ادویات کی شدید قلت اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ

ایڈیٹوریل  منگل 20 دسمبر 2022
یہ اجارہ داری اور منافع خوری پر مبنی طرز عمل تبدیل ہونا چاہیے (فوٹو : فائل)

یہ اجارہ داری اور منافع خوری پر مبنی طرز عمل تبدیل ہونا چاہیے (فوٹو : فائل)

کراچی کی ادویات مارکیٹ میں شوگر کے مریضوں کے لیے استعمال کی جانیوالی انسولین کی قلت شدت اختیار کرتی جارہی ہے، اس کے علاوہ جان بچانے والی دیگر ادویات کی بھی قلت برقرار ہے جب کہ بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی ادویات کا بحران نظرآرہا ہے۔

ایکسپریس کی خبر کے مطابق درحقیقت یہ صورتحال کم وبیش پورے ملک میں درپیش ہے ، ادویہ ساز کمپنیوںکو جب کسی دوا کی قیمت بڑھانا ہوتی ہے تو اُس کی ترسیل کم کر دیتے ہیں یا ترسیل بالکل روک لیتے ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں دوا کی قلت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہول سیل و پرچون کی مارکیٹ میں ہر وقت کسی نہ کسی دوا کی کمی رہتی ہے، جن میں جان لیوا بیماریوں اور دماغی و اعصابی بیماریوں (جیسا کہ مرگی یا فالج‘ شوگر و بلڈپریشر‘ دل‘ جگر یا گردے کے امراض) کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات بھی شامل ہوتی ہیں۔ مصنوعی قلت کے دوران ادویات کی منہ مانگی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملکی ادویہ ساز ادار ے فعال ہیں جب کہ کئی غیر ملکی معیاری کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری پر کم منافع کی وجہ سے پاکستان سے کاروبار سمیٹ لیا ہے۔

یہ اجارہ داری اور منافع خوری پر مبنی طرز عمل تبدیل ہونا چاہیے،مالی طور پر کمزور طبقات کو ادویات کی بلاتعطل فراہمی کے لیے اختراعی طریقے اپنانے ہوں گے‘ جنھیں کم قیمت کے بجائے یہ ادویات مفت ملنی چاہئیں۔

ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غریب مریضوں میں مفت تقسیم کے لیے سرکاری شعبے کے اسپتالوں کے لیے ادویات کی خریداری کے لیے براہ راست فنڈز فراہم کیے جائیں اور مریضوں کا ریکارڈ رکھتے ہوئے انھیں درکار ادویات مقررہ حکومتی فارمیسیز سے بلاقیمت فراہم کی جائیں۔

ادویات کی قیمتوں اور اِس کے معیار پر نظر رکھنے والے ادارے (ڈریپ) کو اِس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ کس طرح قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر ادویات کا معیار یقینی بنایا جائے اور کس طرح جعلی و غیر معیاری ادویات کی اسمگلنگ و فروخت روکی جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔