خواتین کا ’سب سے بڑا مسئلہ!‘

خوشبو غوری  منگل 20 دسمبر 2022
فاسٹ فوڈ کے ساتھ غذائیت بھرے کھانوں کو بھی شامل کیجیے۔ فوٹو : فائل

فاسٹ فوڈ کے ساتھ غذائیت بھرے کھانوں کو بھی شامل کیجیے۔ فوٹو : فائل

اگر آپ خاتون ہیں اور امورِ خانہ داری کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں پیش پیش ہیں، تو یقیناً یہ آپ کا بھی ’سب سے بڑا مسئلہ‘ ہو سکتا ہے کہ آج کھانے میں کیا بنائیں؟ یا پھر بچوں کو اسکول کے ’لنچ‘ میں کیا دیں؟ اور اگر گھر میں کوئی دعوت یا پارٹی ہے، تو اس میں کیا کیا ہونا چاہیے؟ واقعتاً یہ ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے، کیوں کہ نہ صرف بچے بلکہ گھر کے بڑے بھی روز ایک ہی طرح کا کھانا کھا کر بیزار ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً آپ کو باہر کے کھانوںکا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ہر دن کی ابتدا پر بہ حیثیت ’امی‘ خواتین کو زیادہ تر اہم اور توجہ طلب مسئلہ اسکول کے لنچ کا ہوتا ہے، کیوں کہ اہل خانہ تو اتنی فرمائشیں نہیں کرتے، لیکن بچے جلد ہی یک سانیت سے اکتا جاتے ہیں۔

عموماً بچے روز ایک جیسا لنچ لے جاتے ہوئے بور ہونے کے ساتھ مطمئن بھی نہیں ہوتے اور یہاں دن کے آغاز سے ہی ماں کی ’پریشانی اور مسائل‘ شروع ہوتے ہیں۔ خواتین کو دن بھر میں بہت سے کام ہوتے ہیں اس ہی لیے خواتین عموماً جلدی اور آسانی سے بن جانے والے ’لنچ‘ کی ریسیپیز کی تلاش میں رہتی ہیں، جو صحت بخش بھی ہوں اور بچے خوشی خوشی کھا بھی لیں۔

بچوں کے مزے دار، آسان، صحت مند اور متنوع لنچ کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہفتے کے پانچ دنوں کو کھانے کی پانچ کیٹگریز میں تقسیم کرلیں، جیسا کہ پیر کو گوشت سے بنا ہوا لنچ، ایک دن بچوں کی من پسند سبزی، ایک روز پھلوں کے لیے مختص کر دیا جائے۔

ایک دن فرنچ فرائز یا پھر کوئی تلی ہوئی چیز اور ایک دن ’بیکڈ‘ چیزیں یا سنڈوچز یا پھر پاستا، میکرونی یا نوڈلز وغیرہ کا۔ اس طرح سب سے پہلے تو روز ایک ہی طرح یا ملتے جلتے کھانوں سے جان چھوٹ جائے گی اور دوسری جانب بچوں کو تنوع اور غذائیت سے بھرپور لنچ کے ساتھ مختلف ذائقے بھی میسر آسکیں گے اور اس طرح بچے خوشی خوشی کھائیں گے اور اپنے لنچ سے مطمئن بھی ہو سکیں گے۔

یہ تمام کیٹگریز تیاری میں زیادہ وقت بھی نہیں لیتیں اور کھانے میں بھی نہایت مزے دار اور بے مثال معلوم ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ ماؤں اور بچوں کے لیے آسان اور اطمینان بخش صورت حال ہوگی۔ ساتھ ہی ماں کے لیے لنچ بنانے کی مشکل بھی حل ہوجائے گی۔

بچوں کے اسکول لنچ کے بعد سب سے اہم مرحلہ دن اور رات کے کھانے کی کوئی ترتیب مرتب کرنا ہوتا ہے۔

خواتین روزانہ اس پریشانی سے دوچار کبھی حضرات، کبھی بزرگوں اور کبھی بچوں ہی سے یہ سوال پوچھتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ آج کھانے میں کیا بنائیں؟ کسی کو گوشت پسند نہیں تو کوئی سبزی کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھا لے گا اور تو اور دال کا تو نام سنتے ہی تمام گھروالوں کی جیسے بھوک ہی اڑ جاتی ہے۔

کبھی گوشت میں سبزی، تو کبھی دال میں گوشت، کبھی چکن فرائی میں گریبی کی کمی کی شکایت تو کبھی دال میں پانی کی زیادتی کا رونا۔۔ خاتون خانہ کرے بھی تو کیا کرے!

ویسے تو گھر والوں، صاحب خانہ اور بچوں کی خوشی کے لیے خواتین کبھی انٹرنیٹ کی تراکیب، پکوانوں کے چینل اورکھانے پکانے کی ترکیبوں کے رسائل یا کتابوں سے استفادہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن مسئلہ پھر بھی وہیں کا وہیں نظر آتا ہے کہ ’’دو تین دن پہلے بھی تو یہی کھایا تھا، آج پھر سے یہ ہی کھانا ؟‘‘ یا ’’روز ایک ہی جیسا کھانا کھانے کو ملتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح خاتونِ خانہ پوری کوشش اور محنت کے باوجود گھروالوں کی ناراضی مول لیتی ہے۔

اس مسئلے کا حل بھی بچوں کے اسکول لنچ کے قریب قریب ہی ہے، یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ اسکول لنچ کے لیے ہفتے کے پانچ ایام میں ایک بار انتخاب کرنا ہوتا ہے، جب کہ گھرمیں دن اور رات کے کھانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کھانا منتخب کرنا ہوتا ہے۔

اس کے لیے خواتین کو چاہیے کہ گھر میں روز پکنے والے کھانوں کی باقاعدہ ایک فہرست بنا لیں، جس میں ہر کھانے کے لیے ایک دن مقرر کیا گیا ہو۔ فہرست بنانے سے خاتونِ خانہ کو پہلے ہی یہ معلوم ہوگا کہ پورے ہفتے میں انھیں کیا پکانا ہے۔

چاہیں تو خواتین آسانی کے لیے یہ ’مینیو‘ ہفتہ وار یا مہینے بھر کا بھی بنا سکتی ہیں۔ کھانے کا ’مینیو‘ مرتب کرتے وقت خاتونِ خانہ تمام گھر والوں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے مختلف پکوان منتخب کر سکتی ہیں۔

گھر کے اکثر افراد کو جو کھانے ناپسند ہوں اسے فہرست میں شامل نہ کیا جائے، لیکن اگر ان میں شامل اجزا صحت کے لیے مفید ہیں تو اسے پکانے کے لیے ایسی تراکیب شامل کی جا سکتی ہیں، جو گھروالوں اور بچوں کی پسند میں شمار ہوتی ہوں۔

کچھ خاندانوں میں اہل خانہ زیادہ تر گوشت کھانے کے شوقین ہوتے ہیں، جب کہ بعض گھروں میں سبزی رغبت سے کھائی جاتی ہے۔

جن گھرانوں میں گوشت زیادہ شوق سے کھایا جاتا ہے ان گھروں کے کھانوں میں گوشت باقاعدگی اورفراوانی سے استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ سبزی سے محبت اور رغبت رکھنے والے خاندان ہر کھانے میں سبزی کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہر کھانے میں سلاد کے طور پر کچی سبزی کا استعمال بھی معمول کی بات ہوتی ہے، لیکن یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ دن رات کے کھانے کی فہرست مرتب کرتے وقت جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے ضروری تمام تر لوازمات کو ’لنچ‘ اور ’ڈنر‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

دال، سبزیاں، گوشت، پھل اور سوئیٹ ڈشز سب کو برابر اہمیت دی جائے کیوں کہ یہ تمام اشیائے خورونوش انسان کی جسم میں نمکیات، حیاتیات، وٹامن، کولیسٹرول اور دیگر اہم اجزا کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

گھروالوں کے من پسند کھانوں کی فہرست مرتب کرنے کے بعد ضروری یہ بھی ہے کہ اس پر باقاعدگی کے ساتھ عمل بھی کیا جائے۔

کبھی کبھی اہم موقع کی مناسبت سے اس میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے اس ہی طرح کسی دن گھرکے فرد کی فرمائش پر مینیو میں کوئی تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے اور کچھ مختلف بھی پکایا جا سکتا ہے، لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ تبدیلی سب کی پسند کی ہو اور تمام گھروالوں کو قابلِ قبول ہو۔

یاد رہے کہ ’مینیو‘ میں موسم کے لحاظ سے تبدیلی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ کھانے کی فہرست میں موسم تبدیل ہونے کے ساتھ موسمی سبزیاں، فش وغیرہ کو شامل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ جیسے سردیوں میں ’سی فوڈ‘ کا استعمال مفید ہے، بہت سے گھرانوں میں پائے اور نہاری بھی شوق سے کھائی جاتی ہے۔

ساتھ ہی خشک میوہ جاتکا استمال بھی جسم کو توانائی اور حرارت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ظاہر ہے خشک میوے ہم کھانے کے طور پر استعمال نہیں کرسکتے، لیکن کھانے کے ساتھ ساتھ شامل ضرور کیے جاسکتے ہیں، جب کہ گرمیوں میں دہی، لسی جیسے مفید لوازمات کی شمولیت نہایت صحت بخش اور فائدہ مند ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ موسمی سبزیوں اور پھلوں کو اپنی غذا کا لازمی جُز بنانا نہایت اہم اور ضروری ہے، کیوں کہ یہ جسم کو قوت و توانائی فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔

آج کل بچے اور بڑے سب ہی ’فاسٹ فوڈ‘ کے شوقین ہیں۔ اس لیے کھانے کی فہرست میں سینڈوچ، برگر، بروسٹ، پیزا شامل کر کے اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اپنے دستر خوان کی رونق بڑھانے کے لیے خواتین سادہ کھانے بھی فہرست میں شامل کر سکتی ہیں۔ جیسے کہ بیسن کی روٹی، کڑھی اور آلو یا دال کے پراٹھے کے ساتھ مختلف اقسام کی چٹنی کا مزہ بھی گھر کے دسترخوان کی رونق کو دوبالا کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔