لاسٹ چانس

جاوید چوہدری  جمعرات 3 اپريل 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

نعیم بخاری میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ ان کی پہلی خوبی ان کی ’’ایکٹو نیس‘‘ ہے‘ یہ 66 سال کی عمر میں بھی جوان ہیں‘ یہ روزانہ ایکسر سائز کرتے ہیں‘ توبہ شکن لطیفے سناتے ہیں اور خواتین کو اس عمر میں بھی بیٹا یا میری بہن کہنے سے قبل دو منٹ سوچتے ہیں‘ ان کی دوسری خوبی‘ یہ سیلف لیس‘‘ ہیں‘ یہ بڑی حد تک لالچ سے پاک ہیں‘ یہ ضرورت کے مطابق پیسے کماتے ہیں‘ یہ بچانے کی کوشش اور زیادہ کمانے کی دوڑ دونوں سے فارغ ہیں۔

ان کی تیسری خوبی زندہ دلی ہے‘ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر بور نہیں ہوتے‘ یہ گھنٹوں بولتے ہیں اور آپ گھنٹوں ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑی سے بڑی سنجیدہ بات قہقہوں میں کہنے کا فن دے رکھا ہے اور ان کی چوتھی خوبی (یہ خوبی ان کی آخری خوبی نہیں) یہ انتہائی مخلص مشیر ہیں‘ یہ آپ کو کبھی غلط مشورہ نہیں دیں گے‘ بخاری صاحب کے مشورے میں بھی تین خوبیاں ہوتی ہیں‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے اور وسیع المطالعہ شخص ہیں چنانچہ ان کے مشورے میں مطالعے کا ذائقہ ہوتا ہے‘ یہ 66 برس کے ہو چکے ہیں‘ انھوں نے زندگی کے 40 برس اعلیٰ طبقوں میں گزارے‘ بے شمار خاندانوں اور شخصیات کا عروج و زوال دیکھا اور لاتعداد حکمرانوں کو آتے اور جاتے دیکھا چنانچہ ان کے مشورے میں تجربے کا پختہ پن بھی ہوتا ہے اور تیسرا یہ ذہین اور زیرک انسان ہیں چنانچہ ان کے مشورے میں ذہانت کی خوشبو بھی ہوتی ہے‘یہ ان خوبیوں کی وجہ سے بہت اچھے مشیر ہیں۔

جنرل پرویز مشرف بھی نعیم بخاری سے متاثر تھے‘ یہ اقتدار کے دوران نعیم بخاری کی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے رہے‘ صدر پرویز مشرف کا دور ختم ہوا‘ یہ لندن شفٹ ہوئے تو نعیم بخاری جنرل مشرف سے ملاقات کے لیے گئے‘ اس ملاقات میں جنرل مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف بھی موجود تھیں‘ نعیم بخاری نے اس وقت جنرل مشرف کو تین مشورے دیے‘ انھوں نے ان سے کہا ’’ سر لوگ آپ سے کہیں گے‘ عوام آپ کے راستے میں پلکیں بچھا کر بیٹھے ہیں‘لوگ آپ کو یاد کر رہے ہیں‘ آپ سے یہ بات جو بھی کہے‘ آپ اسے اسی وقت گھر سے نکال دیں‘ آپ یہ بات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذہن سے نکال دیں‘ آپ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے‘ آپ کا دور ختم ہو چکا ہے‘ یہ پاکستان ہے فرانس نہیں اور آپ بھی جنرل پرویز مشرف ہیں‘ فیلڈ مارشل ڈیگال نہیں چنانچہ آپ دوبارہ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے‘ آپ کو جو شخص یہ خواب دکھائے وہ آپ کا دشمن ہوگا‘ دوست نہیں اور تیسری بات۔ آپ یہ بھی ذہن سے ہمیشہ کے لیے نکال دیں فوج‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ برطانیہ یا امریکا آپ کی مدد کرے گا‘ یہ آپ کے لیے جس حد تک جا سکتے تھے‘ یہ جا چکے ہیں‘ یہ اب آپ کی مزید مدد نہیں کریں گے‘‘ جنرل پرویز مشرف نے نعیم بخاری کی باتیں غور سے سنیں لیکن انھیں کسی بات پر یقین نہیں آیا۔

یقین نہ کرنے کی بے شمار وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ جنرل کیانی تھے‘ جنرل کیانی نے انھیں یقین دلایا تھا پاک فوج آخری سانس تک آپ کی عزت کی حفاظت کرے گی‘ جنرل مشرف سے استعفیٰ لینے کے لیے یہ یقین بھی دلایا گیا تھا‘ آپ نے ملک کو گورننس اور پرفارمنس کے شاندار اسٹینڈرڈز دیے ہیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ان اسٹینڈرڈز پر پورے نہیں اتر سکیں گے‘ یہ چند ماہ میں بری طرح ناکام ہو جائیں گے‘ قوم ’’جنرل پرویز مشرف کو واپس لائیں‘‘ کے نعرے لگائے گی اور یوں آپ ڈیگال بن کر واپس آجائیں گے‘جنرل مشرف نے اس بات پر یقین کرلیا۔ دوسری وجہ سعودی عرب اور یو اے ای کے شاہی خاندان تھے‘ یو اے ای کے شہزادوں نے جنرل پرویز مشرف کو لاکھوں ڈالرز کا تحفہ بھی دیا تھا اور یہ انھیں دبئی میں سربراہ مملکت کا پروٹوکول بھی دیتے تھے‘ 2008ء کے آخر میں جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی شاہ کنگ عبداللہ نے جنرل کیانی کو ریاض بلا کر کہا ’’ جنرل مشرف میرا بھائی ہے۔

میرا جہاز ہروقت تیار رہتا ہے اگر جنرل مشرف کو کوئی تکلیف پہنچی تو میں اسے اپنے جہاز میں بٹھا کر سعودی عرب لے آئوں گا‘‘ یہ پیغام صدر آصف علی زرداری تک بھی پہنچایا گیا اور میاں نواز شریف تک بھی چنانچہ جنرل مشرف کا خیال تھا’’ سعودی عرب اور یو اے ای مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے‘‘ تیسری وجہ‘ امریکا‘ یورپ اور چین کا رویہ تھا‘ یہ تینوں جنرل پرویز مشرف کو پسند کرتے تھے‘ جنرل مشرف نے امریکا میں لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا تو امریکی حکومت‘ سیاستدانوں‘ میڈیا اور دانشوروں نے انھیں کندھے پر اٹھا لیا‘ انھیں لاکھوں ڈالرز معاوضہ بھی ملا اور والہانہ محبت بھی۔ یہ یورپ جاتے تو وہاں بھی انھیں ’’ڈارلنگ‘‘ کہا جاتا اور یہ مستعفی ہونے کے بعد اپریل 2009ء کو چین گئے تو انھیں وہاں بھی سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملا‘ چین کی قیادت نے ان کا استقبال بھی کیا اور انھیں محبت بھی دی۔

چنانچہ ان تینوں وجوہات نے جنرل پرویز مشرف کے گرد خوش فہمیوں کی لامتناہی جنت کاشت کردی‘ یہ خوش فہمیوں کی اس جنت کے ٹرانس میں چلے گئے‘ ان کا خیال تھا‘ یہ تاریخ کا دھارا بدل دیں گے‘ یہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ہوں گے جنہوں نے 9 سال فوج کی مدد سے حکومت کی اور یہ اس کے بعد 90 سال تک جمہوری لیڈر کی حیثیت سے ملک کی خدمت کرتے رہے مگر یہ بھول گئے انسان شاید ہرچیز کو پلٹ سکتا ہے لیکن یہ گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لا سکتا‘ آپ کچھ بھی کر لیں آپ 60 سال کی عمر میں 20 سال کے جوان نہیں بن سکتے‘ آپ بیس سال کی عمر میں چار سال کے بچے بھی نہیں بن سکتے‘ وقت اس دریا کی طرح ہے جس کا پانی ایک بار آگے نکل جائے تو یہ دوبارہ واپس نہیں آتا‘جنرل مشرف یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے۔

انسان کے گرد جب خوش فہمیوں کی جنت لہلہاتی ہے تو اس جنت میں بے شمار خوشامدی مکھیاں بھی آ جاتی ہیں‘ جنرل مشرف کو بھی ان مکھیوں نے گھیر لیا‘ یہ انھیں صدر محترم کہتی تھیں‘ یہ انھیں فیس بک کے لاکھوں فینز دکھاتی تھیں‘ یہ انھیں ان کے تاثرات دکھاتی تھیں‘ یہ انھیں پاکستان سے جعلی فون کرواتی تھیں جن میں لوگ رو رو کر ان سے درخواست کرتے تھے ’’ خدا کے لیے پاکستان کو بچائیے‘‘ اور یہ مکھیاں سارا دن انھیں ’’آپ لیڈر ہیں‘ آپ لیڈر ہیں‘‘ کے انجیکشن بھی لگاتی تھیں‘ ان مکھیوں نے جنرل مشرف کی غلط فہمیوں کو ہمالیہ تک بلند کر دیا اور پھر ایک دن ایسا آیا جب جنرل پرویز مشرف خوش فہمیوں کی اس ہمالیہ سے پھسل گئے اور یہ اپنے دوستوں‘ اپنے بہی خواہوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود پاکستان آ گئے۔

جنرل پرویز مشرف کو طارق عزیز سے لے کر خورشید محمود قصوری تک اور ایس ایم ظفر‘ ہمایوں اختر‘ امیر مقام‘ مشاہد حسین سید‘ آرمی چیف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا تک سب نے پاکستان آنے سے روکا تھا‘ سعودی عرب کے شاہی خاندان‘ یو اے ای کے شہزادوں اور امریکا میں موجود ان کے دوستوں نے بھی انھیں باز رہنے کا مشورہ دیا تھا‘ یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اعلیٰ لیڈر بھی ان سے ملے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے بھی انھیں اندھے کنوئیں سے بچنے کا مشورہ دیا‘ ان کی اہلیہ صہبا مشرف اور ان کی والدہ زرین مشرف بھی ان کے اس فیصلے کے خلاف تھیں مگر جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو یہ سانپ کو مفلر سمجھ کر گلے میں لٹکا لیتا ہے اور جنرل مشرف نے بھی خوش فہمیوں کا مفلر گلے میں ڈال لیا‘ یہ پاکستان آ گئے اور اس کے بعد کی کہانی آپ سب جانتے ہیں۔

میاں نواز شریف کا موقف ہمیشہ بے لچک ہوتا ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی ان کا موقف بے لچک اور واضح تھا‘ یہ جنرل پرویز مشرف کو عدالتوں کے دھکے کھاتا اور آرٹیکل چھ کے تحت سزا یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تاہم ان کا خیال ہے‘ جنرل پرویز مشرف اگر سزا پانے کے بعد صدر ممنون حسین سے درخواست کریں اور صدر انھیں پارڈن کر دیں تو انھیں اسی عزت کے ساتھ سعودی عرب بھجوا دیا جائے جس عزت کے ساتھ جنرل مشرف نے شریف خاندان کو جدہ بھجوایا تھا‘ میاں صاحب کے ساتھی بھی یہ چاہتے ہیں‘ ان ساتھیوں میں خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ مشاہد اللہ‘ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال شامل ہیں‘ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم نے جس دن مشرف کو جانے دیا اس دن ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے گا تاہم چوہدری نثار علی خان‘ اسحاق ڈار اور 2000ء میں میاں نواز شریف کے لیے جنرل پرویز مشرف کی لابنگ کرنے والے شجاعت عظیم (وزیراعظم کے مشیر ہوا بازی) مشرف کو راستہ دینا چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں‘ ہمیں جنرل مشرف جیسے بے پنجے اور بے دانت شخص کے لیے فوج اور سعودی عرب کو ناراض نہیں کرنا چاہیے‘ جنرل خوار ہو چکا ہے‘ اس کی اکڑ بھی ٹوٹ چکی ہے۔

چنانچہ اب اس کو جانے دیا جائے تا کہ ہم اپنی توانائیاں مثبت سمت میں لگا سکیں‘ فوج بھی ان ڈائریکٹ جنرل پرویز مشرف کو سپورٹ کر رہی ہے‘ یہ بھی مزید ان کی تذلیل نہیں چاہتی‘ میاں نواز شریف اس نزاکت کو سمجھ رہے ہیں چنانچہ پہلی بار ان کا موقف ذرا سا نرم ہوا ہے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کو راستہ دینے پر تیار ہیں‘اگر عدالت جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا دے تو حکومت انھیں  نہیں روکے گی‘ جنرل پرویز مشرف کا نام سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر30 مارچ 2013ء کو ای سی ایل پر چڑھایا گیا تھا‘ خصوصی ٹریبونل نے 31 مارچ کو گیند حکومت کے ’’کورٹ‘‘ میں پھینک دی تھی‘ حکومت مستقبل میں خود کو غیر جانبدار رکھے گی‘  جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا جائے گا یہ ای سی ایل سے نام ہٹانے کے لیے عدالت سے رابطہ کریں‘ میرا ذاتی خیال ہے‘ عدالت جنرل مشرف کا موقف مان لے گی اور یوں جنرل مشرف کو واپسی کا راستہ مل جائے گا‘ حکومت اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی ‘ یہ اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گی اور یوں جنرل مشرف کے لیے راستہ کھل جائے گا‘ میرا جنرل مشرف کو مشورہ ہے‘ یہ اس راستے سے ہوتے ہوئے باہر نکل جائیں کیونکہ یہ ان کے لیے آخری چانس ہو گا‘ یہ چانس بھی مس ہوگیا تو پھر شاید تاریخ بھی انھیں تاریخی عبرت بننے سے نہ روک سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔