- کراچی، نشے کے عادی باپ نے سوتیلے کمسن بیٹے کو گلا دبا کر قتل کردیا
- حکومت کا بجٹ میں بینک ٹرانزیکشن اور لگژری اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ
- گلگت بلتستان حکومت کا سرکاری طلبہ کیلئے 50 ہزار روپے تک قرض دینے کا فیصلہ
- کراچی، دوران ڈکیتی مزاحمت پر پولیس افسر سمیت3 افراد زخمی
- حیدرآباد میں نامعلوم افراد ہزاروں روپے مالیت کی قیمتی مچھلی چوری کرکے لے گئے
- بیروزگاری سے تنگ ڈاکٹرز نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے ڈگریاں جلادیں
- مسلم لیگ ن نے استحکام پاکستان پارٹی سے انتخابی اتحاد کا عندیہ دے دیا
- ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا گیس پائپ لائن مشترکہ منصوبے پر دستخط
- کراچی کے ماحولیاتی نمونے میں پولیو وائرس کی تصدیق
- ملکی قرض 592 کھرب، پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں 11.2 فیصد کمی، اقتصادی سروے
- وفاقی حکومت بجٹ آج پیش کرے گی، 700 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز
- جہانگیر ترین کی نئی پارٹی کے قیام پر پی ٹی آئی کا ردعمل
- باغ آزاد کشمیرضمنی انتخاب، پیپلزپارٹی کامیاب، ن لیگ کا دھاندلی کا الزام
- افغان صوبے بدخشاں کی مسجد میں دھماکا، 15 افراد جاں بحق
- ماں باپ کا مبینہ قاتل بیٹا دبئی فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار
- دل کے 16 ہزار آپریشن کرنے والے مشہور بھارتی ڈاکٹر ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے
- پرانے انڈوں کو نئی ٹوکری میں ڈالنے سے استحکام نہیں آئے گا، سراج الحق
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 4 ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آگئے
- حکومت نے آئندہ عام انتخابات کے لیے بجٹ میں رقم مختص کردی
- کمپیوٹر پر واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کیلیے بھی میسج ایڈیٹ کی سہولت پیش
کرسمس: امن کا تہوار

کرسمس کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)
کرسمس کی آمد کے پہلے اتوار کے ساتھ ہی اس کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ پوری دُنیا میں کرسمس کو نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی حیثیت بھی حاصل ہوچکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کرسمس دنیا بھر کے ہر ملک کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کرسمس جہاں مسیحی قوم اپنے محلوں، بستیوں، گاؤں اور شہروں میں پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے، وہیں کرسمس کو سرکاری سطح پر بھی منایا جاتا ہے اور اعلیٰ سطح کے سرکاری عہدیدار کرسمس کیک کاٹ کر اور مسیحی قوم کو تحائف دے کر مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے حلقوں میں مسیحیوں کے ساتھ اس دن کو مناتی ہیں۔ یہ مذہبی ہم آہنگی اور مسلم مسیحی بھائی چارے کی عمدہ مثال ہے۔
پوری دنیا بالخصوص مغرب اور یورپ میں کرسمس کے موقع پر ہر شخص کو کرسمس کی خوشیوں میں شامل کرنے کےلیے اشیا ’’سیل میلہ‘‘ کی شکل میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ سیل میلہ صرف مسیحیوں کےلیے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے دنیا بھر کے تمام انسان فائدہ اٹھا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اس کے پیچھے مقصد یہی ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان کرسمس کی خوشی میں شامل ہوسکے۔
موجودہ سال کرسمس کی خوشیوں کو منانے کے ساتھ ساتھ ہمیں یاد کرنا ہوگا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے یورپ سمیت پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ کہیں جنگ کی طوالت عالمی جنگ کا عندیہ تو نہیں دے رہی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنگ میں گھرے ہوئے دونوں ملک مسیحی ہیں اور جہاں ان دنوں ممالک میں کرسمس کی رونقیں دوبالا ہونی چاہیے تھیں وہاں خاص طور پر یوکرین میں تاریکی، اندھیرے اور خوف و ہراس کا عالم ہے۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق یوکرین کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ ملکوں میں پناہ گزین ہے۔ مغرب اور یورپ کےلیے یہ یقیناً لمحہ فکر ہے کیونکہ صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ کہیں ان دونوں ملکوں اور ان کے اتحادیوں کی ہٹ دھرمی دنیا کو عالمی جنگ میں نہ دھکیل دے۔
اس لیے دنیا بھر کے انسانوں کو کرسمس کے موقع پر اپنی دعاؤں میں نہ صرف روس اور یوکرین بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین، کشمیر اور یمن کے لوگوں کے لیے بھی خصوصی طور پر دعائیں کرنے کی ضرورت ہے کہ ان تمام ممالک میں امن قائم ہو۔ دنیا بھر میں پرامن انسانوں کو اپنے اپنے حلقہ احباب میں اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک یادداشت بناکر اقوام متحدہ اور امن قائم کرنے والے عالمی فورمز کو بھجوانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی بھی ملک میں جنگ کے خواہش مند نہیں۔ وہ فوری طور پر ان تمام ملکوں میں جنگ بندی کی درخواست کرتے اور وہ بلا تخصیص و تفریق دنیا بھر میں امن چاہتے ہیں۔
میری رائے ہے کہ اگر دنیا بھر کے تمام امن پسند انسان اپنی اپنی سطح پر یہ سرگرمیاں شروع کردیں تو یقیناً جہاں بھی دنیا جنگ کی حالت میں ہے اور جن ملکوں میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں وہاں یقیناً شدت پسندوں اور جنگی عزائم رکھنے والوں کو دنیا میں امن قائم کرنے کےلیے سوچنے کا موقع ضرور ملے گا، جیسا کہ حال ہی میں ہمارے ملک میں پوری دنیا نے ایک منظر دیکھا کہ سوات کے عوام اپنے شہر میں امن قائم کرنے کےلیے نکل کھڑے ہوئے اور ان کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ انہوں نے امن قائم کرنے کےلیے بہت سی جانوں کا نذرانہ دے دیا ہے اس لیے اب لڑائی جھگڑے کا یہ سلسلہ ہر قیمت پر بند ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہی کرسمس کا پیغام ہے کیونکہ کرسمس کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے جس میں صرف خوشیاں ہیں۔ کرسمس کے ایام میں دکھ، تاسف، جنگ اور شدت پسندی کا بالکل خاتمہ ہوجاتا ہے۔ دوست دشمن، امیر غریب، طاقتور اور کمزور سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرسمس کے ایام میں نفرت، دشمنی، بدامنی، ظلم، جبر کا وجود اس دنیا سے گویا ختم ہوگیا ہے۔ لیکن نہایت دکھ ہوتا ہے کہ جیسے ہی کرسمس کا سیزن ختم ہوتا ہے تو دنیا گویا اپنی روش پر دوبارہ لوٹ آتی ہے اور پھر دوبارہ امن کو تاراج کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے معصوم پرامن لوگ خواہش کرتے ہیں کہ کرسمس کا سیزن سارا سال ہی ہو تاکہ دنیا کو کبھی بدامنی کی طرف لوٹنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔
کرسمس کے بارے میں جو پرامن دن کا تصور ہے ہم نے بطور امن پسند شہری اس بات کا ثبوت دینا ہے نہ صرف اس دن بلکہ آنے والے دنوں کو بھی پرامن بنائیں۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنائیں، دوسروں کی بلاتخصیص مدد کریں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور معاشرے کو امن کا گہوارا بنانے کےلیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دنیا میں آج بھی بدامنی کا دور دورہ ہے۔ قتل و غارت ہورہی ہے، دہشت گردی کا عفریت کہیں نہ کہیں سر اٹھاتا رہتا ہے، لالچ اور ہوس نے خاندانوں، محلوں، شہروں اور ملکوں کو تباہ کردیا ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی، چائلڈ لیبر، بانڈڈ لیبر کے تحت انسانوں کو غلام بنانے کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کرسمس کا تہوار پوری دنیا کے انسانوں کو ایک امید دیتا ہے۔ امن کی ترویج پر کام کرنے والوں کو نئے زاویوں سے سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ اس لیے آج ہم سب کےلیے موقع ہے کہ آئیں اور کرسمس کی حقیقی خوشی میں شامل ہونے کےلیے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں کیونکہ جب آپ خود تبدیل ہوں گے تو اپنے آپ میں تبدیلی بھی محسوس کریں گے۔ آپ امن کے داعی بن جائیں گے تو تب ہی آپ صحیح معنوں میں دوسروں کو کرسمس کی خوشی سے آگاہ کرسکیں گے۔ دعا ہے کہ آنے والا سال ایک پرامن سال ہو جس میں صحیح معنوں میں امن اور خوشحالی راج کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔