انتہا پسندی کے محرکات!

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 4 اپريل 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، زندہ رہنے کی خواہش کتنی شدید ہوتی ہے،اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 100 سال سے زیادہ عمرکا بوڑھا بھی زندگی سے چمٹا رہتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جتنا زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتا ہے زندہ رہے، جان لیوا بیماریوں سے بچنے کے لیے اگر انسان کو گھر بار دولت جائیداد کی قربانی دینی پڑے تو وہ خوشی سے دیتا ہے،اوراپنی جان بچانے کے لیے دوسروں کی جان لینا پڑے تو وہ دوسروں کی جان لینے سے ذرا نہیں ہچکچاتا کیوں کہ جان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی، ایسی قیمتی اور عزیز ترین جان کو اگر کوئی ہنستے ہوئے ضایع کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو دماغ میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جان کی اس ارزانی کا سبب کیا ہے۔

دنیا میں جہاں جہاں دہشت گردی کا کلچر موجود ہے وہاں خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خودکش حملوں کا کلچر بہت مستحکم ہے، اب تک ہزاروں لوگ خودکش حملوں کے ذریعے اپنی زندگی ختم کرچکے ہیں جب ایک شخص بارودی جیکٹ اپنے پیٹ سے باندھ کر یا بارود بھری گاڑی میں بیٹھ کر اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے تو وہ پوری طرح اس حقیقت سے با خبر ہوتا ہے کہ دوسروں کی جان لینے کے ساتھ ساتھ پہلے اسے اپنی جان دینی پڑے گی اور وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیںگے لیکن وہ اس بہیمانہ خودکشی کے لیے دل و جان سے تیار رہتا ہے، جب اس المیے پر نظر ڈالیں تو اس کے تین بنیادی محرکات نظر آتے ہیں۔

پہلا محرک یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عظیم مقصد کے لیے جان دے رہا ہے، اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جان دینا ایک معمولی بات ہے، پھر جو لوگ اسے جان دینے پر آمادہ کرتے ہیں وہ جان دینے والے کو اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ جیسے ہی وہ یہ فرض ادا کرے گا سیدھے جنت میں جائے گا، چوں کہ اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا خودکشی کو مسلمان جنت میں جانے کا نہیں جہنم رسید ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے خودکشی کے نام ہی سے کان کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج دنیا کے کئی ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں میں خودکش حملوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کی جان لینے اور اپنی جان دینے کا سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے پاکستان، افغانستان، عراق اور کچھ افریقی ممالک نمایاں ہیں۔دنیا میں ایٹمی ہتھیار آج سب سے زیادہ خطرناک مانے جاتے ہیں لیکن خودکش حملوں سے وہ ملک بھی پریشان ہیں جن کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے موجود ہیں۔ 9/11 کے المیے یا ’’تاریخی کارنامے‘‘ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ کارنامہ اسی لیے ممکن ہوا کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ خودکش حملوں میں عموماً ایسے کم عمر بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے جنھیں نہ زندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے نہ وہ خدا کی دی ہوئی اس نعمت کی قدر سے واقف ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف ایک دھندلا سا تصور موجود ہوتا ہے اور ذہن میں یہ پختہ خیال رہتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑا نیک کام انجام دینے جارہے ہیں، جس کا صلہ جنت کی شکل میں انھیں ملے گا۔

لیکن یہ کم عمر اور نوجوان بچوں کو کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور خودکشی کرنیوالے کے لیے جہنم ہی واحد ٹھکانا ہوگا۔اس قسم کی خودکشی کرنے والوں کا تعلق عموماً قبائلی نظام سے ہوتا ہے جہاں تعلیم نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، جہاں تعلیم ہوتی ہے وہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے اور جہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے وہاں جہل غائب ہوجاتا ہے اور جہاں جہل نہیں ہوتا وہاں خودکشی جیسی قبیح حرکات نہیں ہوتیں۔ قبائلی معاشروں میں ’’مشروں‘‘ کو حکم آخری سمجھا جاتاہے اور وہ ساری قبیح حرکتیں جس میں جان لینا اور جان دینا بھی شامل ہے، ان معاشروں کے لوازمات ہوتے ہیں۔ کسی بھی شہری اور مہذب معاشرے کے افراد کسی قیمت پر خودکش حملوں جیسی وحشیانہ موت کو گلے لگانے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان غیر انسانی حرکات کے مراکز وہ قبائلی علاقے ہیں جہاں علم ناپید ہے، عقل کا استعمال متروک ہے، بظاہر یہ خرابی قبائلی معاشرت کی نظر آتی ہے لیکن اس کے اصل مجرم وہ حکمران طبقات ہیں جو ان علاقوں میں تعلیم کو عام کرنے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور اب بھی انھیں یہ احساس نہیں کہ خودکش حملوں کو روکنے کا منطقی طریقہ علم کا پھیلاؤ ہے۔ دہشت گردی کے فروغ کا دوسرا بڑا محرک کرائے کے قاتل ہیں۔ دہشت گرد طاقتیں دنیا بھر میں جہاں جہل کو اپنے غیر انسانی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں وہیں دولت کو بھی بے دریغ اور بھرپور طریقے سے استعمال کررہی ہیں۔

دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں وہ لوگ بھی استعمال ہورہے ہیں جو ایک بھاری رقم کے عوض کسی کی جان لینے میں ذرا نہیں ہچکچاتے، دہشت گرد طاقتوں نے دولت کے حصول کے لیے کئی راستے نکال لیے ہیں، منشیات اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت سے یہ طاقتیں اربوں روپے کمارہی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی بڑی بینک ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان اور بھتے کے ذریعے بھی کروڑوں روپے حاصل کیے جارہے ہیں اور اس حرام اور مفت کی دولت کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں دھڑلے سے استعمال کیا جارہاہے،عادی مجرموں، کرائے کے قاتلوں کے علاوہ غربت، بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے وہ لوگ بھی بھاری معاوضے کے بدلے انسانوں کا خون بہانے پر مجبور ہیں جن کے پاس زندہ رہنے کے لیے کوئی دوسرا وسیلہ نہیں۔ اگر قتل کا بھاری معاوضہ حاصل ہو تو مجبور انسان بھی اس ننگ انسانیت کام کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کے فروغ کا یہ دوسرا بڑا محرک ہے۔

دہشت گردی میں فروغ کا تیسرا بڑا محرک سزا کے خوف سے آزادی ہے۔ یہ کس قدر حیرت اور شرم کی بات ہے کہ ہر روز سیکڑوں دہشت گرد اور عادی مجرم پکڑے جارہے ہیں۔ جن کی خبروں سے میڈیا بھرا رہتا ہے لیکن ان پکڑے جانے والوں کا نہ ٹرائل ہوتا ہے نہ انھیں ان کے جرائم کے تناسب سے سخت ترین سزائیں دینے کی کوئی خبر بھی میڈیا میں نہیں آتی ہے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران اخباری رپورٹوںکے مطابق 13 ہزار سے زیادہ ملزمان گرفتار ہوئے، ان میں دہشت گرد بھی ہیں، ٹارگٹ کلر بھی، بینکوں کو لوٹنے والے بھی، اغوا برائے تاوان کے ملزم بھی، بھتہ خور بھی، لیکن ان تیرہ ہزارگرفتارشدگان میں سے تیرہ کو بھی سزا ملنے کی کوئی خبر ہی میڈیا میں نہیں آئی۔ جب کہ یہ ملزمان درجنوں قتل کا اعتراف بھی کررہے ہیں اور اسلحے کے انبار بھی ان کے قبضے سے برآمد ہورہے ہیں جس معاشرے میں جرائم کو روکنے کے منطقی طریقوں کا بھی استعمال نہ ہو اور مجرم سزا کے خوف سے بھی آزاد ہوں تو ایسا معاشرہ جرائم اور دہشت گردی کا گڑھ ہی بنے گا اور خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ہمارا ملک اس حوالے سے سر فہرست نظر آتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔