مفت کھانا، محنت کون کرے؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 3 اپريل 2014

انقلاب فرانس کا محرک بھوک تھی۔ وکٹر ہیوگو کا شہرہ آفاق ناول ’’لامضراب‘‘ (Less Miserable) کی بنیاد بھی بھوک ہی ہے۔ کئی دن کے فاقے سے بدحال ہیرو ڈبل روٹی چرانے کے الزام میں سزا بھگتتا ہے۔ ہیوگو کا یہ ناول فروخت کے اعتبار سے بھی یکتا تھا۔ گویا انقلاب اسی وقت آسکتا ہے جب بھوک سے بلبلاتے لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان ننگے بھوکے لوگوں نے متحد ہوکر امرا کے در و دیوار ہلا دیے۔ شہنشاہیت کے تخت اکھاڑ پھینکے۔ عام آدمی کے شعور کو سلانے کے لیے دو چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاطر اور چالاک حکمران قوموں کو غلام اور بے عمل بنانے کے لیے نشے کا عادی بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں بلا محنت و مشقت اور جیب سے پھوٹی کوڑی خرچ کیے بغیر دونوں وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز نہ اٹھاسکیں۔ چین کے عوام کو انگریزوں نے ایک سازش کے تحت افیم کا عادی بنایا۔ چینی افیمچی کہلاتے تھے۔ پھر وطن سے بے لوث محبت کرنے والے چینی لیڈروں نے اس عذاب کو محسوس کیا اور جی جان لگا کر چینی قوم کو نشے کی لت سے نجات دلائی۔ علامہ اقبال بھی کہہ اٹھے:

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

نشہ کرکے سو جانا اور پھر بھوک لگنے پر دونوں وقت بکرے کے گوشت کا سالن، بریانی اور دیگر کھانے صدقہ و خیرات کی مد میں معدے میں اترنے کو دسترخوان پر سجے ہوئے ہوں تو انقلاب کہاں سے آئے گا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ فٹ پاتھوں پہ، میدانوں میں، محلوں میں دوپہر اور رات کو دسترخوان سجا دیے جاتے ہیں۔ اس کار خیر کو بہت سے فلاحی ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔  شادی بیاہ کی تقریبات میں بچ جانے والا کھانا ضایع ہونے کے بجائے ان اداروں کو دیا جانے لگا ہے۔ تاکہ ان کے توسط سے بھوکے لوگوں کا پیٹ بھر جائے۔ اب جگہ جگہ آپ کو ایسے مناظر نظر آئیں گے۔ جہاں کھانا مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔

کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ میں نے کئی معتبر شخصیات سے اس موضوع پر بات کی تو تقریباً سب ہی کو اس خیال سے متفق پایا کہ بلامعاوضہ اور بغیر کسی محنت، مشقت کے مفت پیٹ بھر کھانا فراہم کرنا لوگوں کو کاہل اور سست بنانا ہے۔ جہاں جہاں یہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے وہاں زیادہ تر تعداد ہیرونچیوں کی ہوتی ہے۔ کھانا انھیں مفت میں اور بغیر کسی محنت کے مل رہا ہے۔ نشہ پورا کرنے کے لیے بھیک مانگ لیتے ہیں یا چوریاں کرکے ہیروئن خرید لیتے ہیں۔ بھنگ، چرس اور افیم کے لیے ہر قیمت پہ چونکہ رقم درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈکیتی، راہزنی آسان طریقہ ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان ’’بھوکوں‘‘ میں اکثریت ان کی ہے جن کا حق نہیں بنتا یہ خیرات کھانے کا۔ تمام رکشہ ڈرائیور دونوں وقت اپنے اپنے رکشے قطار میں کھڑے کرکے مفت کے کھانے سے ’’پورا انصاف‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک واقف کار نے بتایا کہ رکشے والے ایسی سواریاں بھی بھر کے لاتے ہیں جو انھیں مفت کھانے کے عوض باقاعدہ کچھ رقم بھی دیتے ہیں۔ یہ سب ان کے اپنے بھائی بند ہوتے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ کھانا کھلانے والے رضاکاروں کی مٹھی گرم کرکے دو کے بجائے چار روٹیاں اور اضافی سالن بھی لے لیا جاتا ہے۔ اور جو واقعی میں اس صدقہ و خیرات کے مستحق ہیں وہ محروم ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی غریب عورتیں اور بچے، گیراج اور دیگر دکانوں اور کینٹین پہ کام کرنے والے وہ بچے جو ’’چھوٹے‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کے نصیب میں تو اس کھانے کے دو لقمے بھی نہیں جو ان کا مالک ان کے سامنے بیٹھ کر کھاتا ہے۔ ’’چھوٹا‘‘ حسرت بھری نظروں سے تندور کی گرم روٹی کی خوشبو اور گھر کے پکے ہوئے سالن کی مہک کو صرف سونگھ سکتا ہے کھا نہیں سکتا۔کیونکہ بھوک مٹانے کے لیے اس کی ماں نے رات کی بچی ہوئی روٹی پہ اچار کی پھانک جو رکھ کر دی تھی وہی اس کا مقدر ہے۔ البتہ کبھی کبھی مالک کی پلیٹ میں بچی ہوئی ہڈی تھوڑے سے سالن کے ساتھ اس کا مقدر ضرور بن جاتی ہے۔ گھریلو ملازماؤں کا خیال سبھی خواتین کرتی ہیں۔ بچا ہوا کھانا، ناشتہ یا دعوت کا کھانا ان ملازماؤں کو سبھی دیتے ہیں۔ جن کے نشئی شوہر صرف مارپیٹ کرنا جانتے ہیں۔ انھیں تو کبھی کسی جگہ سے کھانا نہیں ملتا ! کیا ان محنت کش عورتوں اور بچوں تک صدقہ و خیرات کا یہ کھانا نہیں پہنچنا چاہیے؟ ایک طریقے سے یہ فلاحی اور رفاحی ادارے لوگوں کو ’’مفت خورے‘‘ بنا رہے ہیں۔صدقہ و خیرات کرنے والے ان اداروں کو رقم دے کر بے فکر ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔

فلاحی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بالکل مفت کھانے کی فراہمی بند کردیں۔ ان مفت خوروں سے کوئی نہ کوئی کام لیا جائے۔ اس کے عوض کھانا دیا جائے یا پھر جن کی آمدنی کم ہے اور بچے زیادہ ہیں انھیں بھی ایک معقول رقم کے عوض کھانا دیا جائے۔ ان میں شعور اور آگہی پیدا کی جائے کہ زیادہ آبادی اس ملک کے وسائل کے لیے خطرہ ہے۔ مفت کھانا تقسیم کرنے والوں کے بہت سے ادارے ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی یا تو ان مفت خوروں سے کام لیا جائے یا پھر یہ یقین کرنے کے بعد کہ وہ واقعی مدد کے مستحق اور حقدار ہیں انھیں کھانا دیا ضرور جائے۔ لیکن بالکل مفت نہیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ اس صورت حال سے دن بہ دن نشئی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ آپ ہوٹلوں کے باہر کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے افراد کی شکلیں دیکھیں تو سب کے سب نشہ باز نظر آئیں گے جو نشے کی طلب آنکھوں میں لیے کھانے کے انتظار میں عموماً نہاری کے ہوٹلوں کے باہر یا پکوان ہاؤس کے اطراف میں دکھائی دیں گے۔

خدارا!  لوگوں کو بھکاری نہ بنایے۔ خیرات کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن وہ صدقہ اور خیرات جو اصل حقداروں تک پہنچنے کے بجائے پیشہ ور اور نشے کے عادی لوگوں تک  نہیں وہ زہر قاتل ہے قوم کے لیے۔

ہر طرف یہ شکایت عام ہے کہ لوگ بے حس ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں کی ہر زیادتی کو بلاچوں و چرا برداشت کر رہے ہیں۔ کوئی آواز نہیں اٹھاتا، لوگ گھروں سے نہیں نکلتے ۔ کیوں نہیں آواز اٹھاتے؟ اس لیے کہ شکم کی آگ انسان کو دربدر لیے پھرتی ہے اور شکم کی آگ بغاوت کے شعلوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ شہر کے ان محلوں میں جہاں وہ محنت کش رہتے ہیں، جن کی عورتیں اور بچے بھی کام کرتے ہیں۔ ان محلوں میں رفاہی اداروں کو یہ دسترخوان لگانے چاہئیں۔ لیکن پھر کہوں گی کہ بالکل مفت نہیں بلکہ کسی نہ کسی خدمت کے عوض۔ ان خدمات میں سرفہرست گلی کوچوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی ہے۔ لوگوں کے گروپ بنادیے جائیں اور وہ گروپ نہ صرف صفائی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بلکہ لوگوں میں شعور اجاگر کریں کہ یہ شہر یہ محلہ اور یہ گلیاں آپ کی اپنی ہیں۔ گندگی ہزار بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ ٹھیلے والوں، پتھارے والوں، برگر اور پیزا شاپس، دکانداروں اور عوام میں یہ احساس اجاگر کریں کہ نہ صرف پلاسٹک کی تھیلیاں، بلکہ ہر قسم کا کچرا آلودگی پیدا کر رہا ہے جو دمہ، سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

بس آخر میں ان تمام فلاحی اداروں سے استدعا کروں گی کہ لوگوں کو احساس دلایے کہ وہ خود مستحقین کو تلاش کرکے مدد کریں کیونکہ زکوٰۃ خیرات بھی پہلے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو کھوجیے جو عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے اپنی ضرورت کسی کو نہیں بتاتے اور بھوکے سو جاتے ہیں۔ یہ عزت دار لوگ جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بے روزگار ہیں وہ ہیں اس کھانے کے حقدار۔ نہ کہ یہ نشے کی لت میں مبتلا یہ بدبخت جو نشے کی خاطر اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی بیچنے سے نہیں چوکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔