کرکٹ، سیکیورٹی اور ٹریفک جام

وقار احمد شیخ  پير 19 دسمبر 2022
کرکٹ میچ کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ (فوٹو: فائل)

کرکٹ میچ کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی میں کرکٹ میچز کا انعقاد عام شہریوں کے لیے ایک عذاب کی خبر سے کم نہیں ہوتا، خاص طور پر وہ شہری جو نیشنل اسٹیڈیم کے قریب رہائش پذیر ہیں یا اسٹیڈیم کے اطراف کی شاہراہوں پر سفر کرتے ہیں۔ ان دنوں بھی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا ہے لیکن تفریح کے اس کھیل کا بھگتان کراچی کے شہریوں کو رکاوٹوں، بند راستوں اور ٹریفک جام کی صورت بھوگنا پڑ رہا ہے۔

کراچی میں ایک غیر اہم سے ٹیسٹ میچ کےلیے تمام سڑکوں کو جام کردیا گیا ہے۔ بین الاقوامی کھلاڑیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے نام پر اپنے ہی شہریوں کو غیر محفوظ کردیا گیا ہے۔ ٹریفک جام کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہورہا ہے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ کرکٹ میچ ایک اسٹیڈیم کے اندر ہوتا ہے اور سیکیورٹی کے نام پر میلوں دور تک رکاوٹیں لگا کر راستے بند کردیئے جاتے ہیں۔

اگر کراچی میں امن مکمل طور پر بحال کردیا گیا ہے تو پھر یہ راستوں کی بندش کیوں؟ نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی تمام سڑکیں بند کرکے ہم عالمی سطح پر کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ حادثے کے خوف سے آپ گھر میں بیٹھ رہیں اور بعد میں اپنی اعلیٰ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ کچھ احساس بھی ہے کہ ٹریفک جام میں پھنسنے والے شہری نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ یہ تو صرف ایک ٹیسٹ میچ ہورہا ہے۔ اگر مکمل سیریز کراچی میں رکھ لی جائے تو کیا مہینے بھر شہر کی سڑکیں بند رہیں گی؟ آپ کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے آج لوگ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی آمد پر خوش نہیں ہوتے بلکہ واپسی پر سکون کا سانس لیتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا جان چھوٹی، اب سکون سے اپنے کام کاج پر جایا جاسکے گا۔

راستے بلاک کرکے اور لوگوں کی آمد و رفت پر قدغن لگا کر سیکیورٹی فراہم کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اس فیصلے کے مضمرات کیا پڑ رہے ہیں۔ شہر کی اکثریت اور خاص طور پر اسٹیڈیم علاقے سے تعلق رکھنے والے ان کرکٹ میچوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی گئی ہیں اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے یہ قیمتی فیول بلاوجہ ضایع ہوتا ہے جو شہریوں کے لیے اضافی معاشی بوجھ بھی بنتا ہے۔ کرکٹ میچ کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

ابتدا میں نیشنل اسٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر تھا لیکن شہر کے پھیلنے کے بعد یہ اب وسط میں آچکا ہے، اور اس کے اطراف تمام ہے علاقے تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہیں۔ اور اس کے اطراف کی شاہراہوں پر بلاشبہ لاکھوں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ ہر سال پی ایس ایل ہو یا کوئی اور کرکٹ میچ، نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی آبادی اور یہاں سے گزرنے والے مسافروں کو عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔

جب کبھی بھی نیشنل اسٹیڈیم میں کرکٹ میچز کی وجہ سے ٹریفک جام کا سامنا ہوتا ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ میں عوام کے بھانت بھانت کے مشورے سنائی دیتے ہیں۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ کرکٹ اسٹیڈیم کو شہر سے باہر لے جایا جائے اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی رہائش کےلیے ہوٹل بھی وہاں قریب ہی تعمیر کیا جائے یا آمد و رفت کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا جائے تاکہ عوام اس عذاب سے بچ سکیں۔

تفریح اس شہر کے لوگوں کا حق ہے۔ کرکٹ میچ لازمی کروائیے لیکن عوام کو تکلیف پہنچا کر نہیں بلکہ باقاعدہ پلاننگ کیجئے۔ راستوں کی بندش کے بجائے حقیقی سیکیورٹی کا انتظام کیجئے۔ اور اگر اس صورتحال کو کنٹرول نہیں کرسکتے تو پھر واقعی کرکٹ اسٹیڈیم کو شہر کی آبادی سے باہر لے جائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔