سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 25 دسمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’کتب میلہ‘ اور جگہ کی تنگی کی شکایات!

خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

شہرِ قائد میں آٹھ تا 12 دسمبر 2022ء سترھویں عالمی کتب میلے کا انعقاد ہوا۔ کراچی ایکسپوسینٹر کے اس میلے میں تین وسیع وعریض ہال کتابوں کے لیے مختص کیے گئے تھے۔

جہاں سب ناشرین کو یک ساں طرز کے اسٹال مختلف نمبروں کے ساتھ تفویض کیے گئے، جن پر ایک جیسے طریقے سے اسٹال کے نام لکھے گئے تھے، جس سے مطلوبہ اسٹال تلاش کرنے میں کافی زحمت ہو رہی تھی، اسٹالوں تک رسائی کے لیے ان کے نمبر ہی واحد وسیلہ تھے۔ مختلف ناشرین نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ایک، دو سے لے کر درجن بھر تک اسٹال مختص کرائے ہوئے تھے۔

پھر کہیں کسی صاحب ثروت کے بنگلے کی طرح بعضے ’شاہانہ گھیرے دار‘ اسٹال الگ سے نمایاں ہو رہے تھے، انھوں نے چوکور شکل میں کئی اسٹال ضم کر کے اسے ایک باقاعدہ دکان کی سی شکل دے دی تھی، جہاں ان کی ڈھیروں کتب سجائی گئی تھیں۔

اس کتب میلے میں بہت بڑے پیمانے پر مذہبی مواد شایع کرنے والے ناشرین اور غیرسرکاری تنظیمیں بھی دکھائی دے رہی تھیں، جن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے اسٹال پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا تشہیری پینا فلیکس بھی آویزاں تھا، اس کے ساتھ جماعت اسلامی کے شعبۂ خواتین اور بچوں اور طلبہ کے لیے بھی الگ الگ اسٹال دکھائی دے رہے تھے۔

اس کے ساتھ کہیں ڈاکٹر اسرار احمد، کہیں مولانا وحید الدین خان، کہیں علامہ طاہر القادری تو کہیں ڈاکٹر فرحت ہاشمی تو کہیں اور دیگر مذہبی مبلغین کے اسٹال نمایاں تھے، ساتھ ہی مذہبی کتب اور کلام پاک کے نسخوں کے روایتی ناشرین کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی درجنوں غیر سرکاری مذہبی تنظیموں نے بھی باقاعدہ اپنے اسٹالوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔

اس کے علاوہ بچوں کے مختلف تعلیمی اسٹال بھی توجہ کا مرکز رہے، جن میں تعلیمی سرگرمیوں کے رنگا رنگ کارڈ، نمونے اور دیدہ زیب بورڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں اسکول کے یونیفارم میں ملبوس مختلف اسکولوں اور دینی مدارس کے بچے بھی لائے گئے تھے۔ بہت سے بچے کتب سے رغبت دکھانے سے زیادہ اسے تفریحی مقام سمجھ کر بھاگ دوڑ اور کھیل کود کر رہے تھے۔

کتب میلے میں مختلف ناشرین کے اسٹال کے ساتھ ساتھ یہاں بہت سی معروف شخصیات کی آمدورفت کی خبریں بھی آتی رہیں، البتہ کتب میلے کے آخری روز ہماری ملاقات ڈاکٹر معین الدین عقیل سے ہوئی۔ اس کے علاوہ ماہ نامہ ’اطراف‘ کے گوشے میں اس کے مدیر محمود شام اور خان ظفر افغانی بھی موجود تھے، آرٹس کونسل اور ’انجمن ترقی اردو‘ کے اسٹال پر ڈاکٹر فاطمہ حسن بہ نفس نفیس شائقین کتب کی تشفی کر رہی تھیں۔

کتابوں کے شوقین افراد کے لیے ایک چھت کے نیچے واقعی یہ ایک دل فریب منظر تھا، جہاں کتابوں کی گویا ’جنت ارضی‘ ہر طرح کے ذوق کے لوگوں کے لیے مختلف کتب سمیٹے ہوئی تھی، جو انھیں اپنی جانب کھینچ رہی تھیں، پھر بہت سی نئی کتب پر50  فی صد رعایت اس پر مستزاد تھی۔ لیکن امر واقع یہ تھا کہ کتابوں کی قیمتیں بھی اب ہزار سے اوپر ہونا معمولی بات ہو چکی ہے۔

اس لیے آدھی قیمت پر بھی اگر کسی کتاب کو اٹھاکر دیکھیے، تو اس کی قیمت بھی پانچ، چھے سو سے لے کر ایک، ایک ہزار کے قریب ہونا معمولی بات ہے۔۔۔ حال ہی میں شایع ہونے والی کتب پر رعایت زیادہ تر 25 فی صد ہی کے قریب تھی۔

ایسے میں ’سندھ ٹیکسٹ بک‘ کے اسٹال سے نتھی ایک اسٹال ’اردو اکادمی‘ کا بھی تھا، جس میں بہت سی نایاب اور بہت پرانی پرانی کتب دکھائی دے رہی تھیں، وہاں ایک چھوٹے سائز کی ترجمہ کی گئی کتاب ’جمہوریت اور صحافت‘ دکھائی دی۔

نہایت زرد کاغذ کی کتاب پر 100 روپے کی چِٹ چسپاں تھی، جو ہمیں 50 روپے میں مل گئی، لیکن گھر آکر نرخ کا اسٹیکر اتارا، تو اصل قیمت ایک روپیا پچھتر پیسے درج تھی۔۔۔! 1960ء کی دہائی کی شایع شدہ یہ کتاب کیوں کر نصف صدی تک کہیں بند پڑی رہی اور آج فروخت ہونے کے لیے باہر آسکی؟ یہ خود ایک الگ سوال ہے۔

اس کتب میلے میں ہماری ملاقات معروف ناشر ’فضلی بُکس‘ کے ساجد فضلی سے بھی ہوئی، انھوں نے بتایا کہ یہاں پہلے تین دن بے پناہ رش رہا۔

حسن اسکوائر کی زیرتعمیر سڑک کی وجہ سے بھی لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات پیش آئیں، خود ہم بھی یہاں آتے ہوئے بہت دیر ٹریفک جام میں پھنستے رہے، یقیناً آنے والے بھی اس کوفت سے دوچار ہوئے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں کتابوں سے دل چسپی رکھنے والے لوگ بہت بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ اگر یہاں آنے والوں کے کوائف اور رجحانات کے اعدادوشمار حاصل ہوجاتے، جس میں قاری کے نام، عمر، فون نمبر اور مطالعے کے رجحان کا کچھ پتا چلتا، تو ہم ناشرین کو اشاعت کتب کے حوالے سے کافی مدد مل جاتی۔

وہ کہتے ہیں کہ کتب بینی کے فروغ کے لیے یہ کتب میلے اس قدر مفید ہیں کہ اگر سال میں چار مرتبہ منعقد ہو جائیں، تو باقی سال کتب فروخت کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ ہم نے کہا کہ کیا پھر دکان سمیٹ دیں گے؟ تو انھوں نے کہا کہ اب تو ویسے بھی بہت سا کام ’آن لائن‘ ہوگیا ہے۔ اردو بازار پہلے کی طرح مرکز نہیں رہا، کیوں کہ وہ جگہ اب اتنی تنگ ہوگئی ہے، کہ وہاں آنے کے بہ جائے کتاب کے شائق اپنی کتابیں ’پارسل‘ کروا لیتے ہیں۔

’ایکسپو سینٹر‘ کے علاوہ کسی موقع پر ہفتہ اور اتوار شاہ راہ لیاقت اور ایم اے جناح روڈ کے درمیان اردو بازار میں بھی کتب میلے کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے، جس کے لیے پارکنگ ’ویمن کالج‘ میں کی جا سکتی ہے۔

ساجد فضلی کہتے ہیں کہ ایکسپو سینٹر کے کتب میلے میں جگہ تنگ ہونے کے سبب بھی بڑی مشکل پیش آئی، جب تل دھرنے کی جگہ نہ ہو تو کتاب لینے والا ڈھنگ سے توجہ دے پاتا ہے اور نہ ہی خریداری کر پاتا ہے۔ اس مسئلے کو بھی حل ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ اگر کتب میلے کے تینوں ہال کی درجہ بندی کر دی جائے، تو یہ امر بھی ہمارے اور شہریوں کے لیے بڑی سہولت کا باعث ہوگا، جیسے نصابی کتب، ’این جی اوز‘ کی کتب اور عام کتب کو الگ الگ ہال دے دیے جائیں۔ اس سے کتب بینوں کا وقت بھی بچے گا اور وہ بہت آسانی سے اپنی من پسند کتب حاصل کر سکیں گے۔

یہاں دوسرے شہروں کے ناشرین بہت بڑے پیمانے پر کتب لائے ہیں، یہاں پر ان سے کتب لینے سے اضافی رعایت بھی مل رہی ہے اور ساتھ ساتھ ڈاک خرچ بھی بچ رہا ہے۔ ’اٹلانٹس‘ بپلی کیشنز کے روح و رواں فاروق احمد نے کتب میلے کو پچھلے برس جیسا قرار دیا اور ملک کے خراب معاشی حالات میں کتابوں کی فروخت کا مستحکم رہنا کسی بھی طور بری نہیں کہی جا سکتی۔

۔۔۔

بدلتے موسم بدلتے مزاج

سائحہ رشدا (پشاور)

یوں تو دنیا میں الگ الگ فطرت کے مالک لوگ پائے جاتے ہیں، جن میں بہت سے لوگ بارش کے عاشق ہوتے ہیں، کم ہی ایسے ہوتے ہیں، جنھیں بادلوں سے آتا ہوا پانی جو ہر چیز کو بھگو کے رکھ دیتا ہے، ناپسند ہو۔

فطرت کی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جس نے انسان پر عجب سحر کرتے ہوئے اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے، جس میں ایک بارش کا نزول بھی ہے، میں نے اکثر دیکھا ہے، جب اداس دل لیے آپ تاریک سنسان اور خاموش رات میں بارش میں بھیگ رہے ہوتے ہیں، تو آپ کو اکیلا پن محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک ان جان شخص بڑی شناسائی سے آپ سے رازونیاز میں محو کلام ہوتا ہے۔

خاموشی کی زبان میں سوال جواب کا تبادلہ ہوتا ہے اور یوں آپ کو دل کی بات کرنے کا موقع ملتا ہے، مسائل کا حل ملتا ہے اور کسی حد تک ذہنی سکون بھی۔ وہ شخص کون ہوتا ہے؟ وہ دراصل آپ کے اندر کا انسان ہے، جو آپ کو ہدایات دیتا ہے۔

آپ کا دکھ درد اور خوشی کو محسوس کرنے والا جسے آپ سے بے پناہ پیار ہوتا ہے، اور آپ کی تکلیف میں بے چین رہتا ہے۔

یہ کیفیت صرف رات کو ہی نہیں، دن میں بھی ہوتی ہے، جب ہر چیز صاف اور نکھری ہوئی نظر آتی ہے، تب بادلوں سے برستا پانی چہرے پر گرتے آنسوؤں کا رفیق بن جاتا ہے، جب آپ مغموم دل لیے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور آنکھوں سے نکلتے بے قرار پانی کو چھپانے کی مکمل سعی کرتے ہیں، تو یہ بارش آپ کا ہمدرد بنتے ہوئے خاموش زبان سے یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اپنے آنسوؤں کو اندر نہ رہنے دو، بلکہ اسے کھل کو گرنے دو تیز آواز سے چیخنا چاہتے ہو تو میری طرح پوری قوت سے اپنی خواہش پوری کرو جیسے میں رم جھم برستا ہوں تاکہ دل میں کوئی حسرت کوئی خلش باقی نہ رہے۔

بارش کا پانی اوپر سے گرتا یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اگر ضرورت ہم سفر یا کسی بھی متعلقہ شخص کے سامنے آنسو بہانے سے ہو تو خواہ مخواہ رات کے تیسرے پہر تک تکیہ نہ بھگو، بلکہ کھل کر اظہار اور احتجاج کرو۔

فطرت کی ہر چیز ہمارے مسائل کا حل ہے، خواہ وہ بارش ہو، پہاڑوں کی دنیا ہو، سبزہ زار اور آب شاروں کی جانب سفر ہو، یا خود سے یعنی اپنی ضمیر سے ملاقات ہو، لیکن اگر ہم اس پر غور کریں۔ فطری پریشانیوں کو فطرت ہی میں تلاش کرنا چاہیے، کیوں کہ اس کا جواب فطرت ہی میں چھپا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اگر خوشی کا موقع ہو تو اطراف میں چلتی یہ ٹھنڈی ہوائیں اور بارش کا پانی آپ کو مزید فرحت دیتا ہے، یہ روح افزا اور دل کو بھانے والی ہوا آپکی رگوں میں سرایت کر جاتی ہے اور جنون اور بڑھنے لگتا ہے۔ خوشی کا احساس دگنا ہوتا ہے جسکے آثار چہرے پر مزید نمایاں اور گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

جب موسم بدل جائے تو جاڑوں میں یہ رُت صبح کی چمکیلی دھوپ میں اور دوپہر کی اجلی سورج کی روشنی میں بھی پیدا ہوجاتی ہے، جب ٹھٹھرتے وجود کو سورج کی گویا آغوش سی میسر آجائے تو یوں لگتا ہے کہ فطرت اپنے آپ ساری الجھنیں سلجھا رہی ہو۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
رضوان طاہر مبین
میرا دیس

ہم دونوں ہم جماعت رہے۔
ہمارے درمیان واحد مماثلت یہ تھی کہ میں اکثر ابتدائی 10، جب کہ وہ آخری 10 پوزیشنوں میں آتا۔
اساتذہ کہتے تھے کہ ترقی کرنی ہے تو خوب پڑھو!
وہ آٹھویں تک اور میں سولہویں تک پڑھا۔۔۔
ایک دن ’ہائی کورٹ‘ میں ملا۔
بتایا فلاں جماعت کے دَم پر وہ یہاں سرکاری ملازم ہے۔
’’میں چار برس سے ایک ملازمت کے لیے انصاف کا منتظر ہوں۔‘‘ میں نے بتایا۔
اس نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘
’’میں کبھی کسی سیاسی جماعت کا کاسہ لیس نہیں بن سکا۔۔۔!‘‘
میں نے جواب دیا۔

۔۔۔

روزِحساب
ایئرمارشل (ر) اصغر خان

ہندوستانی افواج جونہی ڈھاکا کے قریب پہنچیں، یحییٰخان نے ذوالفقار بھٹو کو وزیرخارجہ بناکر نیویارک بھیج دیا، تاکہ پاک بھارت، جھگڑے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں۔

وہ 6 دسمبر1971ء کو وہاں پہنچے، اقوام متحدہ کے تمام ارکان فوری جنگ بندی پر متفق تھے۔ سقوط ڈھاکا سے پہلے اس سنگین صورت حال کا ایک حل موجود تھا کہ بھارت کو فائربندی پر مجبور کر کے کم از کم پاکستانی فوج، سول ملازمین اور ان کے خاندانوں کو مشرقی پاکستان سے نکال لیا جاتا۔ 10دسمبر کو روس کی حمایت سے پولینڈ نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جس سے چھے دن بعد پاکستانی افواج کی ہتھیار ڈالنے کی کارروائی کو روکا جا سکتا تھا۔

تاہم جب سلامتی کونسل اپنے اجلاس میں پاکستانی وزیرخارجہ کی شرکت کا انتظار کررہی تھی، تو معلوم ہوا کہ بھٹو نیویارک کے ایک ہوٹل میں بیمار پڑے ہیں اور عین اس وقت جب ہندوستانی افواج ڈھاکا میں داخل ہوگئیں اور ان کا قبضہ واضح نظر آنے لگا تو 15دسمبر کو وہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے قابل ہوگئے۔

اس وقت تک انتہائی اہم لمحے ضائع ہوچکے تھے، لیکن اس وقت بھی فوج کو ذلت آمیز شکست سے بچایا جا سکتا تھا جس کا سامنا اسے بعد میں کرنا پڑا۔ بھٹو نے وہاں سیاسی تدبر کے بہ جائے اپنے زورخطابت کو اہمیت دی، جو موچی دروازے جیسے جلسے میں تو موزوں ہو سکتا تھا، لیکن سلامتی کونسل کے اجلاس کے لیے یہ تقریر نہایت نامناسب تھی۔

انھوں نے فائربندی کی پولینڈ کی قرارداد کو مسترد کردیا۔ ان کے اس رویے سے ہمارے سیاسی حالات پر بڑے گھنائونے اثرات مرتب ہوئے، لیکن یہاں عوام کے ایک بڑے حصے نے اس اقدام کو بہت سراہا۔ قوم کو پہلے ہی انتہائی بھونڈے طریقے سے غلط راہ پر چلایا گیا تھا، اب سوچنے سمجھنے کی حس اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ پاکستان کے وزیرخارجہ کے اس رویے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا۔

اس سے اگلے روز سقوط ڈھاکا ہوگیا۔ ڈھاکا ریس کورس گرائونڈ میں ہتھیار ڈالنے کی شرم ناک تقریب کو پوری دنیا نے دیکھا۔

(کتاب ’’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘ سے ماخوذ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔