گندم اور کھاد کی درآمد

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 24 دسمبر 2022

چوکیدار ہو، عملہ ہو یا انچارج ان سب کو پتا تھا کہ کوئی تالے نہیں توڑے گا۔ کوئی نقب نہیں لگائے گا، کوئی چوری نہیں کرے گا، کوئی ڈاکا نہیں ڈالے گا کیونکہ لٹیروں، ڈاکوؤں، چوروں کو پتا تھا کہ یہاں گودام میں گندم محفوظ ہے۔

گندم جسے کھیتوں کھلیانوں میں کسانوں نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ لگایا۔ پھر اس کے دانے الگ الگ کیے، ان میں سے گندم کی بوریاں بھریں۔ کہا جاتا ہے کہ 10 ہزار بوریوں کو گودام میں بند کردیا گیا تھا، تاکہ بوقت ضرورت فلور مل مالکان کو حکومتی ریٹ پر فروخت کردیا جائے، لیکن ہر سال کئی گودام ایسے نکل آتے ہیں۔

جہاں مناسب حفاظت نہ ہونے کے باعث ہزاروں ٹن گندم خراب ہو جاتی ہے پھر یہ خبر شایع ہوئی کہ ایک اور گودام سے گندم کی دس ہزار بوریاں خراب نکلی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسپرے کے پیسے ہڑپ کر لیے گئے تھے کئی جگہ اس خراب گندم کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن فلور ملز مالکان نے خریدنے سے انکار کردیا۔

حکومت ہر سال لاکھوں ٹن گندم خریدتی ہے، ہر صوبائی حکومت ان کی حفاظت کا انتظام کرتی ہے کیونکہ گندم پاکستانی عوام کی من پسند خوراک ہے۔

ہر سال ڈھائی کروڑ ٹن کے لگ بھگ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ کسانوں کو اتنا منافع تو نہیں ملتا کیونکہ فی ایکڑ پیداوار پوری دنیا سے بہت کم ہے، لیکن وہ اسے اگا کر صوبائی حکومتوں کے آگے فروخت کردیتے ہیں تاکہ سرکاری گوداموں میں حفاظت سے رکھی جائے اور بوقت ضرورت کام آئے،پہلے ہی صرف سندھ میں 35 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں 90 فی صد تباہی کا شکار ہو چکی ہیں۔

ان میں سے بیشتر زمینوں سے ابھی تک پانی کی نکاسی نہ ہو سکی۔ ماہ نومبر میں گندم کی بوائی متاثر ہونے کے باعث آیندہ شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک بھر میں سیلاب کے باعث15 ہزار سے کہیں زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں۔

زمینوں کو اب تک پانی سے واگزار نہ کرایا جاسکا ۔ گندم بونے کا سیزن گزر گیا۔ اب اگلی فصل کے لیے زمین کب تیار ہوگی۔ گندم کی فصل ماہ اپریل میں کتنی ہوتی ہے اس کا اندازہ اپریل مئی میں ہی ہوگا فی الحال سیلاب اور غفلت کے باعث کئی ہزار ٹن گندم ضایع بھی ہوگئی اور حکومت لاکھوں ٹن گندم درآمد کر چکی مزید کے لیے آرڈرز بھی دیے جا رہے ہیں۔

صرف جولائی تا نومبر ان 5 ماہ کے دوران 10 لاکھ 99 ہزار پانچ سو میٹرک ٹن درآمد کر چکے ہیں جس پر 46 کروڑ 6 لاکھ ڈالر کے اخراجات آئے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے باعث دالوں کی فصلیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ کل ملا کر نئے مالی سال کے 5 ماہ کے دوران 6 لاکھ 12 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 45 کروڑ37 لاکھ 81 ہزار ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں۔

ادھر ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں ان کو ریلیز کرانے کے لیے ڈالرز کی کمی ہے۔ ایک ارب 22 کروڑ35 لاکھ ڈالرز ٹرانسپورٹ سے متعلقہ درآمدات جن میں لگژری گاڑیاں اور دیگر ضروری و غیر ضروری یا پھر جن کی درآمد کچھ عرصے کے لیے ملتوی کی جاسکتی تھی۔ اس طرح اچھی خاصی رقم ڈالرز میں بچا کر صرف وہ کنٹینرز ریلیز کروا لیتے جن کی سخت ضرورت ہے کیونکہ ان کو استعمال کرکے اپنی برآمدات کی ویلیو بڑھا لیتے۔

چند ہی دنوں میں ایک اور مسئلہ سر اٹھانے کو ہے کہ گندم اور دیگر فصلوں کو جیسے ہی کھاد کی اشد ضرورت پڑے گی۔ ناجائز منافع خور مافیاز، بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ذخیرہ اندوزی کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے اور سرکاری نرخ پر کھاد دستیاب نہ ہوگی۔

کسان بلیک میں مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ پھر ظاہر ہے ہمیشہ کی طرح کسی کی ضرورت 10 بوری ہے تو وہ 6 یا 7 بوری خرید کر کام چلائے گا لیکن نتیجہ پچھلے سال کی طرح پیداوار میں کمی ہوگی۔

گزشتہ برس کی طرح اب تک نئے مالی سال کے ان 5 ماہ میں 5 لاکھ 86 ہزار میٹرک ٹن کھاد درآمد ہوچکی ہے۔ حکومت اس بات کی طرف توجہ دے کہ ایک بوری بھی ادھر ادھر نہ ہو۔ ہر کسان، ہاری زمیندار وڈیرے کی زمینوں تک یہ کھاد پہنچے۔ ان کو حکومتی نرخ پر مہیا ہوکر رہے۔ ہر سال کی طرح نہ ذخیرہ اندوزی ہو، نہ گودام میں چھپائی جائے۔

کیونکہ پہلے ہی کچھ زمینیں تو پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ لاکھوں کسان ہاری جو کہ سیلاب سے متاثر ہیں ان میں سے جنھوں نے فصل بو دی ہے ان کو کنٹرول ریٹ پر کھاد دستیاب نہ ہوئی تو گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں زبردست کمی کا خدشہ ہے۔ اس بات کے اندازے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس مرتبہ حکومت نے شاید ڈالرز کی قلت کے باعث گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں کھاد کم درآمد کی ہے کیونکہ گزشتہ مالی سال کے اسی 5 ماہ کے دورانیے میں 8 لاکھ 74 ہزار4 سو میٹرک ٹن کھاد کی درآمد کرلی گئی تھی۔

واضح نہیں ہو سکا کہ آیا ملکی پیداوار زیادہ حاصل ہوگئی ہے یا جلد ہی مزید لاکھوں ٹن درآمد کرلی جائے گی یا پھر یہاں بھی ڈالر آڑے آگیا ہے۔ بہرحال 2 لاکھ 88 ہزار 6 سو میٹرک ٹن پہلے سے کم درآمد کرنے کے باوجود اگر اب تک اس کی تقسیم و فروخت اور ہر چھوٹے بڑے زمیندار کو کنٹرول ریٹ پر بقدر ضرورت مہیا کر دینا ایسا بہترین مینجمنٹ کے باعث ہی ہوگا۔

بلیک مارکیٹنگ، کرپشن، اقربا پروری اور دیگر باتوں سے دور ہو کر ہی کھاد کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے گندم اور دیگر فصلوں کی بہتر پیداوار کے حصول کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ تاکہ آیندہ گندم اور دیگر فصلوں کی بہترین پیداوار حاصل ہو۔

ہر صوبائی حکومت گندم خریدتی ہے تو گوداموں میں رکھنے کے ساتھ وہاں پر تربیت یافتہ عملہ اور ذمے دار عملہ تعینات کیا جائے ذرا سی غفلت پر سخت کارروائی کی جائے جیساکہ ان 5 ماہ میں گندم اور دالوں کی درآمد پر ہی تقریباً 92 کروڑ ڈالر خرچ کر چکے ہیں، اگر بہترین زرعی پیداوار حاصل کر رہے ہوتے تو خوراک پر اربوں ڈالر کے درآمدی اخراجات نہ ہوتے۔ کھاد ہو، گندم ہو یا دالیں اور دیگر زرعی پیداوار وافر مقدار میں حاصل کرکے ایکسپورٹ کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اس کے لیے بہترین زرعی منصوبہ بندی کرلی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔