وی آئی پی کلچر قائد ؒ کی نظر میں

سید عاصم محمود  اتوار 25 دسمبر 2022
حکمران طبقے کو قانون اور عام آدمی سے بالاتر کر دینے والا عمل بانی ِپاکستان کے قول وفعل کی روشنی میں۔ فوٹو : فائل

حکمران طبقے کو قانون اور عام آدمی سے بالاتر کر دینے والا عمل بانی ِپاکستان کے قول وفعل کی روشنی میں۔ فوٹو : فائل

جون 1757ء کی بات ہے، برطانیہ کی تجارتی ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں نے غداروں، سازشوں، دولت اور جدید اسلحے کے بل بوتے پر بنگال پہ قبضہ کر لیا۔

اس کے بعد وہ اپنے ناجائز ہتھکنڈوں کی مدد سے سونے کی چڑیا، ہندوستان کے بقیہ علاقوں پہ قابض ہوتے چلے گئے۔

اب کمپنی کو نئے علاقوں کا انتظام چلانے کے لیے نئے انگریز افسروں کی ضرورت تھی۔ہندوستان دور دراز واقع ملک تھا۔پھر لوگ اجنبی اور دشمن جبکہ موسم بھی سازگار نہ تھا۔اس لیے کوئی انگریز آسانی سے ہندوستان جانے کو تیار نہ ہوتا۔ایسٹ انڈیا کمپنی تعلیم یافتہ افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے انھیں مراعات وسہولیات دینے لگی۔

انھیں بھاری مشاہرہ ملنے لگا۔پھر وہ ہندوستان جاتے تو کئی کنال رقبے پر محیط بنگلہ بہ غرض رہائش ملتا۔ملازمین کی فوج آگے پیچھے پھرتی۔وہ اچھا کھاتے اورپہنتے۔’’صاحب بہادر‘‘بڑے تزک واحتشام سے مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے۔برطانوی کمپنی کے اسی عمل نے ہندوستان میں ایک نئے تہذیبی چلن’’وی آئی پی کلچر‘‘کی بنیاد ڈال دی۔

شروع میں صرف انگریز ہی اس کلچر کا حصّہ تھے۔رفتہ رفتہ مقامی افراد بھی انتظام حکومت میں شامل ہوئے تو انھوں نے بھی اس کلچر کو اپنا لیا۔اسی کلچر کی بنا پر بتدریج ہندوستان میں سرکاری افسر، فوجی افسر اور برطانوی ہند کے وفادار بااثر مقامی باشندے (جیسے جاگیردار ،سیاست داں) عوام سے الگ تھلگ ہوگئے۔

یوں ہندوستان کی آبادی دو واضح طبقوں میں تقسیم ہو گئی۔ایک طبقہ وی آئی پی کلچر کا پیروکار تھا ، دوسرے طبقے میں عوام شامل ہو گئے۔پہلے طبقے کے فرستادہ عموماً عوام کو حقارت سے دیکھتے اور ان سے فاصلہ رکھتے۔ماضی میں یہ تقسیم ایسی نہ تھی۔

ایک نئے دیس میں انقلابی تبدیلی

ہندوستان نے انگریز استعمارسے نجات پائی تو بھارت میں تحریک آزادی کے سرگرم رہنماؤں نے اقتدار سنبھال لیا۔ان میں بیشتر عوامی ونظریاتی رہنما تھے۔

انھوں نے بہت جلد جاگیرداری نظام ختم کر دیا اور زمینیں کسانوں میں بانٹ دیں۔ اس طرح انگریز کے وضع کردہ وی آئی پی سسٹم کے ایک اہم جز کو ملیامیٹ کر دیا۔نیز سرکاری افسروں کو باور کرایا کہ وہ عوام کے خادم ہیں ، آقا نہیں…کیونکہ انھیں تنخواہیں اور مراعات عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم سے ملتی ہیں۔

بھارتی رہنما جرنیلوں کو بھی یہ سبق پڑھانے میں کامیاب رہے کہ فوج سول حکومت کی تابع ہے، اس پر حاکم نہیں۔یوں بھارت میں انگریزوں کا ایجاد کردہ وی آئی پی کلچر پنپ نہ سکا۔یہی وجہ ہے، ہم دیکھتے ہیں، بھارتی حکمران طبقے کے طرزحیات اور فکر وعمل میں سادگی و انکسار زیادہ ہے اور ظاہری نمائش، ٹیپ ٹاپ و تصنع کافی کم!

دوسرے دیس میں لکیر کے فقیر

پاکستان میں ابتدا ہی سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ انگریز کے وفادار جاگیردار اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر حکمران جماعت میں شامل ہوگئے۔

دوم یہ کہ قائداعظمؒ، لیاقت علی خانؒ، سردار عبدالرب نشترؒ اور دیگر عوام دوست رہنمابہت جلد سنگین معاشی ومعاشرتی مسائل میں گھر گئے جن سے نوزائیدہ مملکت نبردآزما تھی۔لہذا انھیں انگریز کی نشانی، وی آئی پی کلچر کی بیخ کنی کا موقع ہی نہ مل سکا۔یہی وجہ ہے، پاکستانی حکمران طبقے میں اس کلچر نے پھل پھول کر نئی ہئیت اختیار کر لی…ایسی صورت جس کی نمایاں خصوصیات ظاہری شان و شوکت، غرور وتکبر ،عوامی مسائل سے بے اعتنائی اور ’’تم مجھے نہیں جانتے ؟ ‘‘ جیسا رویّہ تھیں۔اس نے طبقہ بالا کو قانون اور عام آدمی سے بے پروا کر ڈالا۔

ہم وطنوں کی زندگیاں بنا ڈالی

بعض غیرملکی مورخ اور ان کی نام نہاد تحقیق سے متاثر ملکی دانشور دعوی کرتے ہیں کہ بانیِ پاکستان بھی عوام سے کٹے ہوئے تھے اور ان کا طرز حیات شاہانہ تھا۔وہ عوامی مسائل سے ناآشنا تھے۔یہ محمد علی جناح پہ الزام وتہمت ہے۔

جنھیں خود ہندوستانی مسلمانوں نے’’ قائداعظم‘‘ جیسا منفرد خطاب دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں کچھ حکمرانوں اور صوفی بزرگوں کو چھوڑ کر قائداعظم ہی مسلم عوام کے محبوب ومقبول رہنما گذرے ہیں،ایسے لیڈر جن کی دیانت و پختگی ِکردار کے غیرمسلم بھی قائل تھے۔درست کہ بظاہر قائد لیے دئیے رہنے والے اور سرد مزاج انسان تھے۔مگر بے پناہ کاموں نے انھیں اتنا زیادہ مصروف کر ڈالا تھا کہ وہ گپ شپ لگانے کے بھی روادار نہ تھے۔

پستی میں گرے مسلمانان ہند کی حالت زار بدلنے کے لیے دن رات سوچتے اور متفکر رہتے۔اس کیفیت نے حتی کہ ان کی ازدواجی زندگی پر بھی اثر ڈالا۔انھوں نے ذاتی زندگی برباد کر کے ہندوستانی ہم وطنوں کی زندگیاں بنا ڈالی اور طاقتور دشمنوں سے زبردست جنگ لڑ کر انھیں آزاد وطن کا بے مثال تحفہ دیا۔

حقیقی مومن

قائداعظم کا تعلق عام تاجر گھرانے سے تھا۔خوش قسمتی سے انھیں ممتاز تعلیمی اداروں میں تعلیم پانے کا موقع ملا جنھوں نے ان کی انفرادی صلاحیتیوں کو چمکا دیا۔پھر عملی زندگی کے آغاز میں قائد کو پورے تین سال تک ایک اجنبی شہر(بمبئی) میں غربت، بیروزگاری،کم مائیگی اور بے توقیری جیسے عفریتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔تین برس تک انھیں ایک کیس نہ ملا۔چھوٹے موٹے کام کر کے گذارا کرتے رہے۔اکثر اوقات کچہری پیدل جاتے کہ کرایہ بچا سکیں۔

کھانا نہ کھاتے کہ چند آنے بچ جائیں۔ غرض تین سال لشٹم پشٹم گذرے اور قائد کو غربت کے شدائد سے آشنا کرا گئے۔

بعد ازاں سیاسی رہنما بنے تو بذات خود غربت کا مزا چکھ لینے کے باعث عوامی مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔

اس تکلیف دہ دور میں قائد نے ہمت واستقامت سے کام لیا۔کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا اور ہمیشہ قانون قائدے کی پاسداری کی۔ ان کی شخصیت ایسے حقیقی مومن کے سانچے میں ڈھل گئی جو فی زمانہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

عہدے بے معنی

بانی ِپاکستان کی شخصیت وکردار کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ وی آئی پی کلچر کے بہت مخالف تھے۔خود کو ارضی خدا نہیں عام آدمی سمجھتے۔انھوں نے اہلیت، دیانت داری، قابلیت، ایمان داری ، پاس داری ِقانون وغیرہ جیسی خصوصیات کو ہمیشہ ترجیح دی اورکبھی ظاہری شخصیت یا عہدوں کو خاطر میں نہیں لائے۔

انھوں نے زندگی بھر کسی کو کبھی اس بنا پر اولیّت و اہمیت نہیں دی کہ وہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس یا وزیر وغیرہ ہے۔بہ حیثیت مسلمان وہ یقین رکھتے تھے کہ انسانوں کے مابین اولیّن معیار تقوی ہے اور پھر وہ اخلاقی و دنیاوی خصوصیات جن سے انسان دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔قائد کے کئی واقعات زندگی اس دعوی کی دلیل ہیں۔

برطانوی حکومت اور ہندوستانی رہنماؤں نے 1930ء تا 1932ء لندن میں تین راؤنڈ ٹیبل کانفرنسوں کا انعقاد کیا تاکہ ہندوستان کی مجوزہ آئینی اصلاحات پر غوروفکر کیا جا سکے۔ان میں برطانوی وزیراعظم، رامسے میکڈونلڈ بھی شریک تھا۔

وہ مشہور سیاست داں اور برطانیہ کی بڑی جماعت، لیبر پارٹی کے تین بانیوں میں سے ایک تھا۔قائداعظم سے اس کے دوستانہ تعلقات تھے۔پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران رامسے نے قائد کو ملاقات کے لیے بلایا۔پارسی رہنما اور قائد کے شناسا، کانجی دوارکاداس اپنی کتاب( INDIA’S FIGHT FOR FREEDOM 1913-1937) میں لکھتے ہیں:

’’دوران گفتگو برطانوی وزیراعظم نے کہا‘ہندوستان میں عنقریب آئینی تبدیلیاں آنی والی ہیں۔لہذا برطانوی حکومت ایسے باصلاحیت ہندوستانیوں کی تلاش میں ہے جنھیں صوبائی گورنر بنایا جا سکے۔‘‘

برطانوی وزیراعظم نے یہ بات اس مقصد سے کہی تھی کہ اگر قائد ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خصوصاً معاشی مفادات کو تحفظ دینے کی یقین دہانی کرا دیں تو وہ اس کی ’’گڈ بک‘‘میں آ جائیں گے۔اور تب انھیں صوبائی گورنر بھی بنا دیا جائے گا۔کانجی دوارکاداس کے علاوہ دیگر مورخین لکھتے ہیں کہ یہ سنتے ہی قائد ناراضی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

انھوں نے کہا ’’کیا آپ نے مجھے بکاؤ مال سمجھ رکھا ہیِ؟ کیا آپ مجھے رشوت دینا چاہتے ہیں؟‘‘یہ کہہ کر قائد دروازے کی سمت بڑھ گئے۔ حیران پریشان رامسے بھی اٹھ کر ان کی طرف بڑھا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ قائد نے مگر اس سے ہاتھ نہیں ملایا اور رخصت ہو گئے۔

1930 ء قائد ہندوستان کے نمایاں رہنما بن چکے تھے مگر انھیں عوام میں زبردست مقبولیت نہیں ملی تھی جیسی کئی سال بعد حاصل ہوئی۔تب تک وہ ہندو مسلم اتحادکی آواز بلند کر رہے تھے۔اگر انھیں دنیاوی عہدوں کی تمنا ہوتی تو یقیناً برطانوی وزیراعظم کی پیشکش قبول کر لیتے۔اس زمانے میں صوبائی گورنر کا عہدہ بہت اہم تھا۔

صوبے کا حقیقی حکمران وہی ہوتا۔مگر قائد نے انگریزوں کا ہرکارہ بن کر یہ عہدہ لینا گوارا نہیں کیا ۔یہ واقعہ اس الزام کی بھی نفی کرتا ہے کہ قائد انگریز کے پروردہ تھے۔انھوں نے برطانیہ میں تعلیم ضرور پائی اور مغربی آداب بھی سیکھ لیے مگر اپنی اسلامی و مشرقی خوبو بھی کبھی نہ بھولے۔

آج پاکستان کے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی رہنما میں اتنی اخلاقی جرات موجود ہے کہ وہ برطانیہ یا کسی بھی سپرپاور کے حاکم کی غلط بات پر قائداعظم کی طرح سخت اور منہ توڑ ردعمل کا مظاہرہ کر سکے؟

اس طبقے کے رہنماؤں کا تو اب یہ حال ہے کہ امریکی ڈالروں کے حصول کی خاطر کشکول اٹھائے بار بار آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے در پہ پہنچ جاتے ہیں۔غیرت و ضمیر کس چیز کا نام ہے، اس سے یہ ناآشنا ہو چکے۔

مقدمہ لے لو

ایک طرف قائداعظم اپنے وقت کی سب سے بڑی سپرپاور کے طاقتور وزیراعظم کو خاطر میں نہیں لائے تو دوسری سمت وہ عام آدمی پر شفقت فرماتے اور اس کی جائز ضروریات پوری کرتے۔بہ حیثیت وکیل قائد اپنے موکلوں سے پوری فیس لیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا حق ہے۔مگر جو موکل کسی حقیقی وجہ سے فیس ادا نہ کر پاتا، اس کا مقدمہ مفت بھی لڑ لیتے۔

1929ء کی بات ہے، ایک آدمی ان کے چیمبر میں آیا اور قائداعظم کے منشی سے ملا۔اس کی جائیداد پر کسی بااثر نے قبضہ کر لیا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ قائد اس کا مقدمہ لڑیں۔ منشی نے اس سے ضروری معلومات لے کر قائد سے بات کی۔

منشی: ایک شخص کیس لے کر آیا ہے۔مگر وہ فیس ادا نہیں کر سکتا۔

قائد: کیوں؟

منشی: بہت غریب ہے۔ ایک جائیداد ہی اس کا سہارا تھی جس پر قبضہ کر لیا گیا۔

قائد: کیا اس کا کیس ٹھیک ہے؟ کاغذات میں کوئی سقم تو نہیں؟

منشی: کیس درست ہے۔کاغذات بھی ٹھیک ہیں۔

قائد: اس کے پاس فیس نہیں تو کوئی بات نہیں، مقدمہ لے لو۔

منشی نے کیس لے لیا۔نچلی عدالت میں قائد کے دست راست نے سائل کا مقدمہ لڑا مگر فیصلہ اس کے خلاف ہوا۔قائد نے رائے دی کہ فیصلہ درست نہیں۔ انھوں نے پھر اس شخص کو مشورہ دیا کہ ہائی کورٹ میں اپیل کرو، تم جیت جاؤ گے۔مگر اس کے پاس تو کیس جمع کرانے کی فیس بھی نہیں تھی۔چناں چہ قائد نے سبھی مطلوبہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے اور اپیل دائر کر دی۔یہی نہیں ، انھوں نے عدالت میں ضرورت مند کی مفت پیروی کی۔اس بار فیصلہ سائل کے حق میں ہوا جیسا کہ قائد کا خیال تھا۔قائد نے اسے مبارک باد دی اور وہ اپنے محسن کا بہت شکرگذار ہوا۔

اس واقعہ سے پاکستان وکیلوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔یقیناً وطن عزیز میں ایسے انسان دوست وکیل موجود ہیں جو ضرورت مندوں کا مقدمہ مفت لڑتے ہیں۔مگر ایسے وکلا کی بھی کمی نہیں جن کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا ہے، چاہے وہ بے ایمانی ہی سے حاصل ہو۔لالچ و ہوس نے انھیں اس سچائی سے بے خبر کر دیا کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی۔

غیر اخلاقی و غیر قانونی طرز ِحیات

وی آئی پی کلچر محض ظاہری ٹیپ ٹاپ کا نام نہیں بلکہ اس عمل نے کئی برائیوں کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔مثلاً اس کے پیروکار خود کو قانون واصول سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔ان کی تمنا ہوتی ہے کہ دفاتر میں سب سے پہلے ان کا کام ہو، وہ قطار کی پروا نہیں کرتے۔حتی کہ بعض اوقات ایمان دار سپاہی کی تضحیک کر کے اپنی حیثیت کا اعلان کرتے ہیں۔

اپنے آرام وآسائش کے مصنوعی جال کو برقرار رکھنے کی خاطر ناجائز کام بھی کرتے ہیں۔رشتے داروں اور دوستوں کو غیر قانونی طریقوں سے نوازتے ہیں۔دولت جمع کرنے کے لیے ہر ممکن غلط طریقہ اپناتے ہیں۔عوام کے مسائل پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات پورے کرتے ہیں۔غرض وی آئی پی کلچر محض ایک عمل نہیں بلکہ خصوصاً پاکستان میں اس نے ایلیٹ یا طبقہ بالا کی سطح پرپورے غیر اخلاقی و غیر قانونی طرز ِحیات کو جنم دے ڈالا۔

مثلاً ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث جنم لینے والی مہنگائی کے بوجھ تلے عام آدمی پس رہا ہے۔اس کے لیے جسم و روح کے مابین رشتہ استوار رکھنا کٹھن مسئلہ بن چکا۔مگر کچھ عرصہ قبل پنجاب اسمبلی نے صوبائی وزرا کی تنخواہوں، الاؤنسوں اور مراعات میں اضافے کا بل منظور کر لیا۔(قائداعظم کے دور میں حکم تھا کہ ہر وزیر و افسر گھر سے چائے تک پی کر آئے)وفاق اور صوبوں میں لاتعداد محکمے اور ان کے سیکڑوں ادارے جنم لے چکے۔

ان اداروں کے نیچے بھی کئی ذیلی ادارے ہیں۔تقریباً ہر ادارے میں وی آئی پی کلچر کا بول بالا ہے۔اس سارے طلسم ہوش ربا کے اخراجات کا بوجھ پاکستانی عوام ٹیکس ادا کر کے اٹھا رہے ہیں۔ لیکن بدلے میں انھیں کیا ملتا ہے؟بد انتظامی (بیڈ گورنس)،غربت، بیماری، جہالت، بیروزگاری، بھوک، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،سرخ فیتہ اور رشوت ستانی وغیرہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک وقوم کو بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبانے میں وی آئی پی کلچر کا اہم حصہ ہے کیونکہ اسے برقرار رکھنے کی خاطر ہر سال اربوں نہیں کھربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔درست کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے پاکستان میں اس کلچر کو ضعف پہنچا ہے۔اب ایلیٹ طبقے کے افراد سخت عوامی ردعمل سے خوف کھا کر کھلے عام یہ کلچر اپناتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

سرکاری ایوانوں سے آتی ہوا میں مگر اب بھی کرپشن اور غرور وتکبر کی بدبو محسوس ہوتی ہے۔نیز روزمرہ زندگی میں طاقتورو بااثر کو ترجیع دی جاتی ہے۔میرٹ کم ہی کارفرما ہوتا ہے۔

افسوس کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کی طرح دق وسل میں مبتلا قائداعظم کو موقع نہیں ملا کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیتے۔پھر بھی پاکستان کا حاکم بن کر وہ عوام وخواص کو بتاتے رہے کہ قانون کی پاس داری کرو، نیکی اور بدی کے مابین تمیز کرنا سیکھو اور اپنا اخلاقی کردار مضبوط بناؤ۔ مقصد یہی تھا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ذاتی مفادات کی تکمیل نہ کرے بلکہ عوام کی بھلائی کے کام اپنائے۔اور پاکستان کو خوشحال وترقی یافتہ مملکت میں ڈھال دے۔

کردار بننے میں سو سال

این ایم کوتوال بمبئی کے ممتاز وکیل تھے۔قائداعظم نے پاکستان بننے سے کچھ عرصہ قبل انھیں اپنا قانونی مشیر مقرر کیا۔وہ پارسی تھے مگر قائد کو ان کی دیانت و قابلیت پہ بڑا اعتماد تھا۔پاکستان بننے کے بعد ایک دفعہ کوتوال کسی کام سے قائد سے ملنے کراچی آئے۔دوران گفتگو قومی کردار کا موضوع آ گیا۔

قائد نے کہا: ’’مسلمان جن برائیوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں، ان میں سے بیشتر کردار کمزور ہونے سے پیدا ہوئی ہیں۔‘‘

کوتوال: میرا خیال ہے، کردار ٹھیک ہونے میں پچیس سال لگیں گے۔

قائد: نہیں، سو سال۔

درج بالا واقعے سے عیاں ہے، بانی پاکستان کا خیال تھا کہ اگلے ایک سو برس میں پاکستانی قوم کا کردار مضبوط وتوانا ہو جائے گا۔2047ء آنے میں پچیس برس رہ گئے ہیں۔کیا اس عرصے میں قائد کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟کیا پاکستانی بہ حیثیت قوم اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا سیکھ لیں گے جس سے کہ تقوی جنم لیتا ہے؟خیر سے آج وطن عزیز میں چپے چپے پر مساجد بنی ہیں۔

مذہبی رہنماؤں کے وعظ کی کمی نہیں۔اسلامی تعلیمات کا میڈیا بھر میں چرچاہے۔پھر بھی یہ تک سننے کو ملتا ہے کہ جو خود کو جتنا حاجی کہلائے، وہ اتنا ہی بڑا چور ہے۔چور سے مراد کرپٹ، لالچی اور بے ایمان آدمی! یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ عوام وخواص میں روپے پیسے سے الفت اور خواہش پرستی ماضی کے مقابلے میں کافی بڑھی ہے۔حالانکہ نظیر اکبر آبادی دنیا کی واحد سچائی، موت کی برتری کچھ یوں واضح کر چکے:

یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل

اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا ،موقوف ہوا جب ان اور جل

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

نوبت، نقارے، بان نشان، دولت حشمت، فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ،ملک مکاں ،کیا چوکی کرسی، تخت چھتر

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے، ان گونوں بھاری بھاری کے

جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے

کیا سخت مکاں بنواتا ہے، خم تیرے تن کا ہے پولا

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں، تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیر، اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کراچی میں پریکٹس نہ کرو

اقربا پروری بھی وی آئی پی کلچر کا حصہ ہے کیونکہ طاقتور خود کو قانون سے ماورا سمجھ کر اپنوں کو نوازنا حق سمجھتا ہے۔قائداعظم اسی لیے اقربا پروری اور سفارش کے سخت خلاف تھے۔محض زبانی کلامی نہیں بلکہ اپنے عمل سے کئی بار انھوں نے اس کا ثبوت بھی دیا۔قائداعظم کی بہن، شیریں جناح کے صاحب زادے، اکبر علی پیر بھائی بمبئی میں وکالت کرتے تھے۔

فاطمہ جناح کے بعد قائد اپنی اسی بہن کے قریب تھے۔جب فاطمہ جناح دندان سازی کی تعلیم پا رہی تھیں، تو شیریں صاحبہ ہی قائد کے ساتھ قیام پذیر رہی تھیں۔قائد ان کے بیٹے کو پیار سے ’’لٹل اکبر‘‘کہا کرتے۔پاکستان بننے کے بعد اکبر کراچی تشریف لائے ، ماموں سے ملے اور انھیں بتایا کہ اب وہ یہیں رہنا چاہتے ہیں۔

قائد: تم اہلیت رکھتے ہو۔ضرورت مند بھی ہو۔مگر میرے رشتے دار ہونے کی وجہ سے تمھیں کوئی سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی۔

اکبر پیر بھائی: آپ کو غلط فہمی ہوئی۔میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں لینا چاہتا۔میں آپ سے الگ تھلگ رہ کر وکالت کروں گا۔

قائد: مجھے معلوم ہے کہ تم اچھے وکیل ہو۔لیکن میری وجہ سے عدالتیں تمھاری بے جا طرف داری کر سکتی ہیں۔لہذا میں تمھیں کراچی میں وکالت نہ کرنے کا مشورہ دوں گا۔

چناں چہ اکبر پیر بھائی واپس بمبئی چلے گئے۔وہاں وہ اچھے وکیل بن کر ابھرے اور وکالت میں عزت و شہرت پائی۔

میں قوم پر بوجھ نہیں بننا چاہتا

مارچ 1941ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے طلبہ نے ایک خصوصی پاکستان کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں قائداعظم بھی شریک ہوئے۔انھوں نے قائد کو اپنے مہمان کے طور پر فلٹیز ہوٹل میں ٹھہرایا۔کانفرنس کامیاب رہی اور نظریہ پاکستان کی خوب تشہیر ہوئی۔

کانفرنس ختم ہوئی تو طلبہ کا ایک وفد ہوٹل پہنچا تاکہ قائد کے قیام کا بل ادا کر سکے۔ہوٹل مینجر نے بتایا کہ بل تو قائداعظم ادا کر چکے۔اس پر طلبہ کو حیرانی و پریشانی ہوئی۔وہ قائد کے پاس پہنچے اور کہا:’’آپ نے ہوٹل کا بل کیوں ادا کر دیا؟ہم میزبان ہیں، ہمیں ادائیگی کرنا چاہیے تھی۔‘‘

قائدنے فرمایا’’میں ایسا سیاست داں نہیں کہ قوم پر بوجھ بن جاؤں۔میں اپنے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتا ہوں۔‘‘

طلبہ کے وفدمیں بعد کو جسٹس بننے والے ذکی الدین پال بھی شامل تھے۔وہ کہتے ہیں:’’قائداعظم نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں قومی وسائل سے کبھی جائز فائدہ بھی نہیں اٹھایا۔ بلکہ وہ سیاست میں اسی وقت آئے جب اپنی معاشی حالت مستحکم کر چکے تھے۔‘‘

یہ واقعات بانی ِپاکستان کی اصول پسندی اور ناقابل فراموش کردار کے آئینہ دار ہیں جو غیر اخلاقی چلن ملیامیٹ کر ڈالتے ہیں۔قائداعظم کے دو بھائی اور چار بہنیں تھیں۔جب وہ گورنر جنرل پاکستان بن گئے تو حقیقتاً دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت میں سیاہ وسفید کے مالک تھے۔

وہ معمولی سا اشارہ بھی کرتے تو ان کے قریبی عزیزوں کو اعلی سرکاری عہدے مل جاتے۔قیمتی متروکہ جائدادیں ان کے حصّے میں آتیں۔کاروبار کے لیے پرمٹ مل جاتے۔مگر ہم نے دیکھا کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔قائد نے بطور گورنر جنرل اپنی طاقتورپوزیشن سے رتی بھر فائدہ نہیں اٹھایا۔کسی قریبی عزیز کو بھی معمولی سا فائدہ دے کر کرپشن میں ملوث نہ ہوئے۔ایک حقیقی مومن کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے…ایمان دار، حق گو اور قانون پسند!

بڑائی کا اظہار نہیں

قائداعظم اپنے مختصر دورحکومت میں وی پی آئی کلچر کے خلاف بھی سرگرم رہے۔25 اکتوبر 1947ء کے دن عیدالضحی تھی۔قائد کو عیدگاہ (واقع بندر روڈ، کراچی)پہنچنے میں دیر ہو گئی۔اب آپ گورنر جنرل بن چکے تھے۔ساتھ آئے کسی پولیس افسر نے چاہا کہ پہلی صف تک جانے کے لیے راستہ بنائے مگر قائد نے منع کر دیا۔کہنے لگے:’’نہیں، میں آخر میں آیا ہوں۔اس لیے پیچھے بیٹھوں گا۔‘‘

قائداعظم اپنی خودنمائی و بڑائی کا اظہار نہیں چاہتے تھے۔غروروتکبران کی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا۔اس معاملے میں احکام الہی کے فرماں بردار اور رحمت للعالمین ﷺ کے سچے پیروکار تھے۔انھوں نے اپنی ذہانت ومحنت سے مقدمات جیت کر لاکھوں روپے کمائے۔وہ صرف اپنی کمائی کے بل بوتے پر پُرآسائش زندگی گذارنا چاہتے تھے۔

پھر بھی کئی واقعات شاہد ہیں کہ وہ ایک پائی بھی سوچ سمجھ کر استعمال کرتے۔انھوں نے خواہشات کی پیروی نہیں کی اور زندگی کو ضروریات تک محدود رکھا۔ان کی سیکورٹی بھی بہت محدود تھی حالانکہ قائد پہ قاتلانہ حملہ ہو چکا تھا۔آج تو صرفوزیر مشیر کی محض سیکورٹی پر قومی خزانے سے سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

میں نے ہی قانون پہ عمل نہیں کیا تو…

قائداعظم کی قدرتاً تمنا تھی کہ حکمران طبقے بھی قانون پہ عمل کریں اور خود کو عوام سے برتر نہ سمجھیں۔1 جولائی 1948ء کو قائد اسٹیٹ بینک پاکستان کا افتتاح کرنے تشریف لائے۔وہ عین وقت پر پہنچے تھے۔دیکھا کہ پہلی صف میں کچھ کرسیاں خالی پڑی ہیں۔

استسفار پر پتا چلا کہ کچھ وزیر ابھی تک نہیں آئے جن میں وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔قائد نے حکم دیا کہ تمام خالی کرسیاں ہٹا دی جائیں۔اور پھر تقریب کا آغاز ہو گیا۔کچھ دیر بعد وزیراعظم اور دیگر غیر حاضر وزرا آ پہنچے۔انھوں نے کھڑے ہو کر ہی تقریب کی ساری کارروائی دیکھی اور سنی۔کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ انھیں کرسی فراہم کر دیتا۔یوں قائد نے وزرا اور سرکاری افسروں پہ اجاگر کر دیا کہ انھیں پابندی وقت کے اصول کی پاسداری کرنی چاہیے۔

وی آئی کلچر کی بیخ کنی کرنے والا قائد کا ایک اور واقعہ بہت مشہور ہے۔ان کے ذاتی معتمد، کیپٹن گل حسن راوی ہیں کہ قائداعظم بطور گورنر جنرل ایک دن سیروتفریح کرنے گاڑی میں کراچی سے باہر تشریف لے گئے۔جب واپس آ رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے لائن پر پھاٹک بند پایا۔گل حسن نے پھاٹک کے چوکیدار سے کہا کہ ریل آنے میں دیر ہے۔

لہذا پھاٹک کھول دو تاکہ گورنر جنرل کی گاڑی گذر سکے۔قائد نے مگر منع کر دیا اور کہا:’’اگر میں نے ہی قانون پہ عمل نہیں کیا تو پھر کوئی بھی نہیں کرے گا؟‘‘ چناں چہ ریل گذرنے کے بعد ہی گورنر جنرل کی گاڑی آگے روانہ ہوئی۔آج پاکستان میں یہ حال ہے کہ بعض اوقات کسی بااثر کے باعث ہوائی جہاز تک مقررہ وقت پر روانہ نہیں ہو پاتے۔کیسی بلندی کیسی پستی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔