنرل مشرف صاحب کے پاس اب تاریخی موقعہ ہے کہ عدالت میں اپنی پیشی کے ذریعے ہمیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ افتخار چوہدری صاحب کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہوا تھا۔ 3 نومبر کا انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے انھوں نے چوہدری شجاعت حسین کو چند طویل اجلاسوں میں شرکت کے لیے بلایا تھا۔ میں یہ بات پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اور مشاہد حسین سید انھیں یہ قدم اٹھانے سے روکتے رہے۔ باقی بہت سارے لوگوں نے مگر مشرف صاحب کو ہاں کہی ہو گی۔ وہ کون لوگ تھے؟ یہ خبر ہمیں صرف جنرل مشرف ہی دے سکتے ہیں۔ ان کے نام سامنے آئیں تو ’’اعانت‘‘ وغیرہ کی بات آگے بڑھے گی اور اس کے بڑھ جانے سے قیامت نہیں آ جائے گی۔ ’’تاریخ‘‘ بنے گی اور شاید مستقبل بھی کہ خلقِ خدا خوب جان لے گی کہ ریاستی معاملات کے سنگین اور گمبھیر ترین فیصلے کیسے ہوتے ہیں اور ان سے اجتناب برتنے کے مناسب طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔

اپنی ذاتی رنجشوں کے باوجود مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ 3 نومبر کا انتہائی قدم جنرل مشرف کے ہر گز کام نہ آیا۔ انھوں نے اس اقدام کے باوجود چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑا۔ کافی حد تک منصفانہ انتخابات بھی کرا دئے۔ جن کے بعد آصف علی زرداری بالآخر ایوان صدر پہنچ گئے اور مشرف صاحب استعفیٰ دینے کے بعد غیر ملک روانہ۔ آصف علی زرداری نے ایوان صدر پہنچ جانے کے بعد جو کچھ کیا اس کا احوال سب جانتے ہیں۔ منفی باتوں کا ذکر زیادہ ہوتا ہے۔ مگر ان باتوں سے چسکہ لیتے ہوئے ایک بات ہم اکثر بھول جاتے ہیں اور وہ یہ کہ جنرل مشرف کے چلے جانے کے بعد اشفاق پرویز کیانی نے بھی ’’تاریخ‘‘ بنائی۔ پورے چھ سال تک اس ملک کے سب سے اہم ادارے کے سربراہ رہے۔

اخباری خبروں پر جائیں تو چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف ان کے ’’تجربے‘‘ سے کسی نہ کسی انداز میں ابھی تک فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے مگر بات نہیں بنی۔ جنرل کیانی کے ساتھ اپنے ’’تجربے‘‘ کو صرف جنرل مشرف ہی بیان کر سکتے ہیں۔ ان کے ’’خیر خواہوں‘‘ نے مگر ابھی تک وہ موقع ہی نہیں آنے دیا۔ ’’خوئے غلامی‘‘ والی بڑھکیں لگا کر ان کے ’’وقار‘‘ کا تحفظ کرتے رہے۔ جو وقت جنرل صاحب نے اسپتال میں گزارا اس نے خلقِ خدا کو بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔ ’’تاریخ‘‘ بنتی چلی جا رہی ہے اور ’’حال‘‘ پر کوئی نگاہ نہیں ڈال رہا۔ ’’مستقبل‘‘ تو بہت دور کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔