ٹوٹا ہوا پل

اقبال خورشید  جمعرات 3 اپريل 2014

وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ مستقبل کا حال جاننے کے لیے صحیفۂ دانیال کھنگالا جاتا، دیوان حافظؔ سے فال نکالی جاتی، آیندہ کے حالات دیکھنے کے لیے ناسٹرڈیمس کی پیش بینیوں پر تکیہ کرنے والے مغرب و مشرق میں آج بھی کم نہیں۔ پھر کسی نے شاہ نعمت اﷲ ولی کا قیصدہ لوگوں کو یاد دلایا، جس میں حروف تہجی کی علامتوں کی صورت قوموں کی تقدیر کے اشارے تھے۔ ان دانائوں کے پُر پیچ اشعار اور کثیر الجہت اقوال میں مستقبل کے نشان تلاش کیے جاتے رہے۔ پھر ایسا وقت آیا، جب اِن بزرگوں کی جگہ اخبار کے صفحات نے لے لی۔

وہ اخبار جس کی اپنی زندگی فقط چوبیس گھنٹے ہے، جو کچھ روز بعد لفافوں میں ڈھل جاتا، ہمیں نامعلوم کے کُہرے میں چھپے مستقبل کی خبریں پہنچانے لگا۔ اہل اقتدار آنے والے کل کی اطلاع اِسی وسیلے دیتے۔ عوام کو یقین دلاتے کہ جلد ہم زندہ قوم کہلائیں گے، اسلام کا قلعہ، ایشین ٹائیگر اور نہ جانے کیا کیا؟ اپوزیشن، حکومت کی رخصتی کی پیش گوئیوں میں جُٹی رہتی۔ تاریخیں دیتی۔ دعوے کرتی۔ اپنے مسند پر آنے کے اشارہ کرتی۔ تجزیہ کار اور اخبار نویس بھی کیوں پیچھے رہتے۔ وہ لفظوں سے مستقبل کی صورت گری کرنے لگے۔ کبھی خطے کی عسکری صورت حال کا نقشہ کھینچتے۔ کبھی سیاست کی بساط پر کھیلی جانے والی اگلی چالوں کی خبر دیتے۔ وہ فیصلے، جو ابھی ہوئے ہی نہیں، اُن کی اطلاع بھی قاری کو پہنچا دیتے۔

دیوان حافظ، کتاب دانیال کو بھول جائیے۔ اخبار، جس کا بنیادی وظیفہ خبر پہنچانا ہے، بیتے ہوئے دن کی خبر، وہ اِن اہل سیاست اور اہل قلم کے وسیلے اب ہمیں مستقبل سے آگاہ رکھنے کا فریضہ بھی انجام دینے لگا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان صاحبان کی بیش تر پیش گوئیاں کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ لیکن ’’مستقبل بینوں‘‘ کا اعتماد متزلزل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی روش پر قائم ہیں۔ کوئی سانحہ ہو، المیہ بیت جائے، یہ ذرایع ابلاغ میں اپنے کسی پرانے بیان کا حوالہ دیتے نظر آئیں گے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آپ کو وہ بیان لاکھ غیر متعلقہ لگے، آپ پکار اٹھیں: ’’مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے!‘‘ مگر وہ سینہ پھلائے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے بس یہی کہے جائیں گے: ’’دیکھا، ہم نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا!‘‘

ہمارے تجزیہ کار سیاست دانوں کی صحبت میں رہتے ہیں۔ ان ہی کے رنگ میں رنگے ہیں، بلکہ رنگے کیا، نمک کی کان میں یہ بھی نمک ہو گئے۔ پرانی تحریر نکال لاتے ہیں، خوب شور مچاتے ہیں۔ ایک مرحوم نے تو اپنی پرانی تحریروں کے تذکرے کو باقاعدہ فن کی شکل دے دی تھی۔ اب وہ نہیں رہے، لیکن ’’نہ رہی دشت میں خالی ’مری‘ جا میرے بعد!‘‘

جب سے اخبار کی پکی سیاہی میں یہ سب کچھ چھپنا شروع ہوا، ایک عجیب بے چینی لاحق تھی کہ اِسے کیا نام دیا جائے۔ چند روز قبل ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی۔ یوں لگا گرہ کھل گئی۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں:

جنگل سے ایک سڑک گزرتی تھی، جو آگے جا کر ایک پُل سے مل جاتی۔ سڑک کنارے ایک جھونپڑی تھی۔ ایک گیانی اپنے چیلے کے ساتھ وہاں رہا کرتے۔ ایک روز گرو جی کے حکم پر چیلے نے سڑک کنارے ایک بورڈ نصب کر دیا۔ لکھا تھا؛ اگر خود سے محبت کرتا ہے، تو ٹھہر جا!‘‘

کچھ دیر بعد ایک ٹرک گزرا۔ استاد کی ہدایت کے مطابق چیلے نے ڈرائیور کو بورڈ کی جانب متوجہ کیا۔ ڈرائیور بدتہذیب تھا۔ مغلظات بکتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد بریک چرچرائے۔ زور دار دھماکا ہوا۔

چیلے نے گرو کی طرف دیکھا۔ بزرگ نے ہاتھ اٹھائے۔ آسمان پر نگاہ کی: ’’جیسے مالک کی مرضی۔‘‘

پھر ایک کار گزری۔ چیلے نے ڈرائیور کو متوجہ کیا۔ ڈرائیور فقیر کو دھتکارتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ پھر زور دار دھماکا۔

’’جیسے مالک کی مرضی۔‘‘ گرو جی نے کہا۔

پھر ایک بس منظر میں ظاہر ہوئی۔ چیلے نے اپنی مشق دہرائی۔ ڈرائیور نے اپنی مشق۔ نتیجہ یکساں۔ ایک اور دھماکا۔

’’جیسے مالک کی مرضی۔‘‘ گرو جی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

چیلا جھنجھلا گیا۔ ’’مالک کی مرضی تو ٹھیک ہے گرو جی، مگر ہم بورڈ پر صاف صاف کیوں نہیں لکھ دیتے کہ آگے پُل ٹوٹا ہوا ہے!‘‘

یہ چھوٹی سی کہانی کتنی بامعنی ہے۔ ہمارے اہل سیاست، اہل قلم جب کبھی اپنے پرانے پُرپیچ بیانات اور تحریروں کے حوالے دیتے ہیں، جن میں پوشیدہ پیش گوئی ماسوائے اُن کے، ہر شخص کے لیے ناقابل فہم ہوتی ہے، تو لگ بھگ وہی معاملہ درپیش سمجھیں، اِس کہانی میں جس جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

قابل احترام سیاست دانوں اور رجحان ساز تجزیہ کاروں سے دست بستہ، سر جھکا کر عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مستقبل کا تذکرہ ہمارے لیے بے معنی ہے۔ حال ہمارا بے حال۔ ماضی فقط تاریخ، زندہ قومیں جس پر محض اِترا کر تسکین حاصل نہیں کرتیں، بلکہ سبق لے کر نئی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ ایسے میں روشن مستقبل کی پیش گوئی اکتاہٹ بڑھاتی ہے۔ ہم بے عملوں کو مزید بے عملی پر اُکساتی ہے۔ یہ مشق سات عشروں سے جاری ہے، حاصل اِس سے کچھ نہیں ہوا۔ کیا ہی بہتر ہوتا ہے کہ ’’اگر خود سے محبت ہے، تو ٹھہر جا!‘‘ کے بجائے ہمیں یہ بتا دیا جاتا کہ ’’پُل ٹوٹا ہوا ہے۔‘‘

واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا کہ آگے راستہ نہیں۔ سفر بے کار ہے۔ ہم بھٹک گئے ہیں۔ منزل کھو چکی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعلان کر دیا جاتا؛ دریا سوکھ رہا ہے، اور اِس کے کنارے آباد تہذیب دھیرے دھیرے مر رہی ہے۔

کھوکھلا احساس تفاخر ایک جانب رکھ کر اپنے حالات پر غور کیجیے۔ بین الاقوامی دنیا میں ہم اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ قیام کے چند ہی عشروں بعد اپنے ایک بازو سے محروم ہو گئے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ اِس وقت تین صوبوں میں شورش برپا۔ اور یورش گر ایسے ہیں کہ اہل مسند کو بھی چپ لگ گئی ہے۔ عام آدمی کا تو تذکرہ ہی کیا۔

روزانہ لاشیں۔ روزانہ خودکشیاں۔ خودسوزی کے شرم ناک واقعات۔ بھوک سے اموات۔ ناخواندگی کی تاریک رات۔ آبروریزی۔ اغوا برائے تاوان۔ اس پر مستزاد، تعصب۔ مذہبی، لسانی، نسلی تعصب۔ ہمارے گھر کی بنیادوں میں پانی مر رہا ہے۔ گھن لگ گیا ہے اِس معاشرے کو۔ پھر کس بات پر فخر؟ اپنی تباہ حالی پر؟ موت پر کہ ارزاں ہو چکی؟

ہمارے کچھ حلقے، جو محض الفاظ کی جادوگری کو حکمت و دانائی سمجھے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، آج بھی روشن مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔ اُن کے پیش کردہ نقشے میں یہ ریاست پوری دنیا کا مرکز ہے۔ اُن کے قصّوں میں یہاں خوش حالی ہے، ہریالی ہے۔ دودھ اور شہید کی نہریں بہ رہی ہیں۔ پوری دنیا سرنگوں ہو چکی ہے۔ اور مغرب تو کب کا نیست و نابود ہو گیا۔

اِس نرگسیت کو ترک کیجیے جناب۔ مشرق جنگ ہار رہا ہے۔ خوابوں سے نکل آئیں۔ ذرا راستے پر نظر ٹکائیں۔ پُل ٹوٹا ہوا ہے۔ آگے کھائی ہے۔ مستقبل بینی، مستقبل بینوں کے لیے رہنے دیں۔ وہ ستاروں کی چال، لکیروں کا حال بتائیں۔ اور لن ترانی بیمار ذہنوں کے لیے رکھ چھوڑیے۔ اگر خدا نے قیادت دی ہے، تو خود کو اس کا اہل ثابت کریں۔ ذہن دیا ہے، تو اُسے برتیں۔ قلم دیا ہے، تو اُس کی اہمیت کو سمجھیں۔ کیوں کہ پُل ٹوٹا ہوا ہے۔ اور وقت بہت کم ہے۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔