- کراچی، نشے کے عادی باپ نے سوتیلے کمسن بیٹے کو گلا دبا کر قتل کردیا
- حکومت کا بجٹ میں بینک ٹرانزیکشن اور لگژری اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ
- گلگت بلتستان حکومت کا سرکاری طلبہ کیلئے 50 ہزار روپے تک قرض دینے کا فیصلہ
- کراچی، دوران ڈکیتی مزاحمت پر پولیس افسر سمیت3 افراد زخمی
- حیدرآباد میں نامعلوم افراد ہزاروں روپے مالیت کی قیمتی مچھلی چوری کرکے لے گئے
- بیروزگاری سے تنگ ڈاکٹرز نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے ڈگریاں جلادیں
- مسلم لیگ ن نے استحکام پاکستان پارٹی سے انتخابی اتحاد کا عندیہ دے دیا
- ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا گیس پائپ لائن مشترکہ منصوبے پر دستخط
- کراچی کے ماحولیاتی نمونے میں پولیو وائرس کی تصدیق
- ملکی قرض 592 کھرب، پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں 11.2 فیصد کمی، اقتصادی سروے
- وفاقی حکومت بجٹ آج پیش کرے گی، 700 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز
- جہانگیر ترین کی نئی پارٹی کے قیام پر پی ٹی آئی کا ردعمل
- باغ آزاد کشمیرضمنی انتخاب، پیپلزپارٹی کامیاب، ن لیگ کا دھاندلی کا الزام
- افغان صوبے بدخشاں کی مسجد میں دھماکا، 15 افراد جاں بحق
- ماں باپ کا مبینہ قاتل بیٹا دبئی فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار
- دل کے 16 ہزار آپریشن کرنے والے مشہور بھارتی ڈاکٹر ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے
- پرانے انڈوں کو نئی ٹوکری میں ڈالنے سے استحکام نہیں آئے گا، سراج الحق
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 4 ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آگئے
- حکومت نے آئندہ عام انتخابات کے لیے بجٹ میں رقم مختص کردی
- کمپیوٹر پر واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کیلیے بھی میسج ایڈیٹ کی سہولت پیش
کام نہیں کرنا تو استعفا دیکر گھر جائیں، سندھ ہائیکورٹ کا ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ

(فوٹو فائل)
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں، کام نہیں کرنا تو استعفا دے کر گھر جائیں۔
صوبے میں بااختیار نظام سے متعلق جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی درخواستوں پر جواب جمع نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکرٹری بلدیات کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو سندھ میں با اختیار بلدیاتی نظام سے متعلق ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ایم کیو ایم وکیل طارق منصور، جماعت اسلامی کے وکیل صلاح الدین احمد اور عثمان فاروق ایڈووکیٹس پیش ہوئے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ اگر کام نہیں کرنا تو استعفا دے کر گھر جائیں۔ غیر ضروری تاخیر پر عدالت سخت برہم ہوگئی۔
جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ سیکرٹری بلدیات کہاں ہیں؟ ان کا جواب کہاں ہے؟ ، جس پر سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ ایڈیشنل سیکرٹری یہاں آئے ہیں، مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، یہ کوئی جواز نہیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل طارق منصور ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ 11 ماہ ہوچکے ہیں، مسلسل جواب مانگ رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات نے کہا کہ ہم اس ایشو پر ورکنگ کر رہے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ یہ وضاحت ناکافی ہے، یہ کوئی جواز نہیں۔ کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں؟
ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں آخری مہلت دے دی جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ نہیں، مہلت نہیں آپ اور سیکرٹری کیخلاف کارروائی کریں گے۔ آپ کو بہت وقت دیا گیا مگر آپ تاخیر کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے مؤقف دیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھ چکے۔ سپریم کورٹ فیصلے پر من و عن عمل نہیں کیا جا رہا۔ طارق منصور ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ فیصلے پر غیر ضروری تاخیر کی جا رہی ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری نے استدعا کی کہ صرف ایک چانس دے دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آخری چانس دے رہے ہیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ جسٹس کے کے آغا نے مزید کہا کہ سیکرٹری بلدیات خود کہاں ہیں؟ ان کو کہیں آئندہ سماعت پر خود آئیں۔ عمل کریں بصورت دیگر سخت کارروائی کریں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کب ہو رہے ہیں؟ طارق منصور ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو شیڈول ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بلدیاتی نظام کو با اختیار نہ بنانے پر توہین عدالت درخواست کیوں دائر نہیں کی؟ تاثر جا رہا ہے کہ آپ لوگ جان بوجھ کر تاخیر کر رہے ہیں۔
عدالت نے سیکرٹری بلدیات کو ذاتی حیثیت پیش ہونے اور فیصلے کی نقول چیف سیکرٹری کو ارسال کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے فوری بلدیاتی انتخابات کروانے اور ایم کیو ایم نے انتخابات سے قبل بلدیاتی نظام کو با اختیار کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔