سو موٹونوٹس

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 24 دسمبر 2022
barq@email.com

[email protected]

ہم کبھی کبھی کسی کتاب پر تبصرہ بھی کردیتے ہیں، شایدکچھ پڑھنے والوں کو کچھ عجب لگے کہ اخبارات میں تبصرہ کتب کاسلسلہ الگ سے چلتاہے لیکن ہم ہرکتاب پر تبصرہ نہیں کرتے اور نہ ہی ہرکتاب ،کتاب ہوتی ہے، شکل وصورت سے تو بہت ساری کتابیں چھپتی ہیں لیکن جن کو پڑھنے پڑھانے کے لیے اگر ہمیں کوئی فی صفحہ کے حساب سے فیس بھی دے تو ہم اپنی ہی اس بات سے مکرجائینگے۔

ایک مرتبہ کسی نے ہمیں ایسی ہی کتاب دی تو واقعی اس شخص نے ہمای مٹھی میںکچھ رکھا اور جب دیکھا تو فیس آدھی تھی، اس لیے ہم نے کتاب بھی آدھی پڑھی اور ایسی کتابیں لکھنے اور چھاپنے والے پھر ’’کتاب کلچر‘‘ کے ختم ہونے کا رونا روتے ہیں لیکن ایسی کتابیں بھی کبھی کبھار آجاتی ہیں جو پڑھنے والے کو خود ہی اپنے پڑھنے پر مجبورکردیتی ہیں بلکہ کمبل بن کر تب تک نہیں چھوڑتیں جب تک پڑھنے والے سے خود پڑھوا نہیں لیتیں۔

خیر یہ تو اپنی جگہ ایک الگ ہی المیہ ہے لیکن ہم اس وقت ایک ایسے ’’امیرمینائی‘‘ کی بات کرنا چاہتے ہیں جو غلط وقت میں غلط ملک اور غلط مقام پر پیدا ہوا ہے حالانکہ یہ ’’دعویٰ‘‘ ہمیں خود اپنے بارے میں بھی ہے ،حضرت امیر مینائی نے اپنا تعارف یوں کروایا ہے کہ

برچھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

شیخ معظم خان مندوخیل اس نئے امیر مینائی کا نام ہے اور اس کے کام کا اندازہ اس کے کالموں کے نام سے ہوجاتاہے جو کراچی اور دیگر مقامات کے اخبارات میں چھپتے ہیں ’’ازخودنوٹس‘‘ نام سے ہی پتہ چل جاتاہے کہ موصوف نے خود کو خود ہی عوامی عدالت بنایاہوا ہے اور سارے مقدمات میں خود ہی نوٹس لیتے رہتے ہیں۔

ہم نے ان کے کالموں کے اردو مجموعے پڑھے ہیں ، واقعی ’’ازخود نوٹس‘‘ لینے میں کافی ماہرہیں ، ویسے تو موصوف کا زیادہ تر فوکس پاکستان میں قانون ،نظام انصاف اور مقدمات پر ہوتا ہے لیکن دوسرے دیوانی اور فوجداری معاملات پر دلچسپ اورمعلومات سے بھرپور نوٹس لے لیتے ہیں ۔اب یہ تو معلوم نہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ موصوف نے ایک دم اپنا رخ اردو سے انگریزی اور ملک سے باہرکی طرف کردیا ہے شاید۔

ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ

سنی نہ بات کسی نے مرگئے چپ چاپ

چنانچہ یہ دو تازہ تر کالموں کے مجموعے انگریزی کے ہیں اور موضوع ہے، بھارت کی سیاست اور مسلم دشمنی کا ازخود نوٹس یعنی ’’سوموٹو نوٹس‘‘جن میں بھارت کی سیاست اور خاص طور پر موجودہ موذی پارٹی کی ننگی مسلم دشمنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، ویسے تو مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی بھارتی سیاست کا جزو اعظم رہی ہیں لیکن کانگریس میں پھر بھی تھوڑی سی حیا اور شرم باقی ہے۔

ایک پشتو کہاوت کے مطابق چہرے کو پلو سے چھپاتی ہے لیکن ’’بی جے پی‘‘ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی عرفیت ’’باجپا‘‘ بھی ہے مکمل طورپر ننگی ناچ رہی ہے بلکہ اس میں بھی جب تک کچھ پرانے لوگ، باقی تھے ، باجپائی اور اسی نسل کے لوگ تو کسی حد تک پھر بھی بلی کو تھیلے میں رکھتی لیکن ایڈوانی سے موجودہ دامودرداس مودی اور امیت شاہ جیسے لوگوں نے سارے کپڑے لتے دور پھینک دیے اور اندر سے شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور بال ٹھاکرے نکل آئے:

واکر دیے ہیں عشق نے بند نقاب حسن

غیر ازنگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

برروئے شش جہت در آئینہ باز ہے

یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا

بڑی بے شرمی سے بابری مسجد کو رام جنم بھومی بنادیاگیا اور مسلمانوں کے گرد گھیرا روز بروز تنگ کیا جا رہا ہے ، اس پر پاکستان کے مصنوعی دانا دانشور تو حسب سابق کشمیر کا تڑکا دے کر اپنی اپنی ہانڈیاں چڑھائے ہوئے ہیں لیکن شیخ معظم خان مندوخیل ہماری طرح ’’دانشور‘‘نہیں ہے۔

اس لیے سیدھی بات کرتے ہیں اورکسی بھی لگی لپٹی کے بغیر کرتے ہیں، اس لیے ان کے کالموں کے یہ دو انگریزی مجموعے ’’سوموٹوایکشن‘‘ بھی بھارتی بلکہ موذی سیاست کا پوسٹ مارٹم اور پری مارٹم دونوں کرتے ہیں اور بی جے پی (جو اصل میں شیوسینا اورآر ایس ایس کی نقاب پوش شکل ہے) کے دکھانے والے اورکھانے والے دانتوں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

’’سوموٹو ایکشن‘‘ کے یہ دونوں مجموعے پڑھنے والوں کو ایسا بہت کچھ دکھاتی ہیں جو پردے کے پیچھے ہے بلکہ مودی بھی اصل میں پردے کے اندر نہیں ہے۔

پردے کے اندر گجراتی امیت شاہ اینڈ پارٹی سب کچھ کرتے ہیں ۔شیخ معظم خان مندوخیل ایک ایسا رضا کار ہے جسے نہ ستائش کی تمنا ہے، نہ صلے کی پروا۔ سب کچھ اپنے جذبے اور پلے سے خرچ کرکے کرتے ہیں گویا۔

سرمہ مفت نظر ہوں میری قیمت یہ ہے

کہ رہے چشم خریدار پہ احسان میرا

یہ کتابیں بھی حسب معمول اس وقت کے واحد سرگرم ادارے قلم فاونڈیشن نے چھاپی ہیں۔

جزقیس اورکوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔