16 دسمبر، پاکستان کے لیے دو بڑے سانحات کا دن

شایان تمثیل  جمعـء 16 دسمبر 2022
دونوں سانحات درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دونوں سانحات درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وطن عزیز کو اپنے قیام کے بعد سے ہی پے در پے حوادث و سانحات کا سامنا رہا۔ بمشکل کچھ عرصہ ہی ملک میں سکون کا گزرا ہوگا، ورنہ تاریخ کے صفحات پر ہمیں ملک میں انتشار، بدامنی، انارکی، اور عوام کی قربانیوں کی طویل داستان دکھائی دیتی ہے۔ 16 دسمبر کا دن بھی ایسے ہی دو بڑے سانحات کی یاد لیے سامنے آتا ہے۔ ان دونوں سانحات میں برسوں کا فرق ہے لیکن ہر سانحہ خود میں درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔

16 دسمبر 1971 کا سقوطِ ڈھاکا ہو یا پھر 16 دسمبر 2014 کا سانحہ اے پی ایس پشاور، دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان سانحات کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت قوم کے سوئے ہوئے دانشوران بھی جاگ جاتے ہیں اور پاکستان کے دولخت ہونے اور آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کی شہادت پر اپنے اپنے انداز میں خامہ فرسائی شروع کردی جاتی ہے۔ اور کبھی نہ فراموش کئے جانے والے ان سانحات کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔

ہاں ہم ایسے ہی بے حس ہیں، جو اِن کبھی نہ بھلائے جانے والے سانحات کو بھی دانستہ اپنے ذہنوں سے محو کرکے، اِن سانحات سے کچھ بھی نہ سیکھنے کا عمل دہرائے جارہے ہیں۔ ان سانحات کی لرزہ خیز داستان کبھی بھلائی نہیں جاسکتی، لیکن ہم بھول جاتے ہیں اور صرف دسمبر کے اِن مخصوص دنوں میں اچانک ہمارے اندر حب الوطنی کا بیکراں سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ حیرت تو اُن پر ہوتی ہے جو اپنی گفتگو اور تحاریر میں بھی ان واقعات پر اپنی شرپسند سوچ کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں رہتے۔ کہیں ان سانحات پر حکومت پاکستان اور اداروں کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے تو کہیں اپنی خامیوں کا تذکرہ ایسے کیا جاتا ہے کہ گویا یہ سانحات نہ ہوں، ہماری معمولی سی غلطیاں ہوں، جنھیں بھول کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ آخر ہم اتنے سخت دل کیسے ہوسکتے ہیں؟

دشمنوں، مخالفین کی چالوں اور سازشوں کا تذکرہ اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو اتنے مبہم انداز میں کہ جیسے محرک وہ نہیں ہم ہی رہے ہیں۔ اور پھر ان سانحات کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کی پیشگوئی بھی کردی جاتی ہے کہ ہماری ڈگر اب بھی نہیں بدلی۔ ہم نے اب بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا وغیرہ۔

ہاں مان لیا کہ ہماری اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں، کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں، غلطیوں سے سبق بھی نہیں سیکھا گیا، لیکن یہ کیا کہ اپنی ہی حکومت، اپنے ہی اداروں، اپنے ہی ملک کے خلاف نظریات کا پرچار کیا جائے۔ اپنے ہی اداروں کے خلاف عوام کی ذہن سازی کی جائے؟ کیا یہ مزید ایک اور غلطی نہیں ہے جسے بار بار دہرایا جارہا ہے۔

16 دسمبر 1971 میں اپنے ملک کے ایک حصے کو گنوا دینے کا دکھ اتنا ہی شدید ہے جتنا ایک ماں کےلیے 16 دسمبر 2014 کو اپنے لختِ جگر کو کھو دینے کا غم ہے۔ ان دکھوں اور غموں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ وقت زخموں کو مندمل کردیتا ہے، درد کی شدت میں کمی آجاتی ہے لیکن جو کھو گیا ہے وہ واپس نہیں آسکتا۔

اگر آج کے اخبارات، ٹی وی چینلز یا پھر سوشل میڈیا سائٹس دیکھیں تو آپ کو بار بار سقوطِ ڈھاکا اور سانحہ اے پی ایس کا ہی تذکرہ ملے گا۔ تمام تفصیلات بھی آپ کو ازبر ہوچکی ہوں گی اس لیے ہم یہاں وہ باتیں نہیں دہرا رہے لیکن ان تمام تحاریر، سوشل میڈیا پوسٹوں پر جو وطن مخالف مواد نظر آتا ہے اس پر ہمیں شدید اعتراض ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ 1971 سے قبل ہمارے مشرقی پاکستان کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں، غلطیاں بھی شامل تھیں، لیکن انہیں ہوا ہمارے دشمنوں نے ہی دی تھی۔ ان عوامل کو نظر انداز نہیں کیجئے جو اس ملک کو دولخت کرنے کا باعث بنے۔ اپنی غلطیاں نہ دہرانے کا مشورہ ضرور دیجئے لیکن اداروں کو مجرم نہیں ٹھہرائیے۔ تنقید آپ کا حق ہے، لیکن تنقید میں دشمنوں کے ہاتھ مضبوط نہ کیجئے۔ اپنے ہی اداروں کے خلاف یہ رویہ ’’ایک اور سانحہ‘‘ ہے جو ہم پر گزر رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔