ماحولیاتی آلودگی، مربوط حکمت عملی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  منگل 20 دسمبر 2022
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے ہم سب پاکستانیوں کو مسئلے کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے ہم سب پاکستانیوں کو مسئلے کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے،سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں ہو رہا ہے۔

موسم کی شدت میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تیزی سے اضافہ نظر آرہا ہے معمول سے زیادہ بارشوں نے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی اور خطرناک سیلابی صورتحال کی شکل اختیار کر لی ہے۔

حالیہ بد ترین سیلاب بھی اسی کا نتیجہ ہے جس نے تین کروڑ سے زیادہ آ بادی کو بری طرح متاثرکیا ہے۔سردیوں کے موسم میں اسموگ بھی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی پھیلتی ہے جس کی وجہ سے گلے اور سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

سرد موسم میں ہوائیں بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ میں بھارت کا ایک بڑا حصہ ہے،وہاں فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے جو ہوا کہ ذریعے پاکستان خصوصاً لاہور میں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن جاتا ہے۔بنیادی طور پر ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے، درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلودہ ذرات حرکت نہیں کرتے، ہوا میں معلق رہتے ہیں۔

اسموگ میں مقامی صنعت کا ایک بڑا کردار ہے۔لاکھوں، کروڑوں روپے کے یونٹ لگائے جاتے ہیں مگر ان میں ماحولیاتی سیفٹی کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا، یہ فیکٹریاں ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں،ان میں سے اکثر رات کو چلتی ہیں۔

ہمارے یہاں کراچی اور لاہور میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ لاہور اور کراچی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے، کراچی میں روزانہ 500 ملین گیلن آلودہ پانی سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے، ہزاروں ٹن کچرا ایسا ہے جسے اپنے ٹھکانے پر پہنچایا ہی نہیں جاتا۔ لاہور جسے پھولوں اور باغوں کا شہر کہا جاتا تھا، اب وہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

لاہور کی ہر سڑک، ہر گلی اور ہر محلے میں اب صرف کوڑا کرکٹ نظر آتا ہے۔اسی طرح فصلوں میںکیڑے مار ادویات کا استعمال بھی انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ ہوا کا معیار دن بدن آلودہ ہونے کا باعث بجلی بنانے کے کارخانے، صنعتیں، ٹرانسپورٹ اور پاکستان میں استعمال ہونے والے ڈیزل کے معیار کو جانچنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی ہے ،وہ بچے جو آلودہ ماحول میں پرورش پاتے ہیں ان کے ڈیپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات تین سے چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

آلودہ فضا دماغی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اور جو بچے آلودہ ماحول والے خطوں میں پرورش پاتے ہیں، ان کے ڈیپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات تین سے چار گنا زیادہ ہوتے ہیںکیونکہ آلودگی سے بھرے ذرات ہوا کے ذریعے دماغ کے اندر گھس کر ڈیپریشن کی علامات کی وجہ بنتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات اور دشواریوں بالخصوص اسکول جانے والے بچوں کے ضمن میں حفاظتی تدابیر مثلا ماسک اور ہوا صاف بنانے والے آلات کے استعمال کے بارے میں اسکولوں کی سطح پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تا کہ آلودہ ہوا کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔

ماحولیاتی آلودگی میں گاڑیوں کے دھویں، زہریلی گیسوں، کیمیائی مادوں، گردوغبار، ٹھوس ذرات، ایندھن کے جلنے، جوہری اخراج، مصنوعی کیمیائی کھادیں، حشرات کش ادویات، کوڑاکرکٹ کے ڈھیر، شامل ہیں جو کہ فضائی، آبی، بحری اور زمینی آلودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ماحول میں آلودگی پھیلانے والے عناصر صحت کے مسائل جیسے سانس کی خرابی، دل کی بیماری اور کینسر کی بعض اقسام کا سبب بن سکتے ہیں۔

کم آمدنی والے لوگوں کا آلودہ جگہوں پر رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس میں پینے کا آلودہ پانی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، بچے اور حاملہ خواتین آلودگی سے متعلق صحت کے مسائل کا زیادہ شکار ہیں۔ آلودگی کو کم کرنے کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنا کر صحت کے بہت سے مسائل اور اموات سے بچا جا سکتا ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے ہم سب پاکستانیوں کو مسئلے کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ایک بھرپور حکمت عملی بنا کر اس مسئلے کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔پاکستان کو فضائی آلودگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مسئلہ پاکستان کی آنے والی نسلوں سے متعلق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔