اسٹارز کو عزت دو

سلیم خالق  بدھ 21 دسمبر 2022
شکستوں نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ساتویں نمبر پر پہنچا دیا۔ فوٹو:فائل

شکستوں نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ساتویں نمبر پر پہنچا دیا۔ فوٹو:فائل

پارکنگ سے کار میں بیٹھ کر میں اپنے دوستوں کو لینے نیشنل اسٹیڈیم کے مرکزی دروازے کی جانب جانے لگا تو دیکھا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب محمد جا رہے ہیں۔

میں انھیں دیکھ کر رک گیا اور کہا شعیب بھائی فاصلہ تو تھوڑا ہے لیکن آئیں میں آپ کو ڈراپ کر دوں، وہ یہ سن کر کار میں بیٹھ گئے، میں نے دریافت کیا کہ آپ تو یقینا چیئرمین باکس میں ہی جا رہے ہوں گے، یہ سن کر وہ مسکرائے اور پھر جو جواب دیا میں اس پر حیران رہ گیا، شعیب محمد نے بتایا کہ ان کو تو چند سو روپے والے جاوید میانداد اور فضل محمود انکلوژرز کے ہی ٹکٹس ملتے ہیں مگر ایک صحافی نے آج باکس کے پاسز دے دیے ہیں تو وہاں بیٹھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’میں تو عام شائقین کے ساتھ کئی بار پی ایس ایل و دیگر میچز دیکھ بھی چکا ہوں،گوکہ اس سے مجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ خیال ضرور آتا ہے کہ یہ وہی نیشنل اسٹیڈیم ہے جہاں میری اوسط 100سے زائد رہی،1990میں اسی گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابل شکست ڈبل سنچری بنائی، فرق صرف یہ ہے کہ تب میدان کے اندر بیٹ میرے ہاتھ میں تھا اور اسٹینڈز میں بیٹھے لوگ میرے لیے تالیاں بجا رہے ہوتے تھے۔

اب میں اسٹینڈ میں بیٹھ کر موجودہ کرکٹرز کو داد دے رہا ہوں، میں نے ایک بورڈ آفیشل سے کہا کہ کسی باکس کے 2 پاس دے دیں اہلیہ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں تو انھوں نے اتوار کے بجائے پیر پر اصرار کیا اور پھر فون ہی نہیں اٹھایا،تم تو جانتے ہو پیدل بھی کتنا چلنا پڑتا ہے۔

میرے پاس تو پارکنگ کا اسٹیکر بھی موجود نہیں‘‘شعیب بھائی یہ کہہ کر چلے گئے اور میں سوچتے رہا کہ پی سی بی میں ایک سابق کرکٹر کے دور میں ہی سابق کرکٹرز کی عزت نہیں ہے،رمیز راجہ پر جو زوال آیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

کراچی ٹیسٹ کے دوران اسٹیڈیم 90 فیصد خالی رہا مگرپھر بھی بورڈ کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ ایسی حکمت عملی بناتا جس سے لوگ آتے،ٹوٹی کرسیاں، خراب واش رومز، میلوں پیدل چلنے کے بعد جب پہنچو تو اندر جانے میں بھی کئی مسائل، جب آپ لوگوں کو سہولتیں نہیں دیں گے تو وہ کیوں اسٹیڈیم آئیں؟

میں نے کافی عرصے سے ہوم میچز کیلیے ایکریڈیشن کارڈ بنوانا ترک کر دیا ہے کیونکہ پی سی بی کے ایک بقراط نے ایسے قوائد و ضوابط بنائے ہیں جیسے صحافیوں کو کارڈ نہیں سینٹرل کنٹریکٹ دے رہے ہوں، گوکہ بیشتر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میرے جیسے صحافی جو بورڈ پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔

ان کی کسی بھی بات کو پکڑ کر پھر ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے، البتہ اب ان صاحب کی بادشاہت ختم ہونے والی ہے،ان دنوں میں کبھی کبھی اسٹیڈیم میں میڈیا سینٹر کے سوا کہیں اور جا کر میچ دیکھ لیتا ہوں، اس دن البتہ بہت مایوسی ہوئی کہ 17 سال بعد انگلش ٹیم پاکستان آئی اور خالی اسٹیڈیم منہ چڑا رہا ہے۔

البتہ انگلینڈ کے شائقین کا گروپ ’’بارمی آرمی‘‘باجے بجا کر ماحول بنا رہا تھا،وہ مسلسل نعرے بازی بھی کرتے رہے،پاکستانی شائقین نے بھی ان کا ساتھ دیا،مگر ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے سارا ماحول خراب کر دیا،کم سے کم میں نے تو نہیں سوچا تھا کہ ہوم گراؤنڈ پر 0-3 سے شکست ہو گی،شعیب ملک نے جب ٹیم سلیکشن میں دوستیاں یاریاں نبھانے کا الزام لگایا تھا تو لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔

اب وہ بات درست ثابت ہو چکی ہے،آپ سچے دل سے بتائیں کہ ٹیسٹ میں مسلسل ناکام محمد رضوان کو کیا کراچی میں کھلانے کا کوئی جواز تھا؟ سرفراز احمد کو کیوں موقع نہیں دیا گیا،اس کا کسی کے پاس ٹھوس جواب موجود نہیں ہے،عبداللہ شفیق اور شان مسعود کی جوڑی ناکام رہی،اظہر علی اپنے آخری ٹیسٹ کو یادگار نہ بنا سکے،صرف بابر اعظم، سعود شکیل اور سلمان علی آغا نے ہی بہتر بیٹنگ کی،ہوم گراؤنڈ اور ڈیڈ پچز کے باوجود پاکستانی بیٹنگ لائن خاطر خواہ پرفارم کیوں نہیں کرسکی۔

ایسا کیا ہو گیا کہ ہمارے بیٹرز سے اپنی پچز پر ہی نہیں کھیلا جا رہا؟ اسی طرح فاسٹ بولرز نے تو پوری سیریز میں بیحد مایوس کیا،فہیم اشرف پر کپتان کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ پہلی اننگز میں 1 اور دوسری میں2 اوورز کرائے، وسیم جونیئر ڈیبیو پر متاثر نہ کر سکے،اسپنرز ابرار اور نعمان نے وکٹیں تو لیں مگر دل کھول کر رنز دیے۔

اس پوری سیریز میں پیس اٹیک نے بہت مایوس کیا، شاہین آفریدی،حارث رؤف اور نسیم شاہ دستیاب نہ تھے تو حسن علی، میرحمزہ اور محمد عباس کو آزماتے لیکن چیف سلیکٹر نے کسی متبادل کی ضرورت ہی محسوس نہ کی،انگلینڈ نے 18سالہ اسپنر ریحان احمد کو کھلایا جو ہمارے بیٹرز کو شین وارن لگنے لگا،ریحان نے دوسری اننگز میں 5 وکٹیں اڑاتے ہوئے ٹیم کو میچ جتوا دیا،کراچی میں اظہر علی کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام ہوگیا۔

اچھی بات ہے کہ انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ کر خود ہی فیصلہ کر لیا، ساتھیوں نے بھی انھیں بہترین انداز میں رخصت کیا۔ویسے اب رمیز راجہ کو احساس ہو چکا کہ بطور چیئرمین ان کے دن کم بچے ہیں،اس فرسٹریشن کو وہ میڈیا پر نکال رہے ہیں،کراچی میں بھی انھوں نے صحافیوں پر منفی ہیڈلائنز لگانے کا الزام عائد کیا،ٹھیک ہے جناب مگر کیا ناقص پچز میڈیا نے تیار کیں

کھلاڑی میڈیا کی وجہ سے ان فٹ ہوئے

کیا میڈیا کی وجہ سے پاکستان ٹیم تاریخ میں پہلی بار ہوم سیریز میں کلین سوئپ کا شکا رہوئی

اور کیا 5ماہ سے ڈومیسٹک کرکٹرز کے ماہانہ معاوضے و میچ فیس بھی میڈیا نے روکے

ہر چیز میڈیا پر نہ ڈالیں بورڈ حکام اپنے گریبان میں جھانکیں،تاریخ میں پہلی بار ہوم ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ شکست،ہوم گراؤنڈ پر مسلسل چار ٹیسٹ میچز میں ناکامی ،کون ہے ذمہ دار؟کہاں ہیں پی سی حکام ؟سامنے آ کر ذمہ داری قبول کریں۔

شکستوں نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ساتویں نمبر پر پہنچا دیا،فائنل میں رسائی کا خواب تو پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا،اب چیئرمین پی سی بی کو وزیر اعظم ہاؤس سے کوئی نوٹیفکیشن آنے کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔

چیف سلیکٹر اور ہیڈکوچ کو بھی فارغ کرنا ہوگا مگر پاکستان میں کوئی خود نہیں جاتا یقین نہیں آتا تو وہ ویڈیو دیکھ لیں جس میں رمیز راجہ نے کہا تھا کہ عمران خان اگر وزیر اعظم نہ رہے تو عہدہ چھوڑنے میں 2 منٹ بھی نہیں لگاؤں گا، اس بات کو کتنا وقت گذر چکا آپ بخوبی جانتے ہوں گے، اب بھی ایسا ہی ہو گا،لہذا حکومت کو انھیں گھر بھیجنا پڑے گا اور شاید اس کا وقت آنے والا بھی ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔