دارالحکمت کی ضرورت ہے؟

راؤ منظر حیات  ہفتہ 24 دسمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

خلیفہ مامون الرشیدکے عہد میں ’’دارالحکمت‘‘ اپنے علمی عروج پر تھا۔ خلیفہ ہارون کے زمانے میں اسے ’’خزانہ الحکمت‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔

بغداد میں قائم ’’دارالحکمت‘‘ مسلمانوں کی علم دوستی کا ثبوت تھا ۔ پانچ صدیاں قائم رہنے والا یہ علمی قیادت کا مرکز‘ پوری دنیاکے لیے فیض عام تھا۔ دنیا کے ہر کونے سے کتابیں منگوا کر انھیں عربی میں ترجمہ کروایا جاتاتھا۔ یہ تقریباً نو سو برس پہلے کی بات ہے۔

ذہین ترین سائنسدان اور اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ترین لوگ ’’دارالحکمت‘‘ میں کام کرتے تھے۔ مذہبی عصبیت کا کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ مسلمان اپنے عروج کے دور میں کتنے لبرل اور غیرمتعصب تھے۔پوری دنیا سے طالب علم‘ اپنے اپنے شوق کے مطابق‘ بغداد کا رخ کرتے تھے اور علمی پیاس کو ’’دارالحکمت‘‘ کی وسعتوں سے سیراب کرتے تھے۔

مسلمانوں کی تاریخ کا یہ سنہرا ترین دور تھا۔ کسی قسم کے سوال پر کوئی گرفت نہیںتھی۔ علمی دھارے اگر ایک دوسرے سے متضاد بھی ہوتے تو ریاست کی کوئی گرفت نہیںتھی۔ یورپ اس وقت بعینہٖ اسی تاریک دور سے گزر رہا تھا جہاں آج اسلامی دنیا اور بالخصوص پاکستان کھڑا ہوا ہے۔

منجمد ‘تفرقات اور نفرتوں سے لبریز   مگر ایک ہزار برس پہلے کے مسلمان حد درجہ روشن خیال لوگ تھے۔ اسی عہد میں ’’گریٹر ایران‘‘ میں پیدا ہونے والا محمد ابن موسیٰ الخوارزمی بھی تھا۔ خدانے اسے حد درجہ زرخیز دماغ اور فہم سے نوازا تھا۔ الخوارزمی اپنے وقت کا آئن اسٹائن تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کی فکری اہلیت کوئی جانتا نہیں تھا۔

کسی کو بھی اس کی محیر العقول علمی صلاحیت کاادراک نہیں تھا مگر اس وقت اور آج کے وقت میں ایک واضح فرق ہے۔ مسلمان تنگ نظری سے کوسوں دور تھے اور دنیا میں صرف اور صرف ایک وسیع ترین ’’دارالحکمت‘‘ پوری آب و تاب سے پنپ رہا تھا۔

وہاں کسی بھی سوال پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ الخوارزمی سیکڑوں کوس کا سفر کر کے بغداد پہنچا ۔ اس کے ہاتھ میں الجبرا‘ فلکیات پر لکھا ہوا ایک ضخیم مقالہ تھا۔ پورے شہر میںمکمل اجنبی تھا۔ مالی وسائل بھی بس پورے پورے تھے۔

کسی سے مشورہ کیا کہ مقالہ کہاں جمع کروانا چاہیے تاکہ عام لوگوں تک اس کی رسائی ہو۔ دارالحکمت جانے کامشورہ دیا گیا۔ حد درجہ ڈرتے ڈرتے الخوارزمی وہاں پہنچا اورمقالہ جمع کروا دیا۔ اگلے تین دن اس پر حددرجہ قیامت کے گزرے کیونکہ تین دن تک کسی نے بھی اس سے کوئی رابطہ نہیں کیامگر چوتھے دن ‘ ایک ہرکارہ اسے ڈھونڈتا ہوا جائے قیام پر پہنچا۔فرمان تھا کہ وہ علم کے منبع یعنی دارالحکمت میں پیش ہو اور اپنا مقالہ خودپیش کرے۔ الخوارزمی وقت مقررہ پر پہنچا تو وہاں پانچ چوٹی کے سائنسدان اورعالم موجود تھے۔

ان سب نے مقالہ پڑھ رکھا تھا۔الخوارزمی سے گھنٹوں سوال و جواب کا سلسلہ چلتا رہا۔ تمام محققین نے نوجوان سائنسدان کے مقالے کوحد درجہ معیاری قرار دیا اور اس کے بعدالخوارزمی ‘ دارالحکمت سے وابستہ ہوگیا۔

اگر میں یہ عرض کروںکہ ’’یہودی کیلنڈر‘‘ بھی اسی کی ذہنی ترتیب سے ہی بنتا رہا تو شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ شاید آپ اس نکتہ پر بھی یقین نہ کرپائیںکہ مغرب کی سائنسی ترقی صرف اور صرف مسلمان علم سے کشید ہوئی ہے۔

اس زمانے کے مکمل برعکس ‘آج کی اسلامی دنیا پوری طرح علمی اور فکری جمود کا شکار ہے۔مگر برصغیر اس جہالت میں سب سے زیادہ بازی لے گیا۔ سائنس اور جدید علوم میں ترویج تو دور کی بات ‘ ہم نے اپنے عظیم مذہب میں ایسے ایسے فرقے پیدا کر دیے جوایک دوسرے کی گردن کاٹنا جنت میں جانے کا واضح راستہ گردانتے ہیں۔

عام سا مسلمان ہوں اور فرقہ بازی سے ہزاروں نوری برس دور ہوں۔ کیا یہ امر عجیب نہیں ہے کہ وہ علاقہ‘ جسے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا تھا، وہاں ہمارے محیر العقول حدتک دولت مند سلاطین ‘ بادشاہوں اور حکمرانوں نے ایک بھی علمی مرکز قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ حقیقت حد درجہ تکلیف دہ ہے کہ ہمارے اکابرین نے ہمیں جدید علم سے قصداً محروم کر دیاجس کا خمیازہ آج بھی ہم کسی نہ کسی طور پر بھگت رہے ہیں مگر اس کاایک عجیب سانقصان ہوا۔ جس غلطی کے عذاب میں موجودہ پاکستان کے لوگ دگرگوں حالات کی حدت میں جل رہے ہیں۔

عدم برداشت اور کوتاہ اندیشی کا رویہ جواس وقت ہمارے ملک کی پہچان ہے۔ اس پر بات کرنا حددرجہ ضروری ہے مگر اس کولکھنے کانقصان بھی ہو سکتاہے۔ ہوا یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں تاریخ ‘ علم‘ سائنس اور تحقیق کا پہیہ اپنی مرضی سے الٹ سمت میں چلا دیا ہے۔

اخلاقیات کا جنازہ ہم نے کب کا نکال دیا بلکہ اخلاقیات کی لاش کوعرصہ ہوا‘ کفن کے بغیر دفنا دیا ہے۔ اس بگاڑ نے ہمارے ہر شعبہ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔آج کے دن میں ہمارے پاس ایک بھی ایسا قومی ادارہ نہیںہے‘ جس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا جا سکے۔ ہر ادارہ اپنے اپنے مفادات کی ننگی تلوار سے حفاظت کر رہا ہے۔

اور سمجھتا یہ ہے کہ بالکل درست کر رہاہے۔ معاملہ ا گر سنگین نہ ہوتا تو شاید اس پر لکھنے کی ضرورت ہی نہ آتی مگر موجودہ حالات 1970-71 سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ اگر اس وقت تمام صوبے جغرافیائی اکائی میں قائم ہیں تو اس کی واحد وجہ قومی عسکری طاقت ہے۔

ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ میں فیصلہ ہوتا تو یہ کب کا اس ملک کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے‘ اپنے اپنے رجواڑے قائم کر چکے ہوتے۔ غور سے دیکھیے۔ ہم قومی حماقت کی آخری دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ آپ کی توجہ بین الاقوامی سطح کی ایجنسی کے ہمارے معاملات پر حالیہ فیصلے کی طرف مبذول کرواتا ہوں۔ ’’اسٹینڈرڈ اینڈ پوور گلوبل‘‘ S and p glodal نے دو دن پہلے پاکستان کی معاشی کیفیت کو مزید منفی قرار دے ڈالا ہے۔

ہماری معیشت ’’بی‘‘ کے زینہ سے گر کر ’’سی سی سی‘‘ کے گڑھے میں گر چلی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم جس نے تین ماہ پہلے‘ معاشی review کے لیے آنا تھا۔ اب کسی صورت میں پاکستان نہیں آ رہی۔ ہمارے وزیر خزانہ‘ اسلام آباد میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کودھمکیاں دے رہے ہیںکہ تمہیں دیکھ لینگے۔ اس طفلانہ رویے نے ہماری لٹیا ڈبو دی ہے۔

ایس اینڈ پی نے وضاحت سے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی تنزلی جاری رہے گی۔ مگر نہ ملک کے وزیراعظم کوعدم استحکام ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے کو۔ سب اپنی اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چھپ کر بیٹھے ہیں کہ کم از کم وہ توآنیوالے طوفان میں محفوظ رہیںگے۔

پرنہیں صاحبان! آنے والا طوفان‘ بہت کچھ خس و خاشاک کی طرف بہا کر لے جائے گا۔ اب کوئی بھی سیاست دان یا ادارے اپنی پوزیشن سے تھوڑا سا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سچ سننے کو روا نہیں رکھ رہا۔

پنجاب ‘ ہمارے ملک کی آخری محفوظ پناہ گاہ ہے۔ اس میںموجود بحران مکمل طور پر سیاسی ہے۔ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم۔ آئین کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اپنی فائدہ مند تاویلیں سامنے رکھ رہے ہیں۔ عدلیہ کی طرف فیصلہ کے لیے دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے ہاتھ تو پہلے سے بندھے ہوئے ہیں۔ آگے کیا عرض کروں۔ کیا لندن‘ امریکا یا جاپان میں اس طرح کی سیاسی غیر ذمے داری کی اجازت دی جا سکتی ہے بلکہ کیا وہاں اس حد تک معاملات کو بگڑنے دیا جا سکتاہے۔

نہیں‘ قطعی نہیں۔ ملکی مفادات کی خاطر وہ زندہ قوتیں اپنے ملک میں افراتفری پھیلانے والے اکابرین کو سولی پر لٹکا دیتے ۔ اپنے ملک کی ترقی کو مقدم رکھتے ہوئے وہ انتشاری بدروحوں کو زندہ درگور کر دیتے مگر نہیں‘ ہمارا مہذب دنیا سے کیا تعلق‘ ہم تو پوری دنیا سے متضاد راستے پر گامزن رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارا ترقی سے کیا لینا دینا۔ موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال‘ ملک کو تو برباد کر ہی چکی ہے مگر ہمارے حکمران اور مہربان آج بھی اپنے اپنے داؤ پر بیٹھے ہیں۔ اورہاں۔ اپنے آپ کو ’’عقل کل‘‘ بھی سمجھ رہے ہیں۔

کوئی بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ ہر سیاستدان اور ادارہ ‘ دوسرے کی تباہی کو اپنی کامیابی گردان رہا ہے۔ عوام کی زبوں حالی کا کیا ذکر کرنا۔ وہ تو صرف شناختی کارڈ ہیں ۔ ادنی پلاسٹک کے پتلے جنھیں صرف سانس لینے کی اجازت ہے۔ خدارا کوئی مقتدر سیانا انسان یاادارہ آگے بڑھے اورموجودہ تنزلی کے گڑھے سے ہمیں باہر نکالے۔ ہماری دنیاوی ترقی کی بنیاد رکھے۔ ہمارے حکمران اور مہربان‘ دانشور اور اہل علم لوگوں سے حد درجہ دور رہتے ہیں۔ انھیں درباری اور طفیلی پسند ہیں ۔

ویسے الخوارزمی اگر پاکستان میں اپنی بدقسمتی سے پیدا ہوجاتا تو دارالحکمت تو بڑی دورکی بات ‘ کسی غیر معروف علمی درسگاہ میں شاید چوکیدار یا چپڑاسی کی نوکری تلاش کر رہا ہوتا یا کسی جلسے میں ایک ہزار روپیہ وصول کر کے کسی سیاسی جغادری کے حق میں جھوٹے نعرے لگا رہا ہوتا۔بنجر سماج ‘کسی صورت میں بھی بہتر نظام اور زرخیز ذہن کوقائم ودائم نہیں ہونے دیتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔