دنیا بدل رہی ہے

مقتدا منصور  جمعرات 3 اپريل 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔تیز رفتار اورکثیرالجہتی تبدیلی کا وہ عمل جو دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہواتھا، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے۔ایسا کون سا شعبہ ہے، جس میں ہوشربا ترقی نہ ہوئی ہو۔اگرصرف بیس برسوں میں ہونے والی ترقی اور اس کے نتیجے میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائی جائے، توکون سا ایسا شعبہ ہے جو تیزی کے ساتھ آگے نہ بڑھا ہو۔مواصلاتی رابطے سے طب وجراحی تک سائنس و ٹیکنالوجی کے ہر شعبہ میں ایسی فقید المثال ترقی ہوئی ہے، جس کا چند دہائی قبل تک کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ اگر مواصلاتی شعبہ کا ذکرکریں،تو انٹرنیٹ، موبائل ٹیلی فون اور سٹیلائٹ ٹیلی ویژن آج ہر گھرکی زینت بن چکے ہیں۔

دنیا بھرکی اطلاعات ومعلومات تک رسائی سے یا سات سمندر پار احباب و اعزاء کے ساتھ رابطہ،اب چند سیکنڈوں کا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ان سہولیات کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کوزے میں بند ہوگئی ہے ۔اسی طرح حیاتیات، طب اورجراحی کے شعبے میںاس درجہ ترقی ہوچکی ہے کہ زود اثر ادویات کی ایجاد اور پیچیدہ آلات جراحی کی تخلیق کے بعد انسان کے لیے مختلف امراض سے نبرد آزما ہونا آسان ہوگیا ہے۔جینیات(Genetics)کی ترقی کے سبب انسان کو ان بیماریوں کے بارے آگہی ہوسکے گی جو اس کے وجود میں پل رہی ہیں اور آنے والے کسی دور میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔یوں امراض پر قابو پانا اور انسان کے لیے اپنی عمر میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ تحقیق وتجربے کی وجہ سے انسان کی کلوننگ بھی ممکن ہوگئی ہے۔ غرض سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی وجہ سے انسانی جانکاری اور سہولیات میں اضافہ نہ ہوا ہو۔

سائنس وٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی اور نت نئی ایجادات کے اثرات سماجی ،سیاسی اورفکری رویوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کے طرزِ فکر اور طرزِ حیات میں تبدیلی آرہی ہے۔ صدیوں سے جاری نظریات و افکار غیر متعلق(Irrelevant)ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے دوست ندیم اختر کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میںاختلاف رائے کم ہو رہا ہے اور اتفاق رائے بڑھ رہا ہے۔یہ انسانی سماج کی پانچ ہزار برس کی معلوم تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مختلف رنگ ونسل کے انسانوں میں ایک دوسرے کو قبول کرنے اور بعض اہم عالمگیر اصول وضوابط پر اتفاق پیدا ہو رہا ہے۔

آج کا ہر باشعور انسان اس بات پر متفق ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرکے اس کرہِ ارض کو بچایا جائے۔ آبادی پرکنٹرول کے ذریعے غذائی اور دیگرانسانی مسائل پر کنٹرول کیا جائے۔جوہری اسلحے کے پھیلائوکو روکا جائے اور روایتی اسلحے میں تخفیف کی جائے۔ملکوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو جنگ وجدل کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس سوچ نے فکری کثرتیت کے لیے قبولیت پیدا کی ہے،جس کی وجہ سے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت مضبوط ہو رہی ہے۔ اسی طرح صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والاسیاسی نظام جمہوریت، چار سو برس کے دوران مختلف تجربات سے گذرنے کے بعد سیاسی کے ساتھ ایک فکری رجحان کی شکل بھی اختیار کرچکا ہے۔جمہوریت اب محض انتخابات تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ریاست کی ہر سطح پر عوامی بااختیاریت سے مشروط ہوچکی ہے۔

سائنس کے فروغ اور بے مثل ترقی کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کی کامیابی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس کے نظریات،قوانین، اصول وضوابط اور مختلف طے کردہ کلیے کبھی جامد و ساکت نہیں ہوتے۔ سائنس کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ ہر نئی تحقیق کے نتیجے میں سابقہ نظریات اور اصول وضوابط خاصی حد تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔ گوکہ یہی اصول سماجیات پر بھی لاگو ہوتے ہیں، لیکن سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کئی عوامل سے مشروط ہوتی ہے۔خاص طور پر طریقہ پیداوارجو انسانی سماجوں کے سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں،ان میں تبدیلی لانے کا موجب بنتے ہیں۔جیسے جیسے نئی ایجادات سامنے آتی ہیں ،طرزِ پیداوار تبدیل ہوتا ہے۔ جس کے تبدیل ہونے سے طرزِحیات میں بھی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔

یوں سماج کی قوت محرکہ بھی تبدیلی کے متقاضی ہوتی ہے۔اس طرح سماج میں مروج قوانین اور قواعد وضوابط میں تبدیلی بھی ضروری ہوجاتی ہے۔چنانچہ کسی معاشرے کو صدیوں پرانے قوانین تو دور کی بات چند دہائی قبل تشکیل دیے گئے قوانین کے مطابق چلانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔اس لیے سیاسی، سماجی اور انتظامی قوانین میں ترمیم واضافہ اور نئے قوانین کی تشکیل وقت کی اہم ترین  ضرورت ہوتی ہے۔قانون سازی خالصتاً انسانی عقل و شعور اور ضروریات کا معاملہ ہے۔اس لیے متحرک انسانی معاشرے اپنی ضرورت کے مطابق قوانین تشکیل دیتے ہیں اور ان میں وقتاًفوقتاً ترمیم و اضافہ کرتے رہتے ہیں۔یہاں معروف دانشورابن رشد کا یہ قول نقل کرنا بے محل نہ ہوگا کہ’’ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو عقل دے اور پھر اس کے استعمال سے روکے۔‘‘ ابن رشد کہنا یہ چاہتے ہیں کہ خالق کائنات نے انسان کو دنیاوی معاملات زماں ومکاں کی مناسبت سے چلانے کا اختیار دیا ہے۔

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں عالمی سطح پر رونماء ہونے والی تبدیلیوں کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔جس ملک میں66 برس گذرنے کے بعد بھی ریاست کے منطقی جواز پر بحث جاری ہو اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا،اس سے مزید کسی بہتری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لایعنی بحث کی وجہ سے ایک طرف نظم حکمرانی کی سمت کے تعین میں رکاوٹیں کھڑی ہیں تو دوسری طرف ترقیاتی حکمت عملیوں کی تیاری کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ملک میں رائج نصف درجن نصاب اور طریقہ تعلیم اور پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں وقت اور حالات کی مناسبت سے تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت نے خواندگی کی شرح کو متاثرکرنے کے علاوہ فکری جمودکو گہرا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

مختلف تعلیمی نظاموں سے فارغ التحصیل شہریوں کے درمیان اس قدر بعُد اور دوری پیدا ہوگئی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے جوزف کوہن نے چند برس پہلے پاکستان کے بارے میں اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا تھا کہ ’’ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ اتنی مضبوط ہو کہ وہ ریاست کو ناکام ہونے سے بچا لے، لیکن اس میں اتنی بصیرت اورطاقت نہیںہے کہ وہ کوئی ایسی تبدیلی لاسکے ، جو ریاست کے پورے سیاسی،سماجی اور انتظامی ڈھانچے کی Tranformation کا سبب بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی انتظامی ڈھانچہ فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے اور مستقبل قریب میںاس میں کسی قسم کی بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔‘‘

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم یافتہ، باشعور اور متوشش شہریوں کی کمی نہیں ہے، جو معاملات ومسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔اسی طرح صاحبِ اقتدار حلقوں بالخصوص سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے اندر موجود تھنک ٹینکس میں ایسے ان گنت اصحاب موجود ہیں، جو تاریخ کے تجزیاتی مطالعے کے ساتھ اس خطے کے تزویراتی معاملات اور پاکستان کو درپیش مشکلات کا واضح طور پر ادراک رکھتے ہیں۔ہمارے اکابرین   1980 کے عشرے میں جنرل ضیا ء الحق کے افغان جنگ میں ٹانگ اڑانے کے نتائج سے بھی واقف ہوں گے۔ دنیا بھر سے اکٹھا کیے گئے جنگجو جتھوں کو   مجتمع کرنے کے نتائج بھی ذہن میں محفوظ ہوں گے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنا کچھ جاننے کے باوجود حکمران اور منصوبہ ساز ہر بار ایک ہی غلطی کیوںدہرتے ہیںاور صاحب الرائے شخصیات منہ میں گھونگھنیاں ڈال کر کیوں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں؟ محض چند سکوں کے عوض دنیا بھر میںہونے والے پھٹوں میں ٹانگ اڑانے کی اس ذہنیت نے پاکستان کو تباہی کے آخری دہانے تک نہیں پہنچا دیا ہے۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ بازی کی اس ذہنیت سے باہر نکل کر تبدیل ہوتی دنیا کے رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔توانائی کے بحران سے نکلنے کی کوشش کریں ،تاکہ ملک سے بیروزگاری کاخاتمہ ہو اور مہنگائی میں کمی آسکے۔امن وامان کی صورتحال بہتر ہوسکے،تاکہ ہم سب سکون کی زندگی گذار سکیں۔ اس لیے مودبانہ گزارش ہے کہ بقول وسعت اللہ خان بخشو بننے کے بجائے ایک مہذب اور شائستہ ملک بننے کی کوشش کریں اور دیگر ممالک کے قضیے میں الجھنے کے بجائے اپنے گھر کو درست کرنے پر توجہ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔