بنوں، دہشت گردوں کے نرغہ میں

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 24 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

خیبر پختون خوا میں دریائے کرم کے دھانہ پر واقع بنوں کا شمار برصغیر کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ انگریز دور حکومت میں بنوں برطانوی فوج کی چھاؤنی تھی۔ انجینئروں نے بنوں کو ایک سڑک کے ذریعہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ملادیا تھا۔

ہندوستان کے بٹوارہ کے وقت بنوں میں ایک تاریخی جرگہ منعقد ہوا تھا اور ایک تاریخی ڈیکلریشن منظور ہوا۔ بنوں ڈیکلریشن میں پختون قوم کو آزاد ریاست قائم کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر پھر سرحد میں ہونے والے ریفرنڈم میں صوبہ پاکستان میں شامل ہوا۔ بنوں ڈویژن تین اضلاع بنوں، لکی مروت اور شمالی وزیرستان پر مشتمل ہے۔

افغانستان سے قریب ہونے کی بناء پر بنوں کو ایک اسٹرٹیجک حیثیت Strategic Position حاصل ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد انتہاپسند گروہوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بنوں اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہے۔

جنگجوؤں نے اپنے مخالفین کو وحشیانہ انداز میں قتل کرنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ بنوں کے رن مانی اکبر خان چوک سے ایک 40 سالہ شخص قمر علی خان کی سرکٹی لاش برآمد ہوئی۔ قمر کی لاش شہر کے چوک میں رکھ دی گئی تھی۔

پولیس کی رپورٹ کے مطابق قمر علی خان کے بھائی کمال خان کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی 12 دسمبر سے لاپتہ تھا۔ پھر 14 دسمبر کی صبح کسی شخص نے اطلاع دی کہ قمر کی سرکٹی لاش چوک میں پڑی تھی۔

ایک انتہاپسند گروپ اتحاد المجاہدین نے اس قتل کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ پولیس کو مخبری کی سزا دی گئی۔

اس سے قبل 5 دسمبر کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ایک افسر کی لاش اسی طرح ملی تھی۔ ان انتہاپسندوں نے ایک سپاہی کو سزا دینے کے لیے اس کے 18 سالہ لڑکے کو قتل کر کے لاش درخت پر لٹکادی تھی۔ انتہا پسندوں کی سرگرمیاں صرف چند افراد کو قتل کرنے تک محدود نہیں رہی ہیں بلکہ ان گروہوں نے پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

گزشتہ ہفتے انتہاپسندوں نے ایک تفتیشی مرکز پر حملہ کیا، اس تفتیشی مرکز میں ملزمان سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔ مسلح افراد نے تفتیشی مرکز کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکاروں کو قتل کیا اور 29 کے قریب دہشت گردوں کو رہا کرایا۔ اس ہفتہ کے آغاز پر دہشت گردوں نے پھر بنوں میں سی ٹی ڈی کے کمپاؤنڈ پر قبضہ کیا۔

وفاقی سیکیورٹی فورس کے کمانڈوز نے کارروائی کرکے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ خیبرپختون خوا کی پولیس اس آپریشن سے لاتعلق رہی۔ اس دہشت گردی کے حملہ کی خبریں ذرایع ابلاغ کی سرخیاں بنیں۔

امریکا کی وزارت خارجہ نے بھی اس حملہ کی مذمت کی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ خیبر پختون خوا میں صورتحال اتنی خراب ہے کہ وزیروں، سیاسی رہنماؤں اور تاجروں کو بھتے کی پرچیاں ایک منظم طریقہ سے بھیجی جاتی ہیں اور ان پرچیوں سے واضح کیا جاتا ہے کہ تاوان ادا نہ کرنے والے اپنے قتل کے لیے تیار رہیں۔

پشاور میں تحریک انصاف سے منسلک تاجروں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو ایک خط میں بتایا ہے کہ بھتہ کی دھمکیاں، اغواء برائے تاوان اور قتل کی وارداتیں روز معمول کی بات بن گئی ہے۔ انصاف تاجر ونگ کے سربراہ عاطف حلیم نے عمران خان کے نام اس خط میں لکھا ہے کہ سابق وزیر حاجی محمد جاوید عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر بیت اﷲ کے گھروں پر حملے ہوئے ہیں۔

عاطف حلیم کے والد کو 2016میں بھتہ نہ دینے پر جنونی عناصر نے قتل کیا تھا۔ انصاف تاجر ونگ کے ایک رہنما نے یہ بھی کہا ہے کہ اس صورتحال میں پشاور کے تاجر اپنا کاروبار دیگر صوبوں کو منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اخبارات میں شایع ہونیوالے سیکیورٹی کے قومی اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس کا سی ٹی ڈی کا شعبہ دہشتگردوں کی موجودہ لہر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

اس رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں 9 سال سے برسر اقتدار پی ٹی آئی کی حکومت کے زیر انتظام دہشتگردی کے خاتمہ اور مقابلہ کے لیے قائم محکمہ میں دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ، افرادی قوت اور وسائل نہ ہونے کی بناء پر دہشتگردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس محکمہ کی تنظیم نو، وسائل کی فراہمی اور عملہ کی معیاری تربیت کے انتظامات کیے جائیں۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ سال دہشت گردی کے تین واقعات ہوئے جب کہ کے پی میں دہشتگردی کے تین سو واقعات ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں متعدد بار حکومت کو خبردار کیا گیا تھا کہ انسداد دہشتگردی کے محکمہ کی تنظیم نو کی جائے۔

ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان کی حکومت کا تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ فیصلہ عمران خان کے منظور نظر ایک اعلیٰ عسکری عہدہ پر فائز افسر کا تھا اور راولپنڈی کو اس فیصلہ سے اتفاق نہیں تھا۔ اس رپورٹ میں اس نکتہ پر بھی خاص طور پر زور دیا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو پاکستانی طالبان کے بجائے افغانستان کی حکومت سے براہِ راست رابطہ کرنا چاہیے تھا۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں عمران خان کی سابقہ وفاقی حکومت اور کے پی کی حکومت کا منفی کردار بہت زیاہ اہم ہے۔ عمران خان کی حکومت افغان طالبان کی بھرپور حامی تھی، جب بھی امریکی ڈرون حملہ میں کوئی دہشت گرد مارا جاتا تو تحریک انصاف کے رہنما واویلا کرنا شروع کردیتے اور طالبان کی رجعت پسند پالیسیوں پر ہمدردانہ فضا بنانے کی کوشش کرتے تھے۔

عمران خان نے کئی دفعہ طالبان کی خواتین دشمن پالیسیوں کا دفاع کیا۔ عمران خان کی اس حکمت عملی سے تحریک انصاف کی طالبان میں مقبولیت تو بڑھ گئی لیکن ملک مسلسل دہشت گردی میں مبتلا رہا۔ چند ماہ قبل جب سوات سے یہ خبریں آئیں کہ مذہبی انتہاپسندوں کے جنگجو دوبارہ وادی میں متحرک ہوگئے ہیں تو کے پی حکومت کے میڈیا کے مشیر بیرسٹر سیف جو پہلے ایم کیو ایم میں ڈیوٹی پر تھے نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی تھی۔

سوات میں ایک اسکول وین پر نامعلوم افراد کے حملہ کے بعد پولیس اور انٹیلی جنس ذرایع نے سوات کے مختلف علاقوں میں بھی ان جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق کی تو صوبائی حکومت نے فورا کارروائی سے گریز کیا اور بیرسٹر سیف نے ان جنگجوؤں سے ہمدردانہ اپیل کی کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ سوات میں عوام نے جنگجو عناصر کی سرگرمیوں پر سخت احتجاج کیا جس کے بعد مسلح افواج کے دستوں نے ایک مختصر آپریشن کے ذریعہ ان جنگجوؤں کا صفایا کیا۔

پاکستانی طالبان کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک شمالی وزیرستان میں پختون تحفظ موومنٹ نے منظم کی مگر یہ المیہ ہے کہ مذہبی جنگجوؤں کے خلاف اس تحریک کو مسلسل ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا اور یہ صورتحال موجودہ حکومت کے دور میں بھی شامل ہے۔ دوسری طرف افغان سرحد سے دہشت گرد حفاظتی چوکیوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔ روزانہ ان حملوں میں پاکستانی سپاہیوں اور افسروں کی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔

عمران خان بھی اب ان حملوں کی مذمت کرنے والوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان کا مدعا ہے کہ موجودہ حکومت سرحدوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ذمے داری تحریک انصاف کی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے۔

خیبر پختون خوا سے آنے والی اطلاعات سے واضح ہوتا ہے کہ بنوں اور اطراف کے علاقے مکمل طور پر دہشت گردوں کے نرغہ میں ہیں۔ پاک افغان سرحد پر بھی صورتحال انتہائی خراب ہے، یہی وقت ہے کہ پوری افغان پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔