لوگوں کے لیے جیئں اور سوچیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 اپريل 2014

تھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا تھا کہ جب وہ صدر تھے اور انھیں کوئی مشکل مرحلہ پیش آ جاتا تو وہ اپنی آرام کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کرتے تھے جو ان کی میز کے اوپر وہائٹ ہائوس میں آویزاں تھی۔ اور اپنے دل سے یہ سوال کرتے تھے اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتے تو اس موقعے پر کیا کرتے وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتے۔ یہ تھا عظیم امریکی صدر روز ویلٹ کا اپنے آپ کو درپیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑا ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کیا ملک اس طرح چلتے ہیں جس طرح ہمار ے حکمران اسے چلاتے رہے ہیں کیا قومی رہنمائوں کی سیاسی بصیرت، فیصلے، ویژن، عقل و دانش اس طرح کی ہونی چاہیے جیسے ہمارے رہنما ئوں کی ہے۔ کیا ذاتی مفادات قومی مفادات سے زیادہ عزیز ہونے چاہیں کیا قائداعظم، علامہ اقبالؔ کی روحیں اپنے جانشینوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہونگی کیا وہ بے فکر ہونگے کہ ا ن کے بعد ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے کیا ملک قائداعظم اور علامہ اقبالؔ کے ویژن اور تصورات کے عین مطابق چلایا جا رہا ہے۔ کیا دہشت گردی، بدامنی، جہالت، انتہا پسندی، غربت، مہنگائی، بے روزگاری پر ہمارے قومی رہنما اس قدر ہی پریشان اور فکر مند ہیں جیسے کہ پاکستانی قوم ہے کیا ہمارے قومی رہنما اپنی ساری شان و شوکت اور عیش و آرام کو قوم کے غم میں لات مار چکے ہیں۔

کیا موجودہ عذابوں سے باہر نکلنے کے لیے تمام قومی رہنما سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا انھیں ملک او ر قوم کی فکر دن رات کھائے جا رہی ہے۔ کیا انھیں اس بات کا احساس ہے کہ عرب ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں، افغانستان اور بھارت میں ہونے والے انتخابات اور امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے منفی اثرات سے پاکستان کو کیسے محفوظ رکھا جائے گا۔ کیا ان کا دن رات ملکی اور غیر ملکی صورتحال پر غور و فکر جاری و ساری ہے، کیا پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سوال کا جواب شرمندگی کے علاوہ کسی کے پاس اور کچھ نہیں ہے۔

پال پار کہتا ہے ’’لیڈر سوچتے ہیں وہ اس لیے سو چتے ہیں کیونکہ وہ لیڈر ہوتے ہیں اور وہ لیڈرز بھی اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ سو چتے ہیں۔‘‘  آپ صرف اتنا ہی کام کر سکتے ہیں جتنا آپ سوچتے ہیں اس سے زیادہ آپ کبھی بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ کے خیال میں سب سے اہم دریافت کون سی ہے۔ کیا منگولیا کے میدانوں میں ڈائنوسارکے انڈوں کی برآمدگی جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً دس ملین سال زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں یا قدیم شہروں اور مزاروں کی دریافت جن کی بابت کسی مقدس الہامی کتاب میں تصدیق بھی موجود ہو اور ان کے بے نظیر نمونے قدیم تہذیبوں سے ملتے ہوں یا تابکاری کے ذریعے اوقات کا تعین کر نا جس کے ذریعے Tufts Collage کے پروفیسر لین نے زمین کی عمر کا اندازہ ایک بلین دو سو پچاس ملین سال لگا یا تھا یا ریڈیو، ہوائی جہاز، ایٹمی توانائی، ہائیڈرو جن بم، بجلی، نہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ سب سے عظیم دریافت سو چ ہے ہر انسان تخلیقی طاقت رکھتا ہے اس کو ذہانت اور وسائل عطا کیے گئے ہیں اور وہ اس طاقت کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔

وہ اپنے ذہن کا اسی طرح غلام ہے جس طرح الہ دین کے پرانے قصے  ’’الہ دین کا چراغ ‘‘ میں بیا ن کیا گیا تھا کہ چراغ کا جن صرف الہ دین کی بات کو سمجھتا تھا اور اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ اسے فورا ً فراہم کر دیتا تھا۔ یعنی آپ اپنی سو چ سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے تمام دنیا کے ماہر نفسیات اور ماہر الہیات اس بات پر متفق ہیں کہ ذہن ہی تمام کا موں کو کنٹرول کرتا ہے۔ آپ صرف وہی کام کرتے ہیں جن کا خاکہ آپ کے ذہن میں بنتا ہے۔ ویانا کے مشہور ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’مقصد زندگی ‘‘ ہے وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے  جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ایسے لوگ ہی بنی نو ع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں۔

دنیا کے سب سے بڑے جادوگر سمجھے جانے والے ہاورڈ تھرسٹن سے جب اس کی کامیابی کا راز پو چھا گیا تو اس نے بتایا کہ جب بھی میں اسٹیج پر آتا تھا اپنے آپ سے کہتا تھا میں شکر گذار ہوں کہ یہ لوگ مجھے دیکھنے آئے ہیں۔ ان لوگوں کی بدولت مجھے روزی کمانے میں آسانیاں ہیں میں حتی الامکان انھیں کرتب دکھائوں گا اور انھیں خوش خوش لوٹائوں گا وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں میں اپنے حاضرین کو دل و جان سے چاہتا ہوں۔ مادام شومان ہینک، امریکی صدر روز ویلٹ، چارلس ڈبلیو ایلیٹ ان کی بھی حیران کن ہر دلعزیزی کا یہ ہی راز تھا۔ قائداعظم، شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بینظیر بھٹو کی بھی ہر دلعزیزی کا یہی راز ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے سو سال پہلے ایک رومی شاعر بیلوس سائرس نے کہا تھا ’’ ہم ان ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند کرتے ہیں۔

’’وہ کیا چیز ہے  جو کسی شخص کو کامیاب بناتی ہے اور ہم کامیابی کو کس طرح شناخت کر سکتے ہیں بعض لوگوں کے نزدیک کامیابی سے مراد دولت مندی ہو سکتی ہے بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک کامیابی سے مراد مقبو لیت، اچھی صحت، اچھا گھرانہ، خوشحالی، دل و ذہن کا سکون ہو سکتی ہے اس بات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کامیابی ایک داخلی معاملہ ہے مختلف لوگوں کے لیے کامیابی کے معانی مختلف ہوتے ہیں جب کہ انگیل کہتا ہے کہ کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔ مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں، ہم کبھی منزل تک نہیں پہنچتے جب ہم ایک ہدف کو حاصل کر لیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف۔

کامیابی ایک داخلی احساس ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جو بظاہر کامیابی دکھائی دے رہی ہو ممکن ہے وہ اندر سے سراسر کھوکھلی ہو۔ اس لیے مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے جو کامیابی آسودگی اور اطمینان عطا نہیں کرتی وہ کھوکھلی کامیابی ہوتی ہے صرف جینا یا دولت مند ہونا یا بڑے عہدے پر فائز ہونا کا میابی نہیں ہوتی۔ دنیا میں غربت کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ غربت ہمارے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں اور سیاست دانوں کو ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا نے ان کو کروڑوں لوگوں میں سے رہنمائی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے چنا ہے یہ ان کی خوش قسمتی ہے۔ لہٰذا خدارا اپنی خوش قسمتی کو دوسروں کی بدقسمتی نہ بنائو ۔ آئو خلق خدا کی خدمت کرو جو سب سے بڑی عبادت ہے۔ جو سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ وہ کامیابی جو تمہیں اند ر سے خوشی اور اطمینان دے گی ْ جو مرنے کے بعد بھی تمہیں زندہ رکھے گی ۔ لوگوں سے محبت کرو جس طرح تم اپنے آپ سے کرتے ہو ، پھر دیکھو کس طرح لوگ تم سے محبت کرتے ہیں۔

سو چو آئو سو چو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے قومی رہنما اپنی سو چ کو یکسر تبدیل کر دیں اور اپنے ہی لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے جیئں اور سو چیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔