سینچری سے چلے صفر تک پہنچے

انتظار حسین  جمعرات 3 اپريل 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

میرؔ کی شاعری پر ایک محاکمہ ملاحظہ فرمائیے۔ پستش بغایت پست۔ بلندش نہایت بلند۔ مطلب یہ کہ میرؔ کی شاعری جہاں پست ہے وہاں غایت درجہ پست ہے۔ جہاں بلند ہے وہاں حد سے بڑھ کر بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔

یہ محاکمہ سن کر ہمارے ایک دوست چونکے ‘ معنی خیز نظروں سے ہمیں دیکھا اور بولے کہ لگتا ہے کہ کسی ظالم نے یہ محاکمہ پاکستانی کرکٹ پر کیا ہے۔ تم ٹھہرے غالبئے یہ محاکمہ میرؔ کی شاعری پر چِپکا دیا ۔ ہم نے اس عزیز کو بتایا کہ یہ تو میرؔ کے کسی ہمعصر ہی کا بیان ہے۔ اس کی فارسی چغلی کھا رہی ہے کہ یہ آج کا آدمی نہیں۔ میرؔ کے زمانے کا آدمی بول رہا ہے۔

یہ سن کر وہ عزیز مزید حیران ہوا۔ بولا کہ پھر تو کمال ہو گیا۔ آخر میرؔ کے اس ستمگر ہمعصر کے پاس کونسی ایسی دور بین تھی کہ اُس نے اُس زمانے کی دلی میں بیٹھے بیٹھے آج کے ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں کے لچھن دیکھ لیے ان کے کھیل پر کیسا بلیغ تبصرہ کیا ہے۔

ویسے اس مبصر کی دور رس نظر پر حیرت ہمیں بھی ہے۔ مگر زیادہ حیرت تو ہمیں اپنے کرکٹ کھلاڑیوں پر ہے۔ کیا کمال کے کھلاڑی ہیں۔ جب کھیلنے پر آتے ہیں تو ایسا کھیلتے ہیں کہ ان کے چھکے بام ثریا تک پہنچتے ہیں۔ جب ڈھیر ہوتے ہیں تو ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کس پھرتی سے ڈھیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اتنی پستی میں گرتے ہیں اور اس کمال سے کہ پاتال سے پہلے کہیں رکتے ہی نہیں۔

ایک دوست بولا کہ جب میں یہ میچ دیکھ رہا تھا تو میری ایک آنکھ رو رہی تھی اور ایک آنکھ ہنس رہی تھی ہم نے پوچھا کہ عزیز تو کیا دیکھ کے رویا اور کیا کچھ دیکھ کر ہنسا۔ وہ بولا کہ ویسے تو اس میچ کے نام میری تقدیر میں گریہ ہی لکھا تھا۔ لیکن جس کھلاڑی نے ابھی پچھلے میچ میں سینچری بنائی تھی اور اس جیت کا سہرا اکیلا اس کے سر بندھا تھا اسے میری دیدۂ عبرت نے صفر پر آؤٹ ہوتے دیکھا تو وہ ہنسی یہ سوچ کر کہ کل اس نے اپنے نکتہ چینوں پر بہت طنز و تعریض کی تھی اور اپنی سینچری انھیں کے نام کر دی تھی مگر اب انھیں نذر کرنے کے لیے اس کے پاس بس ایک صفر ہے اور اللہ کا نام ہے۔ اس پر تو عاقلوں نے کہا ہے کہ بڑا بول مت بولو۔ آسمان کا تھوکا سیدھا حلق میں آتا ہے۔

مگر ہمارے کرکٹ کے مبصر بھی اپنی جگہ صاحب کمال ہیں۔ جب ٹیم میچ جیتتی ہے تو انھیں اس ٹیم میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ پھر جی بھر کے اس پر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ جب ہارتی ہے تو انگشت بدنداں ہوتے ہیں کہ اچھا یہ کھلاڑی اتنے اناڑی ہیں کہ کرکٹ کی الف ب ت بھی نہیں جانتے۔

ہم نے اس ہارے ہوئے میچ پر میانداد کا تبصرہ سنا ہے۔ ادھر اس تبصرے پر ہم خود انگشت بدنداں ہیں۔ پچھلے جیتے ہوئے میچ پر بھی ان کا تبصرہ سنا تھا۔ یہی کھلاڑی انھیں کتنے صاحب کمال نظر آ رہے تھے۔ اس وقت انھوں نے یہ سوچنے اور بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ایک کھلاڑی کی سینچری نے جیت کی راہ ہموار کر دی۔ باقی دوسرے کھلاڑی کیسا کھیلے۔ یہ اب انھوں نے ان کے کھیل کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا کہ جس طرح وہ بے سوچے سمجھے گیندوں کو ہٹ لگانے کی کوشش کر رہے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نوخیز کھلاڑی تو گلیوں میں کرکٹ کھیلتے کھیلتے ادھر نکل آئے ہیں اور یہاں کسی نے ان کی تربیت پر دھیان ہی نہیں دیا۔ کرکٹ کی ا ب ت بھی انھیں نہیں آتی۔ بین الاقومی مقابلہ میں اترے ہوئے ہیں اور کرکٹ کی الف ب ت سے بھی نا آشنا۔ مطلب یہ ہوا کہ اناڑی ہیں تُکا لگ گیا تو سینچری بنا لی‘ نہ لگا تو زیرو پر آوٹ۔

اگر ایسا ہے تو ان کی تربیت کے لیے جو بڑی تنخواہوں پر ماہر لا کر بٹھائے گئے ہیں وہ کیا بس سفید ہاتھی ہیں۔ یا وہ تو انھیں بہت سکھاتے پڑھاتے ہیں۔ مگر سیکھنے والے کوڑھ مغز ہیں۔ فیلڈ میں اتر کر سیکھا ہوا سارا سبق بھول جاتے ہیں۔

خیر قصہ مختصر‘ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ مگر اس باب میں میرؔ نے جو بات کہی ہے وہ قابل توجہ ہے ؎

فتح و شکست نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

مطلب یہ ہے کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے مگر دل ناتواں مقابلہ تو ڈھنگ سے کرے۔ اس کے بعد بھی اگر شکست ہو جائے تو یہ کہہ کر دل کو تسلی دی جا سکتی ہے کہ ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طِفل کیا کرے گا جو گُھٹنوں کے بَل چلے

مگر یہاں تو دل ناتواں نے اپنی ناتوانی کی اس طرح چغلی کھائی کہ دل کو تسلی دینے کے لیے کوئی بہانہ ہی میسر نہیں آیا۔

اچھا ایک بار پھر قصہ مختصر۔ آخر یہ کھیل ہے۔

پاکستان والے اگر کرکٹ کوکھیل نہیں سمجھتے اور قومی زوال و اقبال کا معرکہ جانتے ہیں تو یہ ان کی سادہ دلی ہے۔ جن قومی امور کو، اس کے معاملات و مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے انھیں وہ کھیل سمجھتے ہیں اور کھیل سے وہ قومی تقدیر کی تعبیر لیتے ہیں۔ مگر کرکٹ بہر حال ایک کھیل ہے۔ اسے کھیل ہی سمجھو مگر یہ دیکھو کہ اس وقت موسم ہمارے ساتھ کیا کھیل رہا ہے۔ ایک بارش ہے نبٹتے ہیں اور دھوپ بھی اس کے بعد چٹخی دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ گلابی جاڑے کی مدت پوری ہوئی۔ بس اب گرم کپڑے سمیٹ کر الگ رکھو اور ہلکے پھلکے ہو جاؤ۔ یہ کرنے لگتے ہیں کہ پھر بارش سر پہ آن کھڑی ہوتی ہے اور ایسا کھیل کھیلتی ہے کہ گرم کپڑے صندوقوں میں بند کرتے کرتے ہم پھر باہر نکال لیتے ہیں اور ایک دفعہ ہو‘ دو دفعہ ہو‘ تین دفعہ ہو مگر یہ کھیل تو مستقل جاری ہے۔ لو کل رات پھر بادل گھر کر آئے اور جب صبح ہماری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ادھر ہم سوتے رہے اور یہاں جل تھل ایک ہو گئے۔

پاکستان میں دو چیزیں ایسی ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک کرکٹ اور دوسرے موسم۔ سب پہ اعتبار کرو مگر پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی موسم پر کبھی اعتبار مت کرو۔ ایک یار نے کہا کہ اس میں پاکستان کی ایک اور شے شامل کر لو۔ ہم نے پوچھا‘ وہ تیسری شے کونسی ہے۔ جواب ملا کہ پاکستانی سیاست۔ تب ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یَک نہ شُد دو شُد۔ اور اب سہ شُد۔ ایک غریب ملک پر بے اعتباری کا اتنا بوجھ۔ ایک گٹھر‘ دوسرا گٹھر‘ اور اب تیسرا گٹھر۔

خیر جہاں تک موسم کا معاملہ ہے تو یہ بہار کا موسم ہے اور اب تو اپریل لگ چکا ہے اور ایک انگریزی شاعر کے بقول۔ کہ اپریل سال کے مہینوں میں سب سے ظالم مہینہ ہے۔ خیر موسم بہار کا مہینہ ہجر کے ماروں کے لیے بہت ظالم مہینہ ہوتا ہے۔ مگر ہمارے تمہارے لیے یہ موسم بہار کی اٹکھیلیاں ہیں۔ یا کہہ لو کہ ایک موسم جانے لگا ہے دوسرا موسم آنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ دونوں آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔
تو یہ موسمی اٹکھیلیاں یا موسمی آنکھ مچولی‘ یہ تو موسم بہار کا تحفہ ہے۔ مگر پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی سیاست کی بے اعتباری‘ یہ واقعی ہم پر بھاری پڑتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔