ملک کا سیاسی عدم استحکام

ایڈیٹوریل  پير 19 دسمبر 2022
مرکزی حکومت یا اتحادی جماعتوں کے ردعمل پر غور کیا جائے تو وہاں بھی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی (فوٹو: فائل)

مرکزی حکومت یا اتحادی جماعتوں کے ردعمل پر غور کیا جائے تو وہاں بھی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی (فوٹو: فائل)

پاکستان اس وقت سخت قسم کے معاشی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے ‘زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جو مذاکرات اور معاہدے ہوئے ہیں‘ان کی شرائط بھی خاصی سخت ہیں۔

اس کے باوجود حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ملک کی معیشت کو ٹریک پر رکھا جا سکے گزشتہ دنوں تاجکستان کے صدر بھی پاکستان تشریف لائے تھے۔ ان کے ساتھ بھی معاشی حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

سعودی عرب بھی پاکستان کے ساتھ مالیاتی تعاون کر رہا ہے جب کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا معاشی بحران گہرا ہو رہا ہے۔

حالیہ سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے بھی ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے ‘پاکستان اس حوالے سے عالمی برادری سے تعاون کا خواہاں ہے اور عالمی برادری بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نظر آ رہی ہے۔ یہ اشارے خاصے مثبت ہیں لیکن پاکستانی معیشت اور مالیاتی نظام افواہوں اور بے یقینی کی زد میں ہے۔

اس کی وجہ ملک میں بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی انتظامیہ بھی مخمصے اور سست روی کا شکار ہے‘عالمی برادری بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھ رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے معاملات التوا کا شکار چلے آ رہے ہیں ‘ ان وجوہات کی بنا پر معاشی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ہفتے کولاہور کے لبرٹی چوک میں ویڈیولنک کے ذریعے پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کیا۔اپنے خطاب میں انھوں نے آیندہ جمعہ (23 دسمبر) کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جب انھوں نے یہ اعلان کیا تو ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اوروزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی موجود تھے۔پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد ہم الیکشن کی تیاری کریں گے، قومی اسمبلی میں ہماری 123نشستیں ہیں جن کے استعفے ابھی قبول نہیں ہوئے، ہم وہاں جا کر اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو تاکہ ہم قومی اسمبلی سے بھی نکلیں، پھر تقریباً 70 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال ہو کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں اور توڑ پھوڑ ہو، میں چاہتا ہوں، حکومتی پارٹیوں کو انتخابات کے ذریعے شکست دیں۔

انھوں نے اپنے موقف کی سچائی بیان کرنے کے لیے کہا کہ سروے کے مطابق 70 فیصد پاکستانی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کراؤ، ہم نے آئین میں رہتے ہوئے حکومت پر پریشر ڈالنے کی کوشش کی۔ ہم سب کو خوف ہے کہ ملک ڈوب رہا ہے، انڈسٹری بند ہو رہی ہے، مایوسی کا یہ عالم ہے کہ سات مہینے میں7لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے، اس میں انجینئر، ڈاکٹرز اور دیگر ہنرمند لوگ تھے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین نے جوکچھ کہا ہے ‘وہ سیاسی باتیں ہیں اور اسمبلیاں تحلیل کر کے وہ سیاسی فوائد اور اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ ملک کی ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت اپنے اہداف کا تعین کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور ان کے ساتھی شاید موجودہ حالات کو اپنی سیاسی کامیابی کے لیے موزوں سمجھتے ہیں ‘ ان کا خیال ہے کہ عوام ان کے موقف کے ساتھ ہیں اور ملک کا جو معاشی بحران ہے اس کی ذمے داری اتحادی حکومت پر ڈالتے ہیں ‘ ایسے میں اگر عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوبارہ حکومت بنا سکتی ہے ‘اب یہ اندازے کتنے درست ہیں۔

اس کے بارے میں ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے لیکن ایک بات سب تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جلد ختم ہونا چاہیے کیونکہ سیاسی عدم استحکام جیسے جیسے طویل ہوتا جائے گا ‘ملکی معیشت اتنی ہی تیزی سے زوال کا شکار ہوتی جائے گی۔

اس حقیقت کا ادراک ماہرین معاشیات کو ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام سیاسی لیڈران اور ان کے ساتھیوں کو بھی ہے ‘ اب اس کی سنگینی کو کون کتنا سنجیدہ لیتا ہے ‘ اس کے بارے میں بھی حقیقت عوام کے سامنے ہے ‘عمران خان جب سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹے ہیں اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے۔

اس وقت سے وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن آئینی اور قانونی طور پر تاحال صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں جب کہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے بھی آئینی موشگافیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔

اس وقت سے ملک ایک غیریقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ پنجاب اور کے پی کی سرکاری مشینری بھی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے کہ وہ کیا کرے کیونکہ حکومت کا کوئی پتہ نہیں کہ کب چلی جائے۔

ادھر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے پنجاب اورخیبرپختونخواکی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے کوئی نئی بات نہیں کی،ایک گھنٹہ میڈیا اور عوام کا وقت ضایع کیا ،وہ اس وقت ملک کے جمہوری تسلسل پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔

ان کی کوشش ہے اقتدار ختم ہوجائے تو سائفر کا ڈرامہ کرکے خارجہ پالیسی پر حملہ کردو، جب عمران خان کااقتدار ختم ہو رہا تھا تو اس نے اپنے وزرا سے خطوط لکھوا کر آئی ایم ایف کا معاہدہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، جس پر انھوں نے خود دستخط کیے تھے۔اب وہ ملک میں معاشی استحکام لانے کے عمل پر حملہ کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں عوام کو ریلیف نہ مل جائے۔

مرکزی حکومت یا اتحادی جماعتوں کے ردعمل پر غور کیا جائے تو وہاں بھی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی بلکہ جوابی بیانات داغے جا رہے ہیں ‘ اسپیکر قومی اسمبلی نے ابھی تک پی ٹی آئی کے تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے اسپیکرکے پاس خود جا کر اپنے استعفے جمع کرائے ہیں ‘یہ طرز عمل کسی طور بھی جمہوری سیاست سے ہم آہنگ نہیں ہے‘بے حسی تو یہ ہے کہ جو پارٹی اپنے ارکان کے مستعفی ہونے کی باتیں کر رہی ہے۔

اس کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان اپنی تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ ایسا کر کے وہ قومی خزانے کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں اور اپنے حلقے کے عوام کے مینڈیٹ کا بھی احترام نہیں کیا جا رہا ‘ یہی حال حکمران اتحاد کا ہے۔

وہ بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور سرکاری خزانے سے ایسے ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اورمراعات ادا کیے چلے جا رہے ہیں۔ بہرحال اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف علی نے کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل کرنے کامشورہ دینا وزیراعلی کااختیارہے ،اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے سمری آئی توگورنرز کوآئین کے مطابق مشورہ دوں گا۔

لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ قبل از وقت انتخابات ہونے پرنگران سیٹ اپ بنانا الیکشن کمیشن کااختیار ہے، بروقت انتخابات ہونے پرمشاورت سے نگران سیٹ اپ بنتا ہے۔ اسمبلیوں کی آئینی مدت اگست تک ہے، آئینی مدت کے اختتام پر الیکشن لازمی ہوں گے۔ الیکشن اپنے وقت پرہونا سب کے مفاد میں ہے، ہمیں مل بیٹھ کرپاکستان کے لیے سوچنا ہوگا،قبل ازوقت اسمبلیاں توڑنے سے ترقیاتی کام رک اور منصوبوں کے اخراجات بڑھ جائیں گے،اس صورتحال میں ڈونر ایجنسیاں بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں، انتخابات کے لیے آئین مشعل راہ ہے، انتخابات سے قبل مردم شماری، نئی حلقہ بندیاں اور ووٹوں کا اندراج آئینی تقاضا ہے۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی سرکردہ قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں اور حامیوں کے لیے راہ عمل متعین کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں ملک کو تعمیر و ترقی کی جانب لے جانے کے لیے عوام سے ووٹ مانگتے ہیں تاکہ اقتدار میں آ کر اپنے منشور اور پروگرام پر عمل کر سکیں۔

پی ٹی آئی ‘مسلم لیگ ن ‘پیپلز پارٹی ‘یہ تینوں پاپولر عوامی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کے نظریات و خیالات مبہم اور فرسودہ ہیں‘ان جماعتوں کی قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو قدامت پسندی اور روایتی انداز میں دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔

ان کی سیاسی جماعتوں کا اسٹرکچر بھی ایسا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی کوئی سیاسی تربیت ہے اور نہ ہی نظریاتی ‘ان سیاسی کارکنوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے لڑنے کا جذبہ بھی نہیں ہے۔ جب تک سیاسی قیادت خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزرتی ‘پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔