سیاستدانوں کا شریکا

نصرت جاوید  جمعرات 3 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ناک کو ہاتھ گھما کر کیوں پکڑیں؟ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ ہے تو صرف اتنی کہ 11مئی 2013ء کے روز شیر کے نشان پر منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی کی اکثریت ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے جو 12 اکتوبر 1999ء تک بڑے جوش وجذبے کے ساتھ ’’قدم بڑھائو نواز شریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والا راگ الاپا کرتے تھے۔ نواز شریف نے بالآخر جب ایک فیصلہ کن قدم اٹھا لیا تو ان کا تختہ ہوگیا۔ پوری دُنیا سے کٹے وہ کئی ماہ تک کسی ’’نامعلوم مقام‘‘ پر محصور رہے۔ نواز شریف کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے جانے کے بعد بھی مگر ان دنوں کی قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی اکثریت اس بات پر مطمئن رہی کہ اقتدار پر قبضہ کرلینے کے بعد جنرل مشرف نے پارلیمان کو صرف ’’معطل‘‘ کیا ہے۔ ’’معطلی‘‘ کے ان  دنوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ نواز شریف اور ان کے چند وفاداروں کو کرپشن وغیرہ کے الزامات کے تحت سزائیں دلوانے کے بعد قومی اسمبلی کو بحال کردیا جائے گا۔ نااہلی کی بنیاد پر خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور پھر اپنے احیاء کے بعد قومی اسمبلی ایک نیا وزیر اعظم منتخب کرلے گی اور یہ وزیر اعظم مشرف کے فوجی قبضہ کو آئینی تحفظ وغیرہ فراہم کردے گا۔

بجائے نواز شریف کی فکر میں مبتلا ہونے کے پاکستان مسلم لیگ کے بیشتر اراکین اسمبلی کھوج لگانے میں مصروف ہوگئے کہ فوجی، اقتدار کا ہما کس کے سر بٹھانا چاہ رہے ہیں۔ میاں اظہر نے اگرچہ یہ طے کرلیا کہ ہما ان کے سرپر بٹھادیا گیا۔ خورشید قصوری اور الٰہی بخش سومرو نے ایسے ہما کی موجودگی سے انکار کردیا۔ چونکہ بات چل نکلی تھی کہ لاہور سے آئے ایک وزیر اعظم کو ہٹانے کے بعد فوجی حکمران اقتدار کا ہما لاہور ہی کے کسی اور سیاست دان کے سر پر بٹھائیں گے اس لیے میاں اظہر اور خورشید قصوری کئی لوگوں کے پسندیدہ بن گئے۔ الٰہی بخش سومرو بڑے کائیاں اور تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ جس اسمبلی کو معطل کیا گیا تھا وہ اس کے اسپیکر ہوا کرتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ لاہور سے کسی اور جذباتی اور بات بہ بات غصے میں آجانے والے شخص کے بجائے جنرل مشرف کو کسی سنجیدہ اور بردبار شخصیت کی تلاش ہے۔ وہ شخصیت اگر کسی چھوٹے صوبے کی ہوئی تو ہما خودبخود اس کے سرپر آکر بیٹھ جائے گا۔

سومرو صاحب ضیاء دور کے بھی کافی چہیتے ہوا کرتے تھے۔ انھیں اور بلوچستان کے میر ظفر اللہ جمالی کو پورا یقین تھا کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزارت عظمیٰ ان کے علاوہ کسی اور کے پاس جا ہی نہیں سکتی۔ پیرپگاڑا نے مگر انتخاب محمد خان جونیجو مرحوم کا کرڈالا۔ سومرو اور جمالی صاحبان نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سیٹوں پر بیٹھ گئے اور جونیجو مرحوم کا تختہ اُلٹنے کی سازشوں میں مصروف۔

12اکتوبر1999ء کو معطل ہونے والی اسمبلی میں چوہدری شجاعت حسین بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ انھیں جبلی طور پر خوب سمجھ تھی کہ ہر فوجی حکمران کی طرح جنرل مشرف بھی بالآخر پاکستان میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے قیام کے لیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے صاف ستھرے اور اہل سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کریں گے۔ انتہائی خاموشی کے ساتھ میاں اظہر، خورشید قصوری اور الٰہی بخش سومرو کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہے۔ چوہدری برادران کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ احتساب بیورو کے جنرل امجد انھیں ’’بھلے سیاست دانوں‘‘ میں شمار نہیں کرتے تھے۔ پہلی ترجیح لہذا اپنا تحفظ بنی۔ طارق عزیز صاحب کے ساتھ خاندانی مراسم کی وجہ سے بالآخر جنرل مشرف کے دل تک پہنچنے کا راستہ بن ہی گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے اور آپ سب اس سے خوب باخبر۔ موضوع آج کا ویسے بھی نوازشریف کی موجودہ اسمبلی ہے جس میں شیر کے نشان پر منتخب ہونے والے کئی نمایاں لوگ جنرل مشرف کے دنوں میں بھی کافی تگڑے وزیر وغیرہ ہوا کرتے تھے۔

مگر وہ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ان دنوں ’’ق لیگ‘‘ میں جگہ نہ بناسکے وہ کوئی سورما نوعیت کے انقلابی ہرگز نہیں ہیں۔ نسلوں سے ان کو فوج اور افسر شاہی کو ’’مائی باپ‘‘ کہنے کی عادت ہے۔ اپنے اپنے حلقوں میں یہ لوگ اپنے دھڑے، برادری اورڈیرہ چلانے کے لیے وافر وسائل میسر ہونے کی وجہ سے کافی تگڑے ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی ٹھوس سیاسی نظریہ نہیں ہوتا جس پر قائم رہتے ہوئے وہ جان ومال کی قربانی دینے کو تیار ہوجائیں۔ قومی اسمبلی میں آجائیں تو ان کی پہلی خواہش وزیر شذیر بننا ہوتا ہے تاکہ ایک جھنڈے والی گاڑی ہو اور افسروں کو فون وغیرہ ملانے کے لیے پی اے شی اے اور حفاظت کے نام پر سرکاری وردیاں پہنے کلاشنکوف بردار گارڈ۔ وزارت مگر ہر ایک رکن قومی اسمبلی کو نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے ترقیاتی کاموں کے نام پر اراکین اسمبلی کے فنڈز وغیرہ مختص کرنے کا رواج ڈالا تھا۔ ان کے چلے جانے کے بعد کئی حکومتیں آئیں اور فارغ ہوئیں مگر یہ رواج اپنی جگہ قائم رہا۔ اس رواج کی بدولت ایک رکن اسمبلی کو اپنا ڈیرہ چلانے کے لیے ٹھیکے داروں کے ذریعے خرچہ ورچہ مل جاتا ہے۔

اپنے اپنے حلقوں کی فکر کرنے والے سیاست دان کا سب سے بڑا مسئلہ کوئی نظریہ نہیں ’’شریکا‘‘ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے طاقتور ساتھیوں کے خلاف جھوٹے سچے پرچے کرواتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے حلقے کی پولیس اس کے کہنے پر لوگوں کو رہا کرے یا گرفتار۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بات بنائی رکھنے کے لیے پنجاب میں شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھنا پڑھتا ہے۔ موصوف ’’گڈگورننس‘‘ کی گردان تو بہت کرتے ہیں اور اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو کوئی زیادہ لفٹ بھی نہیں کرواتے۔ آدمی مگر سمجھ دار ہیں۔ کافی دنوں تک ترلیں منتیں کروانے کے بعد بالآخر مان ہی جاتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ اپنے اپنے حلقوں کی فکر میں مبتلا ایسے ’’حمایتیوں‘‘ کے ہوتے ہوئے نواز شریف صاحب ہی کا حوصلہ ہے کہ جنرل مشرف کے معاملے پرکافی حد تک ڈٹے رہے۔ ان کی مجبوری مگر یہ بھی ہے کہ وہ اپنی دوسری حکومت کا تختہ الٹنے والے جرنیل کے ساتھ کوئی ذاتی بدلہ چکاتے بھی نظر نہیں آنا چاہتے۔

مشرف کو صرف غیر آئینی اقدام اٹھانے پر کم از کم ’’علامتی‘‘ سزا پاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بات ان کی ’’اصولی‘‘ ہے مگر ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہی رسوائی کی‘‘ ہے تو بس اتنی کہ شیر کے نشان کے ذریعے 11مئی 2013 کو قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والوں کی اکثریت دل سے جنرل مشرف کے معاملے پر ’’مٹی پانا‘‘ چاہتی ہے تاکہ کوئی اور ’’12اکتوبر1999‘‘نہ ہوجائے۔ اندرونی خوف کا عالم یہ بھی ہے کہ اب کی بار ’’نوازشریف قدم بڑھائو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والا نعرہ بھی نہیں لگایا جارہا۔ پیر کی شام جنرل مشرف پر فرد جرم عائد ہوجانے کے بعد کسی مسلم لیگی نے نہیں بلکہ بلوچستان سے آئے قوم اور جمہوریت پرست محمود خان اچکزئی نے اس دن کی ’’تاریخی اہمیت‘‘کا احساس ایک دھواں دھار تقریر کے ذریعے دلوایا۔ وہ بولے تو خواجہ آصف اور پرویز رشید بھی بول اٹھے۔ ایوان کے اندر بیٹھے تمام سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی اکثریت مگر ان کی تقریروں کے بعد بھی لاتعلق رہی۔ سانپ کے ڈسے رسی کے تصور سے بھی سہمے ہوئے بیٹھے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔