بھارت کی لادینیت

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 18 دسمبر 2022
فوٹو: ایکسپریس نیوز

فوٹو: ایکسپریس نیوز

دوحہ، قطر میں آج کل  فٹ بال کے ورلڈ کپ میچوں کا سلسلہ جاری ہے ،اس موقع پر قطری حکومت نے متعدد معروف شخصیات کو قطر آنے کی دعوت دی ہے جس میں مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستانی شہری ہیں اور وہاں تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کے تبلیغی جلسوں میں بلاتفریق مذہب و ملت لاکھوں افراد شریک ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے لوگوں نے ان کی تبلیغ کے باعث اسلام قبول کیا ہے۔ بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کو ان کی یہ سرگرمیاں سخت ناگوار گزریں اور انھوں نے ذاکر نائیک کے لیے بھارت کی سرزمین تنگ کردی۔ چنانچہ ذاکر نائیک اب بھارت سے باہر رہ کر تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

قطر کی حکومت نے متعدد مہمانوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی شامل کیا اور اس موقع پر دوحہ میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے موقع پر دوحہ/ قطر آنے کی دعوت دی۔ اب بھارت اس پر سخت ناراض ہے اور وہاں کے ایک وزیر اور بھارت کے وزیر اعظم کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور وہاں فٹ بال ورلڈکپ کے بائیکاٹ کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ذاکر نائیک کی تبلیغ کے نتیجے میں اگر کچھ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں تو بھارت کے سیکولرازم کو اس پر اعتراض کیوں؟ بھارت تو آزادی کے بعد سے اپنے سیکولرازم اور تمام مذاہب کی آزادی پر فخر کرتا رہا ہے اب آخر اسے ان سرگرمیوں سے خطرہ کیوں ہے؟ بھارت کے ہر شہری کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے مگر ذاکر نائیک صاحب کی سرگرمیوں پر بھارت کے غیض و غضب نے ان کے سیکولرازم کی قلعی کھول دی ہے۔

انھوں نے ذاکر نائیک صاحب کو تو اس تبلیغ کے جرم کی سزا دے دی اور انھیں ایک طرح دیس نکالا دے دیا۔ اب وہ ایک مسلم ملک میں ان کی آمد پر سخت معترض ہیں سوال یہ ہے کہ قطر ایک مسلم ملک ہے اور وہ اپنے یہاں کسی بھی مسلمان شخص کو مدعو کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بھارت نے اپنے ملک میں جو رویہ اختیار کیا دنیا کو اس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ذاکر نائیک نے کسی بھارتی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ ان کو تبلیغ کی آزادی دے کر بھارت اپنے لادینی کردار کو زیادہ روشن بنا سکتا تھا جو اس نے اپنی روایتی تنگ نظری کی وجہ سے موقع کھو دیا۔

مگر قطر اس کی کالونی نہیں، نہ قطر کے حکمران اس کی مرضی کے پابند ہیں۔ آپ ان پر ان کے ملکی معاملات میں دخل اندازی کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ مہمانوں کا انتخاب کرنا ان کا صوابدید ہے۔ آپ انھیں اس سے کیوں کر روک سکتے ہیں؟ خود فٹبال عالمی کپ کے کسی قانون کی خلاف ورزی بھی نہیں ہو رہی تو آپ اس عالمی مقابلے کے بائیکاٹ کا سبب کہاں سے تلاش کریں گے؟ اچھا ہے کہ دنیا کو آپ کی لادینیت کا اندازہ ہو سکے جسے آپ لوگوں سے چھپائے رکھتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان میں حکومت نے ایک خوش آیند اقدام کیا ہے جس سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو بڑی تقویت ملے گی اور پاکستان ایک صحیح معنی میں اسلامی ملک کی حیثیت سے روشناس کرایا جائے گا۔ہوا یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں ملک میں سودی نظام کو خلاف اسلام قرار دیا تھا اور ملک کے نظام معیشت کو سود سے پاک کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

یہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ سود صرف حرام ہی نہیں ہے سود خوری خدا اور رسول سے جنگ کے مترادف ہے اور کون ہے جو اس جنگ کی جرأت کرسکتا ہے، مگر ہم پر دور غلامی میں جو سودی نظام مسلط کیا گیا تھا ہم 75 سال بعد بھی اس سے نجات حاصل نہیں کرپائے اور اس کے باوجود ہم خود کو ایک اسلامی ریاست قرار دیتے رہے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف دو قومی بینکوں نے الگ الگ اپیلیں دائر کی تھیں ۔ پھر ہوا یہ کہ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دونوں اداروں کو اپنی اپیلیں واپس لینے کا حکم دیا اور دونوں اداروں کی طرف سے اپیلیں واپس لینے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ سالہا سال سے رائج اس سودی نظام سے نجات حاصل کرنے میں وقت تو لگے گا مگر حکومت غیر سودی نظام کو رائج کرنے اور معیشت کو سود سے پاک کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔

اگر وزیر خزانہ کا یہ اقدام اپنے لیے قوم کے دل میں جگہ بنانے کی خواہش تک محدود نہیں ہے اور وہ واقعی پاکستان کے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کے معاملے میں مخلص ہیں تو وہ صرف دنیوی مقبولیت ہی حاصل نہیں کریں گے بلکہ وہ ایک ایسے عمل پر گامزن ہوں گے جو آخرت میں ان کی سرخ روئی کا سبب بنے گا۔

ہمیں توقع ہے کہ حکمران خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کو پیش نظر رکھ کر ملک کو سودی نظام سے پاک کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ ان کی نیک نیتی کا ایک اشارہ یوں ضرور ملا ہے کہ انھوں نے جب سرکاری بینکوں کو سود کے سلسلے میں اپیلیں واپس لینے کا حکم دیا تو اس کا اظہار ایک عالم دین مولانا فضل الرحمن کے گھر جا کر ان کے روبرو کیا۔ گویا انھیں اپنے عمل پر گواہ بنا لیا ہے، ہم ان کی نیک نیتی پر ثابت قدم رہنے کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔