اللہ رکھا سے موسیقار اے۔ آر۔ رحمان تک

یونس ہمدم  اتوار 25 دسمبر 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

موسیقی کی دنیا میں یوں تو بہت سے نامور اور مایہ ناز موسیقاروں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے فلموں کو دل کش موسیقی کے حسن سے سجایا اور جگمگایا ہے، ان موسیقاروں میں سب سے زیادہ ابھر کر جو نام آیا تھا وہ موسیقار نوشاد کا تھا، جن کی دھنیں دلوں پر دستک دیتی تھیں۔

نامور ہدایت کار محبوب خان، اے آرکاردار اور کے،آصف کی شہرہ آفاق فلموں کی موسیقی کو فلمی دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی لیے موسیقار نوشاد کو موسیقار اعظم کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ انھیں مشرقی موسیقی سے بڑی دسترس حاصل تھی۔ پھر وہ دور بدلا، وقت بدلا اور برصغیر میں عام طور پر اور بولی ووڈ میں خاص طور پر آسمان موسیقی پر ایک اور ستارہ جگمگایا اور اس نے موسیقی کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کردی۔

اس کی دلکش دھنوں نے سارے ہندوستان میں اپنی دھوم مچا دی۔ اس موسیقار کا نام ہے اے آر رحمان۔ انھوں نے موسیقار اعظم کا خطاب اپنے نام کر لیا ہے۔ انھیں نہ صرف مشرقی موسیقی بلکہ مغربی موسیقی پر بھی پورا عبور حاصل ہے۔ فلمی موسیقی کے علاوہ کلاسیکل، نیم کلاسیکل موسیقی میں بھی مہارت میں ان کا بڑا نام ہے۔ عربی ، افریقی موسیقی اور یورپ کی موسیقی کو بھی انھوں نے جیسے گھول کر پی لیا ہے۔ انھیں ہندوستان کے سارے بڑے ایوارڈ، گرامی ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ کا بھی حق دار قرار دیا گیا ہے۔

اے۔آر۔رحمان کا گھریلو نام اللہ رکھا تھا اور ابتدا میں ان کا خاندان ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا، پھر 1988 میں ان کا خاندان مسلمان ہو گیا۔ باپ کا نام پہلے آر کے شیکھر تھا اور باپ نے بیٹے کا نام اے۔ایس دلیپ کمار رکھا تھا۔ دلیپ کمار 6 جنوری 1966 میں ہندوستان کے شہر چنائے میں پیدا ہوا تھا، جب یہ چار پانچ سال کا تھا، اس کو اپنے موسیقار باپ کو پیانو بجاتے دیکھ کر خود بھی پیانو سیکھنے کا شوق ہوا، اور یہ اپنے باپ کی غیر موجودگی میں چھپ چھپ کر پیانو بجاتا تھا۔ جب یہ چھ سال کو پہنچا تو پیانو بجانے میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔

ایک بار اس کا باپ پیانو پر کوئی نئی دھن بنا رہا تھا، وہ کسی کام سے پیانو چھوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا، اس کا کمسن بیٹا پیانو پر آیا اور باپ کی بنائی ہوئی نئی دھن بجانے لگا۔ باپ کو پیانو کی آواز آئی، وہ فوراً کمرے سے نکلا، اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا وہ نئی دھن بجا رہا ہے۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی۔

اس نے فوراً اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا، پھر اس کی ماں کی طرف اشارہ کرکے کہا’’ دیکھو تمہارا یہ بیٹا اس چھوٹی عمر میں بھی بڑا گنی ہے۔ یہ بھی موسیقار بنے گا ایک دن ، اور پھر سارے ہندوستان میں میرا نام روشن کرے گا‘‘ اور پھر اس دن کے بعد سے باپ نے بیٹے کو باقاعدہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سکھانے شروع کردیے تھے۔ جب بیٹا 9 سال کا ہوا تو اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔

اب سارے گھر کا بوجھ اس بیٹے پر ہی آن پڑا تھا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور بحیثیت میوزیشن تامل فلموں میں پیانو بجانے لگا۔ پھر کئی تامل فلموں کی موسیقی بھی دی، اسی دوران اس نے کمرشل گیت (جگلز) کمپوز کرنے شروع کیے اور پھر اس کے کمرشل گیتوں کی دھوم مچنی شروع ہوگئی۔ 1991 میں اس کے کافی کے ایک کمرشل گیت کو بڑا پسند کیا گیا اور پھر اس کمرشل گیت پر ایوارڈ دیا گیا۔

اس حوصلہ افزائی نے اس کے مزید آگے بڑھنے کے راستے کھول دیے پھر اس نے تامل زبان کی ایک فیچر فلم ’’روجا‘‘ میں موسیقی دی جس کی موسیقی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔وہ فلم بڑی ہٹ ہوئی تھی۔ پھر اس تامل زبان کی فلم کو ہندی (اردو) میں بھی بنایا گیا۔ اردو فلم ’’روجا‘‘ جب ریلیز ہوئی تو بولی ووڈ میں مقبولیت کی سند بن گئی۔ اس کی موسیقی نے لوگوں کے دلوں کو موہ لیا تھا۔ سارے گیت ہٹ تھے چند ایک کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ خاص طور پر مندرجہ ذیل گیت:

دل ہے چھوٹا سا

چھوٹی سی آشا

چاند تاروں کی چھونے کی آشا

آسمانوں پر اڑنے کی آشا

پھر فلم کا ٹائٹل گیت جس کے بول تھے:

روجا جانِ من

تو ہی میرا دل

تجھ بن ترسے نیناں

کیسے تم بن جینا

’’روجا‘‘ کے بعد جو دوسری فلم ہٹ ہوئی تھی اس کا نام ’’بمبئی‘‘ تھا۔ اس کے گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی، خاص طور پر یہ ایک گیت:

کہنا ہے کیا

یہ نیناں اک انجان سے جو ملے

چلنے لگے محبت کے یہ سلسلے

پھر اس کی فلم ’’تال‘‘ جس میں بولی ووڈ کی نامور ہیروئن ایشوریہ رائے ہیروئن تھی۔ اس پر فلمایا ہوا ایک گیت سپرڈپر ہٹ ہوا تھا۔ جس کے بول تھے:

دل یہ بے چین وے

رستے پہ نین وے

جندڑی بے حال ہے

آ جا سانوریہ آ۔آ۔آ

تال سے تال ملا

اس گیت کی بے مثال شہرت کے بعد بولی ووڈ کے بڑے بڑے فلم ساز اے۔آر۔رحمان کی موسیقی کے دیوانے ہوتے چلے گئے اور پھر شہرت کے دیوی اس عظیم موسیقار کے قدموں میں آ کے بیٹھ گئی تھی۔ اسی دوران نام ور اداکار، فلم ساز عامر خان نے جب 2001 میں اپنی ایک فلم ’’لگان‘‘ کے نام سے شروع کی تو اس کی موسیقی کے لیے عامر خان نے اے۔آر۔رحمان کا انتخاب کیا۔

’’لگان‘‘ کی کہانی سب سے ہٹ کر اور منفرد انداز کی کہانی تھی اور اس کی موسیقی کا انداز بھی منفرد ہی تھا۔ ’’لگان‘‘ بھی سپرہٹ ہوئی تھی اور اے۔ آر۔ رحمان کی مصروفیت دن رات بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی ایک قطار لگی رہتی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اے۔آر۔ رحمان اپنے گیتوں کی ریکارڈنگ کے لیے بمبئی نہیں جاتا۔ چنائے ہی میں اس کا میوزک اسٹوڈیو ہے۔

اپنے ہی اسٹوڈیو میں یہ فلموں کی دھنیں کمپوز کرتا ہے اور اپنے ہی اسٹوڈیو میں ان گیتوں کی ریکارڈنگ کرتا ہے اور اس اعتبار سے اے۔آر۔رحمان وہ واحد موسیقار ہے جو اپنی پسند سے فلموں کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے ہی اسٹوڈیو میں اپنے گیتوں کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ اور ایک مشہور محاورے کے مطابق جتنے بھی پیاسے ہیں وہ خود ہی کنوئیں کی طرف آتے ہیں، کنواں پیاسوں کی طرف نہیں جاتا ہے، اور سارے فلم ساز اے۔آر۔رحمان کی موسیقی سے مستفید ہوتے ہیں۔

بمبئی کے فلم ساز اے۔آر۔رحمان کی موسیقی کے گن گاتے ہیں۔ اس موسیقار نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ویسٹرن کلاسیکل موسیقی میں بھی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے۔ اے۔آر۔رحمان نے صوفی سانگ بھی اتنے خوبصورت کمپوز کیے ہیں کہ اس کے صوفی سانگ کی ایک الگ سے شہرت ہے۔ اسے گرامی ایوارڈ، گلوب ایوارڈ کے علاوہ چار بار نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔

فلم فیئر ایوارڈز کے ساتھ ہندوستان بھر سے موسیقی کے دیگر ایوارڈز اور قیمتی شیلڈز اس کے ایک کمرے میں بھری پڑی ہیں۔ اس نے پہلی بار برٹش فلم ’’ایلزبتھ‘‘ میں بھی شان دار میوزک دے کر سارے مغرب میوزک کے دل جیت لیے تھے۔ اس نے ساری دنیا کا دورہ کیا ہے، اس کے میوزک کنسرٹ میں ہزاروں لوگ آتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا موسیقار ہے۔ اس کا ایک شو ٹورانٹو میں بھی ہوا تھا جس کا بجٹ 25 ملین ڈالر کا تھا اور لوگوں نے اس شو کے ٹکٹ بلیک میں خریدے تھے۔

اس کا بیرونی ممالک میں ہر کنسرٹ مہنگا ترین کنسرٹ ہوتا ہے اور میوزک لورز مہنگے ٹکٹوں کے ساتھ اس کے شو میں جانے کے منتظر ہوتے ہیں اور اس کے شو کے انتظار میں رہتے ہیں۔ اے۔آر۔رحمان آج وہ موسیقار اعظم ہے جس کی موسیقی لاکھوں دلوں کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور لاکھوں لوگ اس کی موسیقی کے دیوانے ہیں۔ اس کی موسیقی کا انداز دیگر تمام موسیقاروں سے الگ ہے۔ اے۔آر۔رحمان کو برکل کالج آف میوزک کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف سے بھی اعتراف کمال ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

اے۔آر۔رحمان کو جب اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا تو اسٹیج پر آ کر اس نے انگریزی میں خیالات کا اظہار کرنے کے بعد اردو میں مشہور فلمی مکالمہ ادا کرتے ہوئے کہا’’ میرے پاس میری ماں ہے اور میں یہ ایوارڈ اپنی ماں کے نام کرتا ہوں۔‘‘ اے۔آر۔رحمان بے شمار چیریٹی کے بھی کام کرتا ہے۔ یہ ایک دلکش دھنوں کا کمپوزر ہونے کے ساتھ ایک صوفی منش اور درویش صفت انسان بھی ہے، اللہ اس کو شاد و آباد رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔