سکھرحیدرآباد موٹر وے منصوبہ، ترقی کا سفر آسان

ایڈیٹوریل  جمعرات 15 دسمبر 2022
کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کے لیے سب سے اہم ترین فیکٹر انفرا اسٹرکچرہے۔ فوٹو : پرائم منسٹر آفس/ٹویٹر

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کے لیے سب سے اہم ترین فیکٹر انفرا اسٹرکچرہے۔ فوٹو : پرائم منسٹر آفس/ٹویٹر

وزیر اعظم شہباز شریف نے سکھر حیدر آباد ایم 6 موٹروے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ 30 ماہ کی مدت میں مکمل ہو کر پاکستان کے عوام کے لیے بے پناہ فوائد کی بنیاد بنے گا، منصوبہ مکمل ہونے سے ملک کے شمال سے جنوب تک موٹروے مکمل ہو جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد سندھ، بلوچستان، کے پی، پنجاب اور شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر پر ہے۔ انھیں ترقی کی دوڑ میں شامل نہ کیا اور انھیں کسی بھی بہانے سے پیچھے رکھا تو پھر قائد کا پاکستان کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، بطور وزیراعظم میرے نزدیک پاکستان کی ترقی وہی ہوگی جو محروم علاقوں کو آگے لے کر چلے گی۔

اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد سکھر موٹروے کا سنگ بنیاد رکھنا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلے ساڑھے 3سال ایم 6 منصوبے پر کوئی کام نہیں ہوا، اس سڑک کو پورے پاکستان کے لوگ استعمال کریں گے، موٹروے پر جو کام ہوگا تمام ملازمتیں مقامی لوگوں کو دینی چاہئیں۔

موجودہ اتحادی حکومت معاشی اور انفرااسٹرکچر کے حوالے سے فیصلے اور اقدامات کررہی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت میں شامل تمام اتحادی پارٹیوں کی قیادت خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ ملک کا انفرا اسٹرکچر بہتر کیا جائے ، تاکہ ملک ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔

سندھ کے باسیوں کے لیے یہ بہت بڑی خوش خبری ہے کہ سکھر ،حیدرآباد موٹروے کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے ، اس منصوبے کے آغاز سے تکمیل تک اور تکمیل کے بعد نہ صرف سندھ کے باسیوں کے لیے روزگار کے بہترین مواقعے پیدا ہوںگے بلکہ صوبے کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں تک رسائی آسان بھی ہوگی اور منزل تک پہنچنے میں وقت بھی کم لگے گا۔

سندھ میں سیاحت کے شعبے میں ترقی کی راہیں کھل جائیں گی ، سیاح جو ق درجوق سندھ کے تاریخی وتفریحی سیاحتی مقامات دیکھنے آئیں گے ،مقامی سطح پر سیاحت بڑھنے سے معاشی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے ۔سندھ کے سیاحوں کے لیے ایک اور بہترین تفریح گاہ گورکھ ہل بھی ہے,جسے ’’سندھ کا مری‘‘کہتے ہیں۔

یہ صوبے کی وہ واحد جگہ ہے جہاں برف باری ہوتی ہے۔ موٹر وے کی تعمیر مکمل ہونے سے کراچی سے صرف اب چند گھنٹے کی ڈرائیو کر کے یہاں با آسانی پہنچا جاسکے گا۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چلا جا تا ہے اور گرمیوں میں بھی عام طور پر 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے ہی رہتا ہے۔

اس لیے اگر کراچی والے اپنے قریب کہیں ٹھنڈ کا اصل مزا لے سکتے ہیں تو وہ جگہ گورکھ ہل ہی ہے، سندھ حکومت کو گورکھ ہل کو تفریحی مقام بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے ،سٹرکیں اچھی ہوں گی اور صفائی و سیوریج اور بجلی گیس کا نظام بہتر ہوگا تو سیاحوں کی آمد رفت میں اضافہ ہوگا، علاقے میں ہوٹل انڈسٹری ترقی کرے گی ، روزگار میں اضافہ ہوگا۔

اچھے انفرااسٹرکچر کی بدولت ہالہ کی ہینڈی کرافٹ کی رسائی پاکستان بھر سمیت عالمی سطح پر ممکن ہوسکے گی ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے مزارات تک سیاحوں کی رسائی آسان ہوجائے گی۔

سندھ میں تاریخ کے بد ترین سیلاب کے بعد انفرااسٹرکچر کا بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے ، لیکن یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ سندھ حکومت صوبے بھر کے ہر گاؤں کے لیے اعلیٰ معیار کی سڑکوں کی تعمیر یقینی بنا رہی ہے ، اور اب ایم 6 موٹر وے منصوبے سے نہ صرف سیکڑوں گاؤں دیہات آپس میں منسلک ہوجائیں گے۔

بلکہ وہاں کے باسیوں کو شہروں میں قائم تجارتی منڈیوں تک فوری رسائی حاصل ہوجائے گی، دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کے عوام کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہترین انفرااسٹرکچر کی تعمیر یقینی بنائیں اورملکی ترقی کا سفر آسان اور تیز ترین بنانے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔

عوام کو بھی سمجھنا چاہیے کہ قومی شاہراہوں کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے ترقی کے دشمن عناصرجو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سڑکوں کی ضرورت نہیں وہ خود ذاتی جہازوں اور چارٹرڈ طیاروں میں سفرکرنے کا شوق رکھتے ہیں۔

اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا کریڈٹ بلاشبہ موجودہ اتحادی حکومت کا جاتا ہے، کیونکہ ہم اس حقیقت انکا ر نہیں کرسکتے اگر ہمیں منزل تک پہنچنا ہے تو راستوں کو آسان بنانا ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ موٹروے نے ہرخاص و عام کی ضرورت بن کرثابت کردیا کہ ملک میں موٹرویز کی بدولت نہ صرف فاصلوں کو سمیٹ کر ترقی کا سفر آسان ہوا ہے، بلکہ ایمرجنسی صورتحال کے موقع پر ہوائی جہازوں کی لینڈنگ سے دفاعی حصار مزید مستحکم ہوا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کے لیے سب سے اہم ترین فیکٹر انفرا اسٹرکچرہے۔

اسپتال، اسکول، دفاتر ان سب کا راستہ سڑک سے ہی ہوکر گزرتا ہے، ایک بڑی کھلی کشادہ سڑک بنانے کا اولین مقصدجہاں عوام کو بلا امتیاز محفوظ اور تیز رفتار سفر کے لیے سہولت فراہم کرنا، ٹریفک حادثوں پر قابو پانااور ایندھن کی بچت ہے وہیں بہترین روزگاری مواقع فراہم کرنا، دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت اور منتقلی میں بھی نمایاں کمی لانا ہے۔

بہترسفری سہولیات کی بدولت دوردراز علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتاہے اور دیہاتوں میں اجناس کی کھیت سے منڈیوں تک آسان رسائی آسان ممکن بنائی جاسکتی ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب نے تجارتی روابط میں تیزی لانے کے لیے موٹرویز کی تعمیر شروع کی جو جلد ہی کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ قرار دینے کی سند بن گئی۔

حکومت چین کی ترجیحات میں انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ اسِ بناء پر سرفہرست ہے کہ ترقی کا سفر صاف ہموار اور کشادہ سڑکوں کے بغیر ممکن نہیں۔ عالمی معاشی ماہرین کے مطابق انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور اکنامک پرفارمنس میں براہ راست تعلق ہے۔

انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ نہ صرف عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے بلکہ لیبر اور پیداواری صلاحیت میں بھی بہتری سامنے آتی ہے، اس کی آسان ترین مثال ہمارے ملک میں میٹرو بس منصوبوں کی شکل میں ہیں، میٹرو بس کی سہولت سے قبل شہریوں کو اپنی تنخواہ اور وقت کا خاطر خواہ حصہ آمد و رفت کے لیے خرچنا پڑتا تھا۔

آج بھی چند روپوں کے عوض مختصر ترین وقت میں عزت و احترام سے وہ نہ صرف اپنے دفتر پہنچنے میں پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ پارٹ ٹائم یا دیگر کاروباری مواقعوں بھی ان کی دسترس میں ہیں، جہاں جہاں میٹرو بس کا اسٹاپ ہے وہاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چمک گیا ہے، طلبا و طالبات کے لیے نئے تعلیمی ادارے اور رہائشی ہاسٹل قائم ہورہے ہیں۔

کاروباری حضرات اپنے دفاتر میٹرو بس کے نزدیک ترین منتقل کر رہے ہیں، ٹیکسی اور رکشے والوں کے غیراعلانیہ اڈے میٹرو بس اسٹاپس کے سامنے دیکھے جاسکتے ہیں، مریضوں کی سرکاری اسپتالوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں قدرت نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ایک نیا باب کھولنے میں مد د فراہم کی ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اکنامک کوریڈورصرف ایک سٹرک کا نام نہیں بلکہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کی ایک راہداری ہے جو خطے کے لگ بھگ تین ارب افراد کو بلاتفریق ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

مغربی روٹ کی تعمیر کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگانے والوں کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب چینی شہر کاشغر سے تجارتی قافلہ پاکستان میں داخل ہوکر مغربی روٹ سے ہی گزرتا ہوا گوادر بندرگاہ سے اپنی اگلی منزل کی جانب براستہ سمندر روانہ ہوا۔ گوادر کو اپنے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے کامیابی سے منسلک کردیا گیا ہے جس کی بدولت دو دن پر مشتمل طویل سفر اب لگ بھگ آٹھ گھنٹے تک کا رہ گیا ہے۔

اسی طرح اس سے قبل مکران کا پورے ملک کے ساتھ سڑک کا کوئی باقاعدہ زمینی رابطہ نہیں تھا، اب جہاں جہاں سے اقتصادی ترقی کی سڑک گزر رہی ہے وہاں کاروبارِ زندگی کی رونق دیکھی جاسکتی ہے، سڑک کے آس پاس قائم ہونے والے چائے سگریٹ پان کے کھوکھے مستقبل کی سپر مارکیٹس اور شاپنگ مالزکی نوید سناتے ہیں۔

سی پیک کے کامیاب انفرا اسٹرکچر منصوبوں نے عالمی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیاہے، یہی وجہ ہے کہ روس، برطانیہ، سعودی عرب، ایران، امریکا سمیت عالمی برادری سی پیک میں شمولیت کی خواہاں ہے۔

جہاں دوست ملک چین کو تجارتی مقاصد کے لیے مختصر ترین روٹ مہیا ہورہا ہے وہیں افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کو گرم پانیوں تک کمرشل رسائی فراہم کرکے خطیر تعداد میں زرِ مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

انھیں عوامل کی بناء پر عالمی تجزیہ کاروں کی طرف سے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ترین ملک قرار دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی بدولت عالمی منظرنامے میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے بنیادی شرط بہترین انفرااسٹرکچر کی موجودگی ہے جس کے لیے موجودہ اتحادی حکومت پرعزم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔