صحافت کا مردِ قلندر

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 22 دسمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

پاکستان میں صحافت ہمیشہ سے ہی ایک کٹھن پیشہ رہا ہے، پاکستان کی صحافتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہزاروں لوگ اس شعبے سے وابستہ رہے۔ بہت نیچے سے آکر نام کمانے والے بھی ملیں گے اور بہت مال بنانے والے بھی۔ مال بنانے والوں نے صحافت کو ہمیشہ ایک پیشہ سمجھا اور پیشے میں نام کے بجائے ساری توجہ مال بنانے پر دی۔

اس شعبے میں ہمیں ایسے صحافی بھی ملیں گے جنھوں نے صحافت کو پیشہ نہیں بنایا بلکہ اسے عبادت سمجھ کر اپنایا۔ ان کی نظریں کبھی مال بنانے کی طرف نہیں گئیں، اسی لیے انعام کے طور پر اللہ نے ان کا نام اونچا کردیا۔ اس شعبے میں اگرچہ ایسے صحافیوں کی تعداد کم ہے۔

مگر اس فہرست میں میرے خیال میں سر فہرست ہمارے ساتھی، دوست اور مجھے اپنے سگے بھائی ڈاکٹر انعام کی طرح عزیز سہیل قلندر کا نام بھی ہے۔

جی ہاں میرے ہی ادارے روزنامہ ایکسپریس پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سہیل قلندر، جو میری نظر میں صحافت کا قلندر تھا اور سچ پوچھیں تو دوسرا مرد قلندر ڈھونڈنے میں آدھی زندگی صرف ہوگئی مگر ابھی تک وہ نہیں ملا جو میری زندگی میں اس خلا کو پر کرے جو سہیل قلندر چھوڑ کر گئے۔

سہیل قلندر سے میرا تعلق زمانہ طالبعلمی سے تھا جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے متحرک طلباء سیاست کر رہے تھے۔

شکر الحمدللہ، اللہ رب العزت نے مجھے بہت مخلص اور عزت دار دوستوں سے نوازا اور سب میری دوستی کے سمندر کے موتی ہیں، ہر ایک دوسرے سے خوبصورت اور دل نشین مگر ہر ایک کسی نہ کسی صفت میں سب سے ممتاز ہوتا ہے اورمیں سہیل قلندر کے بارے میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے دوستوں میں سہیل قلندر جیسا نڈر، مردم شناس اور نفع و نقصان کا سوچے بغیر دوستوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونے میں بے مثل تھا۔

اس کا تعلق صرف دوست کے حد تک محدود نہیں رہتا تھا وہ پورے خاندان کا دوست بلکہ فرد بن جاتا تھا، سہیل قلندر میرے دوست تھے مگر بعض اوقات مجھے لگتا تھا کہ وہ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر انعام کے دوست ہیں اور مجھے ان کی نسبت سے جانتے ہیں، اپنے پیرو مرشد باباجان رحمہ اللہ کے ساتھ سہیل قلندر کی تعظیم و احترام کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں اور گفتگو کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ وہ باباجان رحمہ اللہ کے مرید خاص ہیں اور مجھے اپنے مرشد کا بیٹا سمجھ کر عزت و احترام کرتے ہیں۔

سہیل قلندر لباس، بناوٹی اور ریا کاری کے تعلق سے پاک قلبی تعلق کا علمبردار تھا وہ دوستی کرتا تھا یا نہیں، درمیان والی کہانی پر ان کا یقین نہیں تھا۔ ایسا بندہ ناراض بھی بہت جلد ہوتا ہے کیونکہ وہ سب کو اپنے پیمانے پر ناپتا ہے جس کی وجہ سے اکثر مایوسی ہوتی تھی اور اگر قریبی لوگوں میں کوئی منفی ذہنیت کا حامل موجود ہو اور اس کو اس احساس کی بھنک پڑھ جائے تو پھر وہ اپنی مکروہ عادت سے مجبور ہو کر دوستی برباد کرنے کے لیے، غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اور سہیل قلندر کے ساتھ میرے معاملے میں بھی یہی ہوا۔

ایک ادارے میں رہتے ہوئے مینجمنٹ کے بندے کے ساتھ قلبی تعلق رکھنا سہیل قلندر جیسا قلندر ہی کر سکتا تھا، مگر جب میں 500 کلومیٹر دور اور دوسرا بغل میں ہو تو غلط فہمیوں کی بنیاد پر دوریاں پیدا ہونا آسان کام ہوتا ہے۔

اور جب ایک کنارے پر سہیل قلندر اور دوسرے کنارے پر اشفاق اللہ خان کھڑا ہوا تو یہ ندی سمندر بن کر درمیان میں حائل ہوجاتی ہے، 2013 میں پہلی بار اللہ رب العزت نے اپنے گھر اور نبی رحمتﷺ کے در پر بلایا تو اسکول، کالج ، یونیورسٹی، دفتر، خاندان، سیاسی اور غیر سیاسی دوستوں سے رابطہ کیا مگر نہیں کیا تو صرف سہیل قلندر سے کیوں کہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتا تھا کیونکہ سہیل قلندر غلطی پر تھے اور میں سہیل قلندر کو گنوانا نہیں چاہتا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے ان کو احساس دلایا کہ ناراضگی میری بنتی ہے آپ کی نہیں، میرا، یقین تھا کہ حج سے واپسی پر میری اور سہیل قلندر کی ملاقات بہت جذباتی ہوگی اور ہم ایک دوسرے کے گلے لگ کر روئیں گے مگر میری بدقسمتی کہ میرے حج سے واپسی سے پہلے سہیل قلندر ہم سے بچھڑ گئے۔

13 دسمبر 2013 کا دن تھا جب ہم حرم پاک سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ سہیل قلندر کی ناگہانی موت کی خبر ملی ‘اس وقت ان کی عمر صرف چالیس برس تھی۔

دوران حج ہر موقع پر دعاؤں میں تو وہ مکمل یاد رہے اور ناراضگی کے باوجود وہ میری دعاؤں سے اپنا حصہ لیتے رہے مگر وفات کے بعد ان کے لیے دعاؤں کے ساتھ بے اختیار ندامت کے آنسو کے نذرانے بھی پیش ہوتے رہے، سہیل قلندر کی رحلت کے بعد میری دنیا تو نہیں اجڑی مگر میرے لیے پشاور کا اپنا دفتر ایسا اجڑا کہ دفتر جانے اور وہاں بیٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔

سہیل قلندر کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی نوشیروان قلندر ملے تو بہت روئے اور بہت رلایا جب اس نے کہا کہ ” اشفاق بھائی، سہیل نے اپنی وفات سے چند دن پہلے بتایا تھا کہ اشفاق صاحب مجھ سے اتنے ناراض ہیں کہ حج پر جانے سے پہلے سب کو فون کیا مگر مجھے نہیں کیا” اس پر وہ دل گرفتہ اور اپنے چند قریبی دوستوں سے ناراض تھے کہ انھوں نے آپکے ساتھ ان کے برادرانہ تعلق کو خراب کیا مگر انشاء اللہ جب واپس آئیں گے اور ڈاگئی مبارکباد دینے جائیں گے تو وہ پھر وہی اشفاق ہوگا سب کچھ بھول جائیں گے”۔

سہیل قلندر نے صحافت میں ماسٹرز ڈگری حاصل کررکھی تھی‘ عملی صحافت کا آغاز1992میں مردان سے ایک صحافتی ادارے کے نامہ نگار کے طور پر کیا۔ بعد ازاں وہ پشاور منتقل ہوگئے۔ جہاں انھوں نے روزنامہ پاکستان، روزنامہ مشرق، روزنامہ کائنات اور روزنامہ میدان کے لیے کام کیا۔ 2002 میں انھوں نے روزنامہ ایکسپریس بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر جوائن کیا۔

ستون کے نام سے ان کا کالم روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحات کی زینت بنتا رہا۔ وہ پشاور پریس کلب کے صدر اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سربراہ بھی تھے۔ آج بھی صحافیوں اور پریس کلب پشاور کے لیے ان کی خدمات کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔

انھوں نے ناصرف اپنے ساتھیوں کو ترقی کے زینوں پر چڑھایا بلکہ نوجوان صحافیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان کے ایک شاگرد صبوخ سید اپنی انٹرن شپ کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں “سہیل قلندر صاحب روزنامہ ایکسپریس پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ میں اور ناصر فرید صاحب جب انٹرن شپ کے لیے ان سے ملنے گئے تو انھوں نے کہا کہ تم صحافی بننا چاہتے ہو؟میں نے کہا جی،

تو انھوں نے کہا کہ آج یونیورسٹی میں جو سب سے اہم واقعہ ہوا ہے اس کی خبر بنا کردو۔

اس روز پشاور یونیورسٹی کے داخلی گیٹ کے ساتھ واقع مسجد کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ یہ مسجد اسپین جماعت (پشتو میں اسپین سفید کو کہتے ہیں اور اس مسجد کا رنگ سفید تھا ) سے ایک کلومیٹر سے بھی کم مسافت پر واقع تھی۔ میں نے مسجد کے انہدام کی خبر بنا کر دی تو سہیل قلندر صاحب نے پڑھنے کے بعد شاباش دی اور جمشید باغوان صاحب سے کہا کہ وہ اسے شایع کریں۔

میری صحافتی زندگی کی سب سی پہلی خبر کو بغیر کسی ایڈیٹنگ کے، میرے نام کے ساتھ گزشتہ روز روزنامہ ایکسپریس پشاور کے فرنٹ پیج کے اپر ہاف میں شایع کیا گیا تھا۔ سہیل قلندر صاحب، ناصر مہمند صاحب اور جمشید باغوان صاحب نے ہمیشہ کام میں مدد اور حوصلہ افزائی کی”۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سہیل قلندر ایک اچھے صحافی ہی نہیں بلکہ سچے اور سْچے، کھرے انسان بھی تھے۔

سہیل قلندر نے ایک ایسے دور میں جب سب کچھ انتہائی دگرگوں اور ناقابل فہم بن چکا تھا، سچ اور جھوٹ کے مابین فرق مشکل ہو گیا تھا انھوں نے آگے بڑھ کر حقائق سے پردہ اٹھایا جھوٹ اور سچ کو الگ کر کے دکھایا۔ اس طر ح نہ صرف انھوں نے پختونوں بلکہ پاکستان اور اسلام کی وہ خدمت کی جو ایک غیور پختون، محب وطن پاکستانی اور سچا مسلمان ہی کر سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز سہیل قلندر کو دیا کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کا ساتھ دیتے ہوئے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے۔

سال 2009 میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 17 لاکھ سواتی اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کر گھروں سے بے گھر ہو گئے تو سہیل قلندر نے تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر دہشت گردی اور اس حوالے سے تمام تر مسائل پر کھل کر لکھنا شروع کر دیا، ایک موقع پر میرے باباجان رحمہ اللہ نے سہیل قلندر سے گلہ کیا کہ آپ طالبان کا لفظ غلط استعمال کرتے ہیں۔

طالبان تو افعانستان کی سرزمین پر اللہ رب العزت کی رحمت بن کر برس رہے ہیں مگر آپ ہر ظلم کو طالبان کے ساتھ پاکستان کا لفظ لگا کر جوڑتے ہیں، سہیل قلندر نے اس لمحہ سے دہشت گردوں کے لیے لفظ “ظالمان” کا استعمال کرنا شروع کیا جو پوری صحافتی برادری میں ان کی پہچان بن گیا، وہ ظالمان کے خلاف بے خوف و خطر لکھتے اور بولتے رہے حتیٰ کہ پاک فوج اور عوام کی بے پناہ قربانیاں اور سہیل قلندر جیسے نڈر اور بے باک صحافی کی تحریریں رنگ لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سوات کے عوام دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہو گئے۔

سہیل قلندر کو فرائض کی ادائیگی کے دوران دو جنوری 2007 کو اس وقت پشاور کے علاقے حیات آباد سے اغوا کیا گیا جب وہ اپنے ایک دوست حاجی نیاز کے ہمراہ جارہے تھے۔ 55روز تک انھیں خیبر ایجنسی میں تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رکھ کر اذیتیں دی گئیں۔

لیکن اغوا کار ان کے بلند حوصلے پست نہ کرسکے۔ سہیل قلندر کے اغواء کے دوسرے دن میں پشاور پہنچ گیا اور سہیل قلندر کی بازیابی تک پشاور میں رہا، اسی دوران ان کے لاڈلے بیٹے ببرک کی سالگِرہ نہیں منائی جاسکی جو میں نے ان سے کیے گئے وعدے کے مطابق سہیل قلندر کی بازیابی کے بعد پشاور پریس کلب میں منائی اور پشاور کے صحافیوں اور سہیل قلندر کے دوستوں اور عزیزوں نے شرکت کرکے ببرک کی سالگرہ کو یادگار بنایا۔

سہیل قلندر کے اغوا کے دن سے لے کر بازیابی تک ملکی اور عالمی میڈیا اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔55روز بعد جب ان کی بازیابی عمل میں آئی تو ان کے بلند حوصلے دیکھ کر ان کے چاہنے والے سہیل قلندر کے پہلے سے بھی زیادہ گرویدہ ہوگئے۔ دہشت گردی کے موضوع پر وہ جوکالم لکھتے تھے وہ کالم وطن سے محبت کا اظہار تھا۔

رواں ہفتے صحافت کے اس مرد قلندر، سہیل قلندر مرحوم کی تیرہویں برسی ہے مگر خیبر پختون خوا کے عوام بالعموم سوات کے عوام بالخصوص اپنے اس محسن صحافی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔

جنھوں نے انتہائی مشکل حالات میں امن اور سلامتی کے لیے صدائے حق بلند کی تھی۔اللہ کریم ان کے درجات کو بلند فرمائے اور اسلام اور پاکستان کے لیے انھوں نے مشکل ترین حالات میں بھی جو خدمات انجام دیں اللہ کریم انھیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔