عشق اورآگ کادریا

سعد اللہ جان برق  جمعـء 23 دسمبر 2022
barq@email.com

[email protected]

دنیا میں اس وقت دوچیزیں ایسی ہیں جنھیں ہم ’’شاملات دیہہ‘‘ کہہ سکتے ہیں، سیاست اورعشق ،جن میں ہرکوئی اپنا گھوڑا ،گدھا ،گائے، بیل بلکہ بھیڑ بکری تک چراسکتاہے اور چرارہاہے ۔ایک تیسری چیز بھی ہے ’’دین‘‘ لیکن اس پر کچھ خاص لوگ قابض ہیں اور یہ میدان ان ہی کی چراگاہ ہے ، اگر کوئی غیر اس کی طرف دیکھے بھی تو۔۔۔۔ خطرہ چار ہزار چارسو چوالیس وولٹ ہے، اس لیے

جس کو ہو دین و دل عزیز

اس کی گلی میں جائے کیوں

سیاست بھی ہمارے بس کی چیز نہیں،لہٰذا ہم صرف ’’عشق‘‘ پر ہی اپنا ٹٹوئے تحقیق یاخچر راہ دوڑا سکتے ہیں یا چراسکتے ہیں۔ ہمارے علامہ جن کے ’’خواب‘‘ میں ہم آج کل ’’رہ ‘‘ رہے ہیں بلکہ رو رہے ہیں۔

خواب میں روئیں تو احساس ہوسیرابی کا

ریت پر سوئیں مگر آنکھ میں دریا چاہیں

انھیں بھی تمام شاعروں بلکہ عقل دشمنوں کی طرح عقل سے پرخاش ہے، اس لیے فرماتے ہیں۔

عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے

عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

مطلب ‘ان پڑھ، نالائق، نکما اورنکھٹو ہے یعنی آوارہ ، ناکارہ ،کوچہ گرد ، بازارگرد ، کالج گرد ، بس اسٹاپ گرد ہے‘اس کی تصدیق مرشد نے بھی کی ہے کیوں کہ وہ بھی عشق کے بڑے بڑے ماہرین میں سے تھے کہ ۔

عشق نے غالب نکما کردیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ایسا لگتاہے جیسے یا تومرشد ہمارے پاکستان پر گئے تھے یا پاکستان ان پر گیا ہوا ہے کہ دونوں ہی ہمیشہ مقروض اور فاقہ مست رہتے ہیں،ہمیشہ قرض کی پیتے تھے اورسمجھتے تھے کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی،کچھ اورمیسر نہ ہونے کے باعث اکثر روزے کھایا کرتے ہیں، وظائف اورقرض بلکہ بھیک پر گزارہ کرتے تھے اورمنہ کو کشکول بنا کر در بہ در پھرتے تھے اور پھرتے ہیں۔

مطلب یہ کہ انھوں نے اور علامہ نے تو عشق کو مستند طورپر نکما، نکھٹو، لوفر ،آوارہ اورناکارہ ڈیکلئیرکردیا تھا لیکن بعد میں ایک علمبردار جگر مراد آبادی نے ایک مرتبہ پھر ’’عشق‘‘ کی تبلیغ کا بیڑہ اٹھا لیا،خود ہی اپنے بارے میں کہہ بھی دیا ہے کہ ۔

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

شاید کسی معشوق نے عین تالو کے اوپر پاپوش کاری کی ہوگی کہ اوپر کی چھت میں عشق ہی عشق بھر گیا اورعقل غالباً ناک کے راستے بہہ گئی چنانچہ عشق کے بارے میں ایسی ایسی باتیں اڑانے لگے جو صرف کوئی عقل دشمن ہی کرسکتاہے ۔

اک لفظ محبت کا ’’اتنا سا‘‘ فسانہ ہے

سمیٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

وہ تو اچھا ہوا کہ یہ شعر قصائیوں یعنی گانے والوں کے ہاتھ لگ گیا اورانھوں نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے ’’اتنا سا‘‘ کو ’’ادنیٰ سا‘‘ کردیا یایوں کہیے کہ اصل اورحقیقی معنی اس میں ڈال دیے، ادنیٰ سا یعنی وہی پہلے والا ان پڑھ، جاہل، ناکاہ اورآوارہ بدمعاش۔لیکن صاحب کادماغ تو تھا نہیں، اس لیے آخر میں ایک ایسا شوشہ چھوڑا کہ ساری دنیا کو پاگل کردیا۔

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

اس سے نہ صرف عشق کے تنازعات بڑھ گئے بلکہ ’’دریاؤں‘‘ کی شامت بھی آگئی، اب تک تو دریا صرف پانی ہی کے ہوتے تھے ،آگ کو ئی سیال یا مائع تو نہیں کہ دریا بن کربہتا رہے ،آگ کا پہاڑ یا آگ کا جنگل ہوتا بلکہ صحرا بھی ہوتا تو کچھ نہ کچھ قرینہ تو بنتا۔ لیکن آگ کا دریا؟ بچاری وہ ایک معصوم سی عورت تھی قرۃ العین حیدر ،اس نے ایک ناول لکھا تو نام میں ’’آگ کادریا‘‘ بہانا پڑا،کیا کرتی جب رئیس المتغزلین نے آگ کادریا دریافت کرلیا تھا۔

بات عقل دشمنی کی نہ ہوتی تو کوئی تو سوچتا کہ آخر آگ کا دریا کیسے ممکن ہے،ہاں اگر بات عربوں بلکہ اربوںکھربوں کی ہوتی تو وہ ’’آگ کادریا‘‘ بہا سکتے ہیں کہ جہاں سڑکوںکی گرد بٹھانے کے لیے ڈیزل کا چھڑکاؤ کیاجاسکتاہے، وہاں آگ کادریا بہانا کیامشکل ہے بلکہ سنا ہے کہ بہائے بھی جارہے ہیں۔

جن میں یورپ، امریکا اوردنیا بھر کی ’’حسینائیں‘‘ آتی ہیں ،بکنی پہن کر تیرتی ہیں اورڈوب کر کسی حرم میں جا نکلتی ہیں، سنا ہے اس معاملے میں اربوں والے عرب بڑے ’’دریا دل ‘‘واقع ہوئے ہیں ،پردیسی اور بے سہارا ناریوں کو سہارا دینے کو کام فرض سمجھ کر کرتے ہیں ،چار شادیوں کو بھی کئی جہات میں وسعتیں دے کر دریا بنا چکے اورکنیزوں سے اسے سمندر بھی بناتے رہتے ہیں ۔

سنا ہے اس سلسلے میں مشہور کردار ’’اسامہ‘‘ کے والد محترم ’’لادن‘‘ بہت ہی یدطولیٰ رکھتے تھے، وہ اپنے خصوصی طیارے میں کسی مقام پر اپنی تیسوئیں منکوحہ کو لانے جارہے تھے کہ جہازکریش ہونے کی وجہ سے ’’شہید‘‘ ہوگئے اور یہ نیک مشغلہ اپنی اولادوں کے سپرد کرگئے۔

اب آپ ہی انصاف کیجیے یہ جو جگر مراد آبادی نے عشق کو آگ کادریا بنایا ہے تو کس برتے پر۔۔ یہاں تو گھر میں چولہا جلانے کے لیے مٹی کا تیل بھی انسان کے خون سے منہگا ہے یعنی ہم چاہیں تو آگ کا نالہ بھی نہیں بہا سکتے، تو دریا برابر تیل کہاں سے لائیں گے ،بات کچھ کچھ وہی نومن تیل اور رادھا نچانے کی طرف جارہی ہے ۔اوپر سے صاحب نے کہا ہے کہ ڈوب کے جانا ہے۔ کاش اس وقت ہم ہوتے اورحضرت کی صرف ایک انگلی آگ میں ڈبوتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔