آئی ایم ایف کا جائز مطالبہ

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعرات 15 دسمبر 2022
آئی ایم ایف نے حکومت سے اپنے اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے. (فوٹو: فائل)

آئی ایم ایف نے حکومت سے اپنے اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے. (فوٹو: فائل)

آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے کہ جو ملک اس کے چنگل میں پھنس جائے وہ دوبارہ آسانی سے نکل نہیں سکتا۔ یہ اس کی تاریخ ہے کہ جو ملک اس کے چنگل میں پھنس جائے اسے کئی دہائیوں تک اس کا غلام بن کر جینا پڑتا ہے۔ پہلے تو یہ قرض دیتا ہے پھر اس پر سود لگاتا ہے، پھر سود در سود کا یہ سلسلہ چل نکلتا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور نہ ہی ریاست کی جان چھوٹتی ہے۔

غریب ریاستیں جو اس سے ایک بار قرض لے لیتی ہیں وہ سود کو ختم کرنے کےلیے ہی دوبارہ قرض لیتی ہیں۔ اصل قرض وہیں کا وہیں ہوتا ہے اور یہ سود واپس کرنے کےلیے قرضے لیتی رہتی ہیں جس سے ان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ آئی ایم ایف اپنی شرائط عائد کرنا شروع کردیتا ہے اور سخت سے سخت شرائط پر قرضہ دیتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ ریاست کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت شروع کردیتا ہے۔ آئی ایم ایف حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ریاستوں کے اندر اپنی مرضی کی قانون سازی کروانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے غریب ریاست کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، وہ آئی ایم ایف کے سامنے سر جھکا کر اس کی تمام شرائط ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ آئی ایم ایف طاقتور ریاستوں کا وائسرائے بن جاتا ہے اور ان کے مفادات کےلیے غریب اور کمزور ریاستوں پر دباؤ ڈالنے لگتا ہے۔

پاکستان بھی ایک طویل عرصے سے آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی بلکہ مزید پھنستا ہی جارہا ہے، کیونکہ حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضے لیے جارہی ہیں مگر واپس کرنے کا کوئی انتظام نہیں بلکہ سود واپس کرنے کےلیے بھی مشکل پیش آتی ہے اور اس کےلیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔ یوں پاکستان بھی ان بدقسمت ریاستوں میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گئی ہیں اور دور دور تک اس سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔

آئی ایم ایف پاکستان کو سخت شرائط پر قرض دیتا ہے اور اپنی من مانی کرتا رہتا ہے۔ ہمیشہ حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ ملک کے اندر اس کی مرضی کے مطابق قانون سازی کرے، اس کی مرضی کے مطابق ٹیکس لگائے، اس کی مرضی کے مطابق مہنگائی کرے اور عوام پر بوجھ ڈالے۔ ہماری حکومتیں بھی سر جھکائے تمام مطالبات پورے کرتی رہیں۔ یہ انتہائی شرم ناک بات ہے کہ ایک ریاست ایک ادارے کے سامنے سر جھکا کر اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہے اور اپنے ملک کا چاہے جتنا بھی نقصان ہو لیکن وہ اس کے سامنے کچھ بول نہ سکے۔

اس سے قبل آئی ایم ایف نے ہمیشہ حکومتوں سے ایسے فیصلے کروائے جو عوامی مفادات کے خلاف تھے۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا اور مہنگائی کی گئی، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں۔ اس قسم کے اور بہت سے ایسے فیصلے کیے گئے جنہوں نے عوام کا جینا محال کردیا مگر اب پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایسا مطالبہ رکھا ہے جو عوام کا بھی مطالبہ تھا۔ بہت سے لوگ آئی ایم ایف کی شرائط کو دیکھتے ہوئے یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف ہمیشہ ایسی شرائط رکھتا ہے جس سے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے حکمران عیاشیوں میں مشغول ہیں لیکن عوام مہنگائی کے بوجھ تلے اور بھی دبتے جارہے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے بھی اپنے اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ حکمران اپنے اخراجات کم سے کم کریں کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا شمار غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے حکمران امیر ترین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کے اثاثے دن بدن بڑھ رہے ہیں اس لیے کہ ان کی آمدن بہت زیادہ ہے۔ ان کی غیر قانونی امداد یا کرپشن وغیرہ کی دولت کو تو ایک طرف رکھیں، اس کے علاوہ جو انہوں نے قانونی طور پر بھی اپنی آمدن کے ذرائع بنائے ہوئے ہیں وہ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ ایک غریب ملک سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے حکمرانوں کو بہت زیادہ مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی اپنی تنخواہیں ہی بہت زیادہ ہیں اس کے علاوہ انہیں دیگر مراعات جو حاصل ہوتی ہیں ان کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ انہیں ہر اجلاس میں شرکت کے پیسے دیے جاتے ہیں، آنے جانے کا خرچ (ٹی اے ڈی اے) دیا جاتا ہے۔ ماہانہ مفت پٹرول دیا جاتا ہے، گاڑیاں اور سیکیورٹی دی جاتی ہیں۔ یہ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں کہ جب انہیں منسٹرز کالونی وغیرہ میں رہائش مل جاتی ہے تو پھر انہیں ٹی اے ڈی اے کیوں دیا جاتا ہے۔ یا تو انہیں رہائش نہ دی گئی ہوتی تو وہ اپنے اپنے شہروں میں رہتے، وہاں سے آنے کےلیے انہیں خرچہ دیا جاتا، لیکن جب اسلام آباد میں بھی انہیں شاندار رہائش گاہیں میسر ہیں تو پھر اسلام آباد میں پابند بنایا جائے وہ ان رہائش گاہوں کو استعمال کریں اور ٹی اے ڈی اے نہ لیں۔

ایک غریب شخص جو پندرہ سے بیس ہزار روپے تنخواہ لے کر اپنی جیب سے اپنے گھر کا کرایہ بھی دیتا ہے، پٹرول کے اخراجات بھی پورے کرتا ہے، اسے کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں ملتا، سرکاری ملازم ہوں یا پرائیویٹ لیکن انہیں آنے جانے کے اخراجات نہیں دیے جاتے۔ یہ تو موٹے موٹے اخراجات ہیں، اس کے علاوہ جو کچھ انہیں ملتا ہے عام شہری ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو اسی لیے سراہا جارہا ہے کہ وہ صرف آئی ایم ایف کا نہیں بلکہ عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ حکمران اپنے اخراجات کم کریں اور ایک غریب ملک کے حالات پر ترس کھاتے ہوئے اس کے خزانے میں اتنی رقم چھوڑ دیں کہ کم از کم یہ دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔