میری کہانی، میری زبانی

شکیل فاروقی  جمعـء 16 دسمبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ایک اندازے کے مطابق قصبہ کی کل آبادی زیادہ سے زیادہ آٹھ نو ہزار ہوگی اور یہاں کسی قسم کی پاور سے چلنے والی کسی مشین کا کوئی وجود نہیں تھا، اِس لیے ماحولیاتی آلودگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

ماحول بالکل صاف ستھرا تھا اور لوگوں کے دل بھی ہر طرح کی آلودگی سے پاک اور شفاف تھے۔ اتفاقاً کوئی چھوٹی موٹی تو تو میں میں یا لڑائی ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ آپس میں میل جول اِس قدر تھا کہ غمی اور خوشی میں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اگر کسی کے ہاں شادی بیاہ ہو تو کسی کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا تھا، اگر رہائش گاہ چھوٹی پڑجاتی تھی تو محلے پڑوس والے بارات اور باراتیوں کے لیے اپنے یہاں قیام کا بندوبست کر دیتے تھے اور اِس کے علاوہ مہمانوں کی خاطر تواضع کا ذمّہ بھی اپنے سر لے لیتے تھے اور ہر کوئی پورے جوش و خروش کے ساتھ مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا تاکہ میزبان اور قصبہ کی ناک نیچی نہ ہو۔

بڑھئی برادری میں شادی بیاہ کا بڑا ہی انوکھا نظام تھا۔ مہمانوں کو اُن کی مرضی کو مطابق جہاں چاہیں بیٹھنے کی دعوتِ عام کا چلن تھا، تکلف کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

نہ کوئی چادر نہ چٹائی جس کے جہاں سینگ سماتے تھے وہیں بیٹھ جاتا تھا۔ جب سب بیٹھ جاتے تھے تو میزبان کے مقرر کردہ چند افراد آتے تھے اور ہر مہمان کے ہاتھوں میں مٹی کی ایک بڑی سی رکابی تھما کر چلے جاتے تھے۔

چمچے اُس زمانہ میں ہوا نہیں کرتے تھے۔ اِس کے بعد دوسری ٹولی آتی تھی جو رکابی میں اُبلے ہوئے چاول ڈال کر چلی جاتی تھی پھر تیسری ٹولی آتی تھی جو چاولوں پر دال چھڑک کر چلی جاتی تھی اور پھر کھانے کا آغاز ہوجاتا تھا، اکثر شادیاں دن میں ہوا کرتی تھیں کیونکہ رات کے وقت روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔

آخری راؤنڈ میں ہر رکابی میں وہی اُبلے ہوئے چاول ڈال کر ایک اور ٹیم چلی آتی تھی۔پھر اُس کے بعد جو ٹیم آتی تھی وہ چاولوں پر کھانڈ چھڑک کر چلی جاتی تھی۔ کھانڈ سے مراد وہ میٹھا ہوتا تھا جو آٹے کی طرح کا ہوتا تھا۔ آخری راؤنڈ اُس ٹیم کا ہوتا تھا جو لوٹے میں بھرے ہوئے خالص گھی کو رکابی پر اُنڈیلتی ہوئی چلی جاتی تھی۔

میں نے اپنی زندگی میں اندرونِ ملک مختلف پانچ ستارہ ہوٹلوں میں قیام و طعام کیا ہے لیکن میں پوری سچائی کے ساتھ کہتا ہوں کہ ایسا لطف مجھے کہیں بھی میسر نہیں آیا اور خاص طور پر ایسی دال کہیں بھی نصیب نہیں ہوئی۔ہمارے محلے میں پرچون کی چار پانچ دکانیں تھیں جن پر ضروریاتِ زندگی کی چند اشیاء دستیاب تھیں۔

جن میں چراغ جلانے کے لیے مٹی کا تیل اور کھانے میں استعمال کے لیے اور سر اور جسم پر لگانے کے لیے سرسوں کا خالص تیل دستیاب تھا۔خالص لفظ کا استعمال میں نے جان بوجھ کر اس لیے کیا ہے کیونکہ اشیاء خوردنی میں ملاوٹ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا۔ لوگ بھی خالص تھے اور چیزیں بھی خالص تھیں۔

ایک اور دلچسپ بات کا ذکر کردوں اور وہ یہ کہ دکاندار خریدنے والے بچوں کو سودا دینے کے بعد کوئی میٹھی چیز جسے’ رونگا‘ کہا جاتا تھا مفت دیا کرتے تھے جس میں گڑ کی ڈلی اور گڑ کے سیو شامل تھے۔

برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ چینی کہیں دستیاب نہیں تھی۔ چیزیں خریدنے کے لیے زیادہ تر سکوں کا چلن عام تھا ،لیکن گندم کے بدلے بھی خریداری کی جاسکتی تھی جسے بارٹر سِسٹَم کہا جاتا تھا۔ دو تین دکانیں ایسی بھی تھیں جہاں دودھ کے علاوہ مٹھائی بھی بکتی تھی جس میں قلاقند اور جلیبی شامل تھی۔

رات کے وقت دکانوں کے آگے بعض لوگ گپ شپ کرتے تھے اور حقہ پیا کرتے تھے۔ ایک اور بات یاد آرہی ہے اور وہ یہ کہ خواتین دن بھر اپنے گھروں تک محدود رہتی تھیں اور رات کے وقت سخت پردہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گھروں میں آتی جاتی تھیں اور خواتین دور سے آتے ہوئے دیکھ کر مرد حضرات اپنا منہ پھیر لیا کرتے تھے۔یہ تو تھی مسلمان عورتوں کی بات ہم نے کسی ہندو عورت کو بھی دن کے وقت باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ سودا سلف خریدنے میں کاغذ کا استعمال بھی بہت کم تھا اور اِس کے لیے کرتے (قمیض )کا دامن استعمال ہوتا تھا اور نمک کاغذ میں دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اسے بے برکتی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

آج کے دور میں تو سودا تولتے وقت چیزیں فروخت کرنے والے سونے کی تول کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ اُس زمانہ میں سودا دینے والے ترازو کے پلڑے کو جھکتا ہوا رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج برکت ختم ہوچکی ہے اور بے برکتی کا دور دورہ ہے۔

دکاندار کی کوشش ہوتی ہے کہ ممکنہ حد تک کم تولا جائے۔ یہ محض ضمیر فروشی ہی نہیں بلکہ خدا سے کھُلم کھُلا بے خوفی ہے۔ کسی کو احساس ہی نہیں ہے کہ کم ناپ تول کتنا بڑا گناہ ہے اور آخرت میں اِس کی سزا کیا ہے۔

بگھرہ کے گرد و نواح میں چند بستیاں ایسی تھیں جہاں سادات کی کثرت تھی۔ اِن میں ایک بستی کا نام سید پورا تھا اور دوسری بستی کا نام جَولی تھا۔ اِس کے علاوہ جاٹوں کی بستیاں تھیں جن میں ایک کا نام تاولی تھا جس میں اکثریت مسلمان جاٹوں کی تھی جنھیں مُولے جاٹ کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ بڑے دبنگ، دلاور اور باعمل تھے۔

ہندو جاٹوں کی بستیاں الگ تھیں جن کا سیاست میں کافی عمل دخل تھا جن میں مقبول شخصیت چوہدری چرن سِنگھ جنھوں نے کانگریس پارٹی میں بڑا نام کمایا۔اگرچہ قصبہ میں چند لوگ بڑے امیر تھے لیکن اُن میں سے کسی کے پاس بھی موٹر کار نہیں تھی۔

شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ کسی پٹرول پمپ کا کوئی وجود نہیں تھا اور صرف مظفر نگر شہر میں ایک یا دو پٹرول پمپ تھے جہاں لاری اڈا تھا۔ زیادہ فاصلوں کے لیے لاریاں استعمال ہوتی تھیں۔

بات نکلی ہے تو ایک حادثہ کا بھی ذکر ہوجائے۔ ہوا یوں کہ ایک بارات سے بھری ہوئی لاری پر بس کنڈکٹر پٹرول بھروا رہا تھا اور اُس نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ کوئی شخص بھی ماچس کی تیلی نہ جلائے مگر بدقسمتی سے ایک نوجوان نے جو سگریٹ کا بہت برا عادی تھا صبر نہ کیا اور سگریٹ پینے کے لیے ماچس کی تیلی جلادی اور پھر کیا تھا۔

آنِ واحد میں لاری نے آگ پکڑلی اور بس کی پچھلی جانب صرف ایک دروازہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص نے باہر نکلنے کی کوشش کی اور اِس کے نتیجہ میں لوگ پھنس گئے جن میں میرے بڑے ماموں جان بھی شامل تھے۔بس کے مسافروں میں بھی شامل تھا اور میری عمر دس بارہ سال ہوگی۔

ماموں جان کسی نہ کسی طرح نکل تو گئے لیکن مجھے نکالنے کی کوشش میں وہ بیچارے دوبارہ اندر چلے گئے حالانکہ میں گھِسَٹتے ہوئے روندن میں آتے ہوئے کسی نہ کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور میں نے فوراً ہی ماموں جان کو چیخ کر یہ بتا دیا تھا کہ میں باہر نکل چکا ہوں جس کے بعد ماموں جان بمشکل تمام جلتی ہوئی لاری سے نکل کر باہر آگئے لیکن اُس وقت تک اُن کے پاؤں جھلس چکے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بس جل کر تمام ہوگئی اور صرف اُس کا ڈھانچہ باقی رہ گیا۔خدا کا فضل و کرم تھا کہ ماموں جان کے پاؤں بہت زیادہ نہیں جھلسے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چَکھے۔اِس حادثہ نے مجھے موٹر فوبیا میں مدتوں تک مبتلا رکھا تھا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔