- نیدرلینڈز میں قرآن پاک کی بےحرمتی، پاکستان کی شدید الفاظ میں مذمت
- بابراعظم کے بعد امام الحق کا بھی ٹریفک چالان
- بی جے پی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ مسلم مخالف جرائم پیش آئے، بلومبرگ
- مریضوں کی بینائی جانے کے بعد سندھ میں بھی ایواسٹن انجکشن پر پابندی عائد
- الیکشن سے پہلے دما دم مست قلندر ہوگا، بعض باہر تو کچھ جیل میں ہونگے، منظوروسان
- نادرا نے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا عمل دوبارہ شروع کردیا
- پاکستان ویٹرنز کرکٹ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا
- 2000 سال پرانا بچے کا جوتا بندھے ہوئے فیتوں کے ساتھ دریافت
- پی ایس ایل کے نویں ایڈیشن میں کسی ٹیم کا اضافہ نہیں ہوگا
- کرکٹربابراعظم کو لائسنس نہ ہونے پر 2 ہزار روپے جرمانہ
- شرح مبادلہ کو ایکسچینج کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا، یونس ڈھاگا
- طالبان کا داعش کی نگرانی کیلئے امریکی منصوبے کو اپنانے کا فیصلہ
- کراچی میں تیزاب گردی کا واقعہ؛ ’ذاتی دشمنی‘ پر ملزم نے خاتون کو نشانہ بنایا، پولیس
- بھارت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ویزے جاری کردیے
- الیکشن کمیشن نے سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا
- بھارتی انتہاپسندوں کے مظالم کا شکار ہونے والے مسلمان باپ بیٹا کراچی پہنچ گئے
- اسرائیلی پولیس کی سرپرستی میں یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کر دیا
- نیند میں کمی قلبی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے
- ڈالر کی گراوٹ کا رجحان جاری، انٹربینک میں مزید سستا ہوگیا
- نگراں وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر جامعہ کراچی کے اساتذہ کی ہڑتال ختم
کام نہیں کرنا تو استعفا دیکر گھر جائیں، سندھ ہائیکورٹ کا ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ

(فوٹو فائل)
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں، کام نہیں کرنا تو استعفا دے کر گھر جائیں۔
صوبے میں بااختیار نظام سے متعلق جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی درخواستوں پر جواب جمع نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکرٹری بلدیات کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو سندھ میں با اختیار بلدیاتی نظام سے متعلق ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ایم کیو ایم وکیل طارق منصور، جماعت اسلامی کے وکیل صلاح الدین احمد اور عثمان فاروق ایڈووکیٹس پیش ہوئے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ اگر کام نہیں کرنا تو استعفا دے کر گھر جائیں۔ غیر ضروری تاخیر پر عدالت سخت برہم ہوگئی۔
جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ سیکرٹری بلدیات کہاں ہیں؟ ان کا جواب کہاں ہے؟ ، جس پر سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ ایڈیشنل سیکرٹری یہاں آئے ہیں، مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، یہ کوئی جواز نہیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل طارق منصور ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ 11 ماہ ہوچکے ہیں، مسلسل جواب مانگ رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات نے کہا کہ ہم اس ایشو پر ورکنگ کر رہے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ یہ وضاحت ناکافی ہے، یہ کوئی جواز نہیں۔ کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں؟
ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں آخری مہلت دے دی جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ نہیں، مہلت نہیں آپ اور سیکرٹری کیخلاف کارروائی کریں گے۔ آپ کو بہت وقت دیا گیا مگر آپ تاخیر کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے مؤقف دیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھ چکے۔ سپریم کورٹ فیصلے پر من و عن عمل نہیں کیا جا رہا۔ طارق منصور ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ فیصلے پر غیر ضروری تاخیر کی جا رہی ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری نے استدعا کی کہ صرف ایک چانس دے دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آخری چانس دے رہے ہیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ جسٹس کے کے آغا نے مزید کہا کہ سیکرٹری بلدیات خود کہاں ہیں؟ ان کو کہیں آئندہ سماعت پر خود آئیں۔ عمل کریں بصورت دیگر سخت کارروائی کریں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کب ہو رہے ہیں؟ طارق منصور ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو شیڈول ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بلدیاتی نظام کو با اختیار نہ بنانے پر توہین عدالت درخواست کیوں دائر نہیں کی؟ تاثر جا رہا ہے کہ آپ لوگ جان بوجھ کر تاخیر کر رہے ہیں۔
عدالت نے سیکرٹری بلدیات کو ذاتی حیثیت پیش ہونے اور فیصلے کی نقول چیف سیکرٹری کو ارسال کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے فوری بلدیاتی انتخابات کروانے اور ایم کیو ایم نے انتخابات سے قبل بلدیاتی نظام کو با اختیار کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔