افریقی اور یورپی ملکوں کی سربراہ کانفرنس

ایڈیٹوریل  جمعرات 3 اپريل 2014
سربراہ کانفرنس میں وسطی افریقی ریاست کے لیے امن فوجی دستے بھیجنے کے فیصلہ پر بھی غور و خوض کیا گیا ...فوٹو:فائل

سربراہ کانفرنس میں وسطی افریقی ریاست کے لیے امن فوجی دستے بھیجنے کے فیصلہ پر بھی غور و خوض کیا گیا ...فوٹو:فائل

یورپی یونین اور افریقی ممالک کی سربراہ کانفرنس برسلز میں بدھ کو شروع ہوئی جس کا مقصد دنیا بھر کے سب سے غریب افریقی ممالک میں مغربی ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لینا تھا۔ تاہم یہ سربراہ کانفرنس آغاز میں ہی اختلافات کا شکار ہو گئی جب دو افریقی لیڈروں زمبابوے کے رابرٹ موگابے اور جنوبی افریقہ کے جیکب زوما نے دعوت ناموں کی فہرست پر اعتراض کے باعث کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے افریقی ممالک کو دنیا کے غریب ترین ممالک قرار دیا ہے تاہم اس ایجنسی نے افریقی ممالک کی غربت کی اصل وجہ پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ افریقی ممالک کو اپنی نو آبادی بنانے والی مغربی طاقتوں نے اس براعظم کو اندھا دھند لوٹ مار کے ذریعے اس کے قیمتی ذخائر سے بہت حد تک محروم کر دیا۔ جن ممالک میں قیمتی معدنی خزانے تھے وہ وہاں سے منتقل ہو کر غاصبوں کے ملکوں میں پہنچ گئے۔ اور سوڈان کے تیل کے بھاری ذخائر پر قبضے کے لیے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیبیا کے تیل پر قبضے کے لیے صدر کرنل قذافی کو قتل کرا دیا گیا۔

زمبابوے اور جنوبی افریقہ مدتوں سامراجیت کے شکنجے میں جکڑے رہے۔ سربراہ کانفرنس میں وسطی افریقی ریاست کے لیے امن فوجی دستے بھیجنے کے فیصلہ پر بھی غور و خوض کیا گیا ہے۔ اس خطے کے لیے تعلیم اور توانائی کی ضروریات کو اولین حیثیت دی جانی چاہیے۔ لیکن کیا یورپی ممالک واقعی افریقہ کی غربت دور کرنا چاہتے ہیں یا اس سربراہ کانفرنس سے ان کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں اس کا اندازہ بعد میں ہی ہو سکے گا۔اس وقت براعظم افریقہ بدنظمی‘ انتشار اور خانہ جنگی کا شکار ہے‘ اقوام متحدہ کے فوجی مشن زیادہ تر افریقی ملکوں میں ہی تعینات ہیں۔ شمالی افریقہ ہو‘ وسطی افریقہ ہو یا مشرقی افریقہ ہر جگہ غربت و انتشار موجود ہے‘ براعظم افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود یہاں غربت چھائی ہوئی ہے‘ یورپی ممالک‘ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جب تک یہاں اپنا استحصال بند نہیں کرتے‘ یہ براعظم خوشحال نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔