آج وہ سیاہ دن ہے

اقبال یوسف  جمعـء 4 اپريل 2014
جب ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھادیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

جب ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھادیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

” کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے” جب یہ نعرہ سندھ سے پختون خوا تک گونجتاہے تو 90ء کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل سوال کرتی ہے کہ بھٹو کیوں زندہ ہے؟ انہیں بتائیے کہ ہماری تاریخ کا یہ طرح دار کردار لازوال کیوں ہے، بھٹو کیوں زندہ ہے۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری1928 کو لاڑکانہ میں اپنی آبائی رہایش گاہ میں پیدا ہوئے۔ سندھی روایت کے مطابق مقامی مسجد میں لے جاکر تلاوت کلام پاک کے بعد اْن کے والد نے اعلان کیا کہ اْن کے بیٹے کو ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے پکارا جائے۔ ذوالفقارحضرت علیؓ کی تلوار کا نام تھا۔ جناب بھٹو کا ابتدائی بچپن لاڑکانہ اور کراچی میں گزرا۔ ان کے والد جناب شاہنواز بھٹو اپنی فیملی کے ساتھ 1938 میں بمبئی منتقل ہوئے تو جناب بھٹو کو ممبئی کے کیتھیڈرل ہائی اسکول میں داخل کرادیا۔ اس سے قبل وہ کچھ عرصے پونا میں زیر تعلیم رہے۔ جناب بھٹو اسکول کے زمانے میں ہی ملکی اور غیر ملکی سیاست اور تاریخ میں دل چسپی لیتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظم محمد علی جناح کو اس نوجوان طالب علم نے خط تحریر کیا جس میں لکھا” میں ابھی اسکول میں پڑھتا ہوں اس لیے اپنے مقدس وطن کے قیام میں عملی طور مدد نہیںکرسکتا لیکن وہ وقت آنے والا ہے کہ جب میں پاکستان کے لیے جان قربان کردوں گا ۔” یہ الفاظ بمبئی میں زیر تعلیم 16 سالہ طالب علم نے 26 اپریل1946 کو تحریر کیے، جس نے قائداعظم کے پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ بناکر 4 اپریل 1979 کو شہادت کا مرتبہ پایا اور تاریخ میں امر ہوگیا۔

جناب بھٹو نے امریکہ اور برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 1951 میں جب وہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تو ستمبر1951 میںلیڈی نصرت سے اْن کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد جناب بھٹو نے اپنی تعلیم جاری رکھی، لنکن ان سے بیرسٹری کی ڈگری لی، اْسی یونیورسٹی نے انہیں لیکچرر شپ کی پیش کش کی۔ اس دوران اْن کو والد کی علالت کی اطلاع ملی تو وہ فوراً واپس پاکستان آگئے۔ انہوں نے واپس لندن جانے کا ارادہ ترک کردیا اور پاکستان میں رہ کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا او ر کراچی میں وکالت شروع کی۔ اْن کا پہلا ہی مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوا، جس کا فیصلہ سناتے ہوئے انگریز چیف جسٹس نے خلاف معمول جناب بھٹو کی ذہانت و قابلیت کی تعریف کورٹ روم میں ان الفاظ میں کی،”میں بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے کمرہ عدالت میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسٹر بھٹو بہت جلد اس ملک کے بڑے نامور اور کام یاب وکیل بن جائیں گے”۔

دنیا بھرنے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی قوم کے وکیل بن کر ہر بین الاقوامی فورم پر عالم اسلام اور تیسری دنیا کے مظلوم عوام کا مقدمہ لڑتے رہے۔1955 میں ون یونٹ کے قیام کے خلاف سندھ یونٹ فرنٹ قائم کیا اور ون یونٹ کے خلاف تقریر کیں اْس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو تھے۔ مغربی پاکستان کے حکمراں اپنے مفاد کے خلاف بلند ہونے والی آواز کیسے برداشت کرتے۔ انہوں نے جناب بھٹو کو پابند سلاسل کرنے کا فیصلہ کیا مگر سندھ میں بھٹو خاندان کے سیاسی اثر رسوخ کے پیش نظر ایوب کھوڑو کو اپنے احکامات واپس لینے پڑے۔

ہر چند کہ ان دنوں جناب بھٹو عملی سیاست میں آنے سے گریز کررہے تھے لیکن حکمرانوں کو جناب بھٹو کی بے پناہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوچکا تھا، چنانچہ 1957 میں اقوام متحدہ جانے والے وفد میں جناب بھٹو کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے ” امن اور جارحیت” کے موضوع اپنی پہلی عالمی تقریر کی۔ اس تقریر کی صدائے بازگشت ابھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں گونج رہی تھی کہ اْن کواپنے والد کے انتقال کی خبر ملی اور وہ فوراً وطن واپس آگئے۔

مارچ1958 میں بحری سرحدوں کے سلسلے میں جنیوا میں منعقد ہونے والی ایک اور عالمی کانفرنس میںجناب بھٹو کو پاکستا ن کی نمائندگی کا موقع ملا جہاں اْنہو ں نے پانچ تقریریں کیں۔ ان تقریروںمیں جو کچھ جناب بھٹو نے کہا دس سال بعد عالمی قوتوں کو وہی کرنا پڑا اور خود پاکستان کی بحری سرحدوں کی توسیع کا فیصلہ بھی اْسی زمانے کے نوجوان بھٹو کی عملی کاوش ہے۔

اکتوبر1958 میں ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کسی سفارش پر شامل نہیں کیے گئے، بلکہ اْس حکومت کی مجبوری بن گئے تھے۔ ایوب خان کی پہلی دس رکنی کابینہ کے اندر جرنیل اور کرنیل تھے۔ اْس کابینہ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو سب سے کم عمر لیکن سب سے زیادہ قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بے داغ سیاسی کردار اور عالمی اْمور پر دسترس رکھنے والے وزیر تھے۔ پورے برصغیر میں کسی کو اتنی کم عمری میںمرکزی وزارت میں شامل نہیں کیا گیا۔ انہیں پہلے وزارت تجارت کا قلم دان دیا گیا، پھر وزارت تیل، گیس اور مدنی ذخائر کا اضافی چارج دیا گیا۔ اْس کے بعد جناب بھٹو کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی اور پاکستان کا پہلا اٹامک ری ایکڑ قائم کرنے میں جناب بھٹو نے ذاتی طور کردار ادا کیا۔ 1961 میں جناب بھٹو کو وزارت اطلاعات، بجلی و آبپاشی کی وزارت دی گئی، جس کے تحت انہوں نے زراعت کی ترقی کے لیے 7500 میل لمبی نہروں کی تعمیرکی اور 31000 ٹیوب ویل کی تنصیب کا انقلابی کام کردکھایا ۔

1961  میں پنڈت نہرو نے پاکستان پر کشمیر میں جارحیت کا الزام لگایا تو جناب بھٹو نے پاکستان کی طرف سے بھر پور جواب دیا۔ اْن دنوں وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ اپنی علالت کی وجہ سے غیرفعال تھے، چنانچہ جناب بھٹو وزیر خارجہ نہ ہوتے ہوئے خارجی امور پر سرگرم عمل تھے۔ 1962 میں جناب بھٹو کو انڈسٹری اور قدرتی وسائل کی وزارت دی گئی۔ وہ خارجہ پالیسی پر ایک فعال ترجمان بن چکے تھے اور چین کی حمایت و دوستی کے لئے بتدریج آگے بڑھ رہے تھے۔ 1963 میں محمد علی بوگرہ کے انتقال کے بعد جناب بھٹو کو مکمل طور پر وزارت خارجہ کا قلم دان دے دیا گیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے چین کا تاریخی دورہ کیا اور چین سے پاکستان کی دوستی کے معمار بن گئے۔ بھٹو کی کام یاب پرجوش حکمت عملی سے چین ہمار ا عظیم دوست بن گیا۔

6 ستمبر 1965 کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ افواج پاکستان سرحدوں کا دفاع کر رہی تھیں اور جناب بھٹوعالمی فورم پر بھارت کے خلاف نبردآزما تھے۔ 22 دسمبر1965 کو سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے انہوں نے تاریخی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا،”ہم ہزار سال تک لڑیں گے، ہم اپنے دفاع میں لڑیں گے، ہم اپنے وقار کے لئے لڑیں گے ہم زندگی کو نشوونما دینے والے لوگ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ ہم نے اپنے وقار کے لئے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی خاطر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔” ان دنوںجناب بھٹو کی تقریریںریڈیو پر نشر کی جاتی تھیں۔ یہ تقریریں انگریزی میں ہوتی تھیں لیکن بازاروں میں، ہوٹلوں پر، دکانوں جہاں ریڈیو پر تقریر سنائی جاتی لوگوں کے ہجوم لگ جاتے۔

لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے مگر آواز کے زیر و بم سے بھٹوکے لہجے سے جانتے تھے کہ یہ پاکستان کے دل کی آواز ہے اور واقعی بھٹو ہر دل کی آواز بن گئے۔ اسی طرح 23 ستمبر 1965 کو جناب بھٹو نے ایک بار پھر سلامتی کونسل سے خطاب کیا اور اس بار وہ اسی طرح بھارتی وزیرخارجہ پر برسے کہ بھارتی وفد اجلاس سے بھاگ گیا۔ معاہدہ تاشقند کے بعد جناب بھٹو نے جب ایوب حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تو ایوبی حکومت نے یہ خبر جاری کر دی کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی علالت کے باعث رخصت پر چلے گئے لیکن دنیا دیکھ رہی تھی کہ بیمار بھٹو ہوائی جہاز کے بجائے ٹرین کا تکلیف دہ سفر اختیار کر رہا ہے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر بھٹو کو رخصت کرنے صرف دوافراد آئے، ایک غلام مصطفی کھر اور دوسرے غلام مصطفی جتوئی۔ لیکن جب یہ ٹرین لاہور پہنچی تو دو لاکھ افراد نے اْن کا عظیم الشان استقبال کرکے ایوب حکومت کو رخصت کر نے کا عندیہ دے دیا۔

جناب بھٹو کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک گئے اور جلد ہی واپس آگئے اور انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا۔ دوستوں سے طویل صلاح و مشورے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی 29 نومبر 1967 کو لاہور میں جناب ڈاکٹر مبشر حسن کی رہایش گاہ پر ہونے والے کنونشن میں قائم کی گئی۔ پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی پارٹی کو منظم کرنے کے لئے جناب بھٹو نے عوامی رابطے کی مہم شروع کی اور بہت مختصر عرصے میں مغربی پاکستان کی سب سے بڑی ترقی پسند پارٹی بن گئی۔ جناب بھٹو کی اس سرگرم جدوجہد سے خائف ہوکر مغربی پاکستان کے گورنر ریٹائرڈ جنرل موسیٰ نے جناب بھٹو کو گرفتار کر لیا تو بیگم نصرت بھٹو پہلی بار 1968 میں عملی طور پر سیاست میں آئیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ائر مارشل اصغر خان نے بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ جناب بھٹو کے لئے ایک بڑے جلوس میں شرکت کی۔

بالاآخر 25 مارچ 1969کوایوب خان نے حکومت یحییٰ خان کے حوالے کی اور ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد سیاسی قیدی رہا کردیے گئے اور سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔ یہ وہ دور ہے کہ ایک طرف فوجی حکومت، دوسری طرف رجعت پسند سیاسی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں، تیسری جانب زرد صحافت تھی، اور چوتھی جانب مشرقی بازو میں احساس محرومی کی چنگاریاں بتدریج آگ کی صورت اختیار کر رہی تھیں۔ جناب بھٹونے 4 جنوری 1970 کو کراچی کے نشتر پارک سے چاروں محازوںپر جنگ کا آغاز کیا اور 7 دسمبر 1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی جس کا ا نقلابی منشور عوام کا اعتماد حاصل کرچکا تھا۔

20 دسمبر 1970 کو شکستہ پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریتی منتخب پارٹی کا سربراہ ہونے کے سبب منتقل کر دیا گیا۔ جناب  بھٹو کی حکومت کے پانچ سال 6 ماہ 15دن کی تاریخ ان عظیم کارناموں پر مشتمل ہے کہ جن کی وجہ سے آج تک پاکستان سیاسی، اقتصادی، اور سماجی طور پر قائم و دائم ہے۔ پاکستان کو ایک متفقہ آئین، 90 ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ دشمن سے واپس ملا۔ پارٹی کے منشور کے مطابق انہوں نے انقلابی صنعتی اقتصادی زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا آغاز کیا، اسلامی سربراہ کانفرنس محنت کشوں، طالب علموں، کسانوں کے لیے دور رس انقلابی اقدامات، شہروں کی تعمیروترقی کے لاتعداد منصوبے، پاکستان اسٹیل مل کا قیام، پورٹ قاسم کا قیام، 22 خاندانوں کے ہاتھوں سے دولت لے کر ہزاروں مڈل کلاس تاجروں اور صنع تکاروں کے لیے راستے پیدا کرنا، متعدد ممالک سے تجارتی اور صنعتی اور ترقیاتی معاہدے اور پاسپورٹ کو عام کر کے پاکستا ن کی افرادی قوت کو بیرون ملک روزگار فراہم کرنے کی عظیم الشان پالیسی اس دور میں شروع کی گئی۔

بھٹو شہید کے دور میں1973 سے جون 1977 تک پانچ لاکھ سے زائد افراد بیرون ملک ملازمتوں کے لئے گئے اور اسی پالیسی کے نتیجے میںآج تقریباً 30 لاکھ افراد بیرون ملک خدمات انجام دے کر زر کثیر وطن ارسال کرتے ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس طرح شروع کیا کہ ان کے بعد آنے والا کوئی حکمراں اْسے رول بیک کرنے کی جرات نہ کرسکا اور اسی کی سزا ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی بلکہ بھٹو خاند ان کو دی گئی۔ بھٹو دور کی آزاد خارجہ پالیسی اس قدر شاندار تھی کہ نہ صرف اسلامی دنیا کے تمام ممالک، تیسری دنیا ممالک بلکہ یورپی ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات تھے۔ آپ کے ٹی وی میں رنگ بھٹو کے دور میں آئے، آپ کی اہم قومی شناختی دستاویز آپ کا شناختی کارڈ بھٹو دور میں جاری کیا گیا۔ آج کی جمہوریت بھٹو شہید کا تحفہ ہے کہ اگر 1973 کا متفقہ آئین نہ ہوتا تو ہم کہاں ہوتے۔ اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اس اعتراف کے بعد کہ، ہم نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ ضیاء الحق کے دبائو میں کیا، بھٹو کی شہادت ثابت ہوچکی ہے۔ اس لیے بھٹو زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔