- شہریار آفریدی اور اہلیہ کی گرفتاری غیرقانونی قرار، رہائی کا حکم
- وزیراعظم کی بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کیلئے خصوصی اقدامات کی ہدایت
- سفید چاول اتنے بھی نقصان دہ نہیں، 8 صحت بخش فوائد
- صاحب اختیارات وسیع پیمانے پر بدعنوانیاں کررہے ہیں، سراج الحق
- دیامیر پانی و بجلی کے شعبہ ایمرجنسی ورکس میں بڑی بے ضابطگیوں کا انکشاف
- کم سن بھائیوں کی ہلاکت کی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظاہر نہ ہوسکیں، پولیس
- کراچی سے سعودی عرب آئس اسمگل کرنے کی کوشش ناکام، مسافر گرفتار
- لاہور، دبئی جانے والے مسافر سے 3 جعلی غیرملکی پاسپورٹ برآمد
- کراچی میں عالمی طرز کی فش مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ
- بلوچستان میں فائرنگ کے واقعات میں دو افراد جاں بحق، تین زخمی
- پشاور میں 8 سالہ بچی کو بے دردری سے قتل کرنے والے بہن بھائی سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پنجاب اسمبلی میں ’جعلی بھرتیاں‘؛ پرویز الہی نے درخواست ضمانت دائر کردی
- ملکی معاشی سلامتی کیلیے حکومتی جماعتوں کی کاوشوں کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، وزیراعظم
- کراچی؛ بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہ لینے والا امیدوار میئر کیسے بنے گا
- 9 مئی کے واقعات کی روک تھام کیلیے بین الاقوامی طرز کا پولیس یونٹ بنانے کا فیصلہ
- سندھ میں پولی تھین بیگ کو ری سائیکل کرکے ڈسٹ بن بنانے کا تجربہ کامیاب
- افغانستان کے اسکول میں طالبات کو زہر دیدیا گیا؛60 کی حالت غیر
- ’ٹرسٹ اینڈ سیفٹی‘ شعبے سے وابستہ دو اعلیٰ عہدیداروں نے ٹویٹر کو خیرباد کہہ دیا
- زخموں پر شفابخش روشنائی پھیرنے والا خودکارپین ایجاد
- ہرقسم کے درد،خوف اور پریشانی سے آزاد اسکاٹش خاتون
عمران خان حملے کا مقدمہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے درج نہیں ہوا تھا، چیف جسٹس

تاثر ہے کہ پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان (فوٹو فائل)
اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پولیس میں تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عمران خان حملے کا مقدمہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے درج نہیں ہوا تھا۔
پولیس افسران کے سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت نے پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے روکتے ہوئے پنجاب اور کے پی حکومت کو پولیس آرڈر 2002ء پر عملدرآمد کا حکم دیدیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں۔ کسی بھی افسر کو سینئر پولیس افسر کی مشاورت کے بغیر نہ ہٹایا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی کیوں نہ گڈ گورننس کا یہی فارمولا اپنایا جائے؟۔
سپریم کورٹ نے پنجاب، پختونخوا، سندھ اور بلوچستان پولیس سے 10 سال میں تبدیل کیے گئے افسران کی فہرست طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے گی یا عدالت حکم دے؟۔ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کریں۔ جرائم اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے ایم پی اے کے کہنے پر نہیں ہونے چاہییں۔ قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے۔ کیا تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟۔ قانون کے مطابق افسران کو قبل از وقت ہٹانے پر پابندی نہیں لیکن طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اریمارکس دیے کہ تاثر ہے کہ پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کوپولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے۔ تحقیقاتی افسران کا الگ کیڈر ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں۔ پولیس میں تفتیشی مہارت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ ناقص شواہد پیش کیے جاتے سے جن سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ پولیس ملزمان کو فائدہ دے گی تو مظلوم کہاں جائے گا؟۔
دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت ہی سے ہو رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ ہی سے عمران خان حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا تھا۔ سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کا حکم دینا پڑا کیونکہ کئی دن گزر چکے تھے۔ پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کے پی میں بھی قتل و غارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں وکلا کے قتل کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کے پی حکومت نے نوٹس کے باوجود پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ عوام کے متاثر ہونے کی وجہ سے عدالت نے پولیس ٹرانسفر پوسٹنگ کا نوٹس لیا ہے۔ پولیس کی بے ربط ٹرانسفر پوسٹنگ سے سارا نظام متاثر ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔