گورنر جنرل ہاؤس سے آرمی ہاؤس تک

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 4 اپريل 2014

قائد اعظم کے انتقال کے بعد جب خواجہ ناظم الدین پاکستان کے گورنر جنرل ہوئے تو انھوں نے اپنا پرسنل اسٹاف تبدیل نہیں کیا۔ چند ہی روز میں تمام عملے سے ذاتی ملاقاتیں کرلیں اور انھیں یہ معلوم ہوگیا کہ کون کیا کرتا ہے۔ محمد یوسف بدستور گورنر جنرل کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے اور فخر عالم زبیری ان کے پرسنل اسسٹنٹ۔ ایک روز خواجہ صاحب نے فخر عالم کو بلایا اور ان سے کہنے لگے ’’زبیری صاحب! آپ کے خیال میں میرے بینک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہوں گے؟‘‘  فخرعالم گورنر جنرل کا یہ سوال سن کر حیران ہوگئے۔ وہ کیا کہہ سکتے تھے۔ خاموشی کے سوا ان کے پاس اس کا کیا جواب ہوسکتا تھا۔ پھرخواجہ صاحب نے کہا ’’مجھے اپنے کزن کو ایک خط لکھوانا ہے جو ڈھاکہ میں رہتا ہے لیکن یہ خط میرے اور آپ کے درمیان راز رہے گا۔‘‘

خواجہ صاحب نے خط لکھوایا کہ میرے مالی حالات خاصے خراب ہیں۔ حکومت سے جو کچھ ملتا ہے وہ سب خرچ ہوجاتا ہے بلکہ میرے پاس جو تھوڑا بہت اثاثہ تھا وہ بھی خرچ ہوگیا ہے۔ میرا بینک بیلنس صفر ہے۔ آپ فوراً دس ہزار روپے کا ڈرافٹ مجھے بھیج دیجیے۔‘‘ فخرعالم زبیری خط لکھ کر گورنر جنرل کو سنا چکے تو انھوں نے اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر فخر عالم کو دیے اور کہا کہ یہ میرا ذاتی خط ہے۔ اس کی رجسٹری کرا دیجیے۔ سرکاری خرچ پر نہ بھیجیں اور کسی سے بھی اس کا ذکر نہ کریں۔ اس کی آفس کاپی مجھے دے دیں۔اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’گورنر جنرل ہاؤس سے آرمی ہاؤس تک‘‘ میں اس واقعے کا ذکرکرتے ہوئے فخر عالم زبیری لکھتے ہیں ’’خواجہ ناظم الدین بہت ہی شریف النفس انسان تھے۔ بڑی نرمی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ انھیں انشا اللہ کہنے کی بہت عادت تھی۔ تقریروں میں بھی یہ استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریریں یوسف صاحب پہلے انگریزی میں لکھتے تھے پھر انفارمیشن والے اس کا اردو ترجمہ کرکے ان کے پاس بھجوا دیتے تھے۔ وہ سیدھے سچے مسلمان تھے، نماز روزے کے پابند، تعلیم یافتہ، ٹرینٹی کالج اور کیمبرج کے پڑھے ہوئے تھے۔

افسوس کہ خواجہ صاحب کو لوگوں نے سمجھا ہی نہیں اور ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہی نہیں لگایا گیا۔‘‘فخر عالم نے اپنی کتاب میں قائد اعظم سے جنرل ضیا الحق تک ان تمام سربراہان مملکت کا ذکر کیا ہے جن کے دور حکمرانی میں وہ ایوان صدارت میں کام کرتے رہے تھے۔ انھوں نے اسٹینو گرافر کی حیثیت سے دہلی میں سرکاری ملازمت شروع کی، پاکستان آئے اور 38 سال بعد ضیا الحق کے دور میں ڈپٹی سیکریٹری (ایڈمنسٹریشن) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی مختصر سی کتاب میں صرف ان ہی واقعات کا ذکر ہے جو ان کے ذاتی مشاہدے یا تجربے میں آئے۔ ان میں نہ مبالغہ ہے اور نہ لفاظی۔ یہی اس کتاب کی خوبی ہے۔ اور تاریخی اہمیت بھی۔قائد اعظم سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فخر عالم لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ کے ایچ خورشید جو قائد اعظم کے پرسنل سیکریٹری تھے اپنی فیملی کو لینے کشمیر چلے گئے جہاں وہ پھنس کر رہ گئی تھی۔ ان کی غیر موجودگی میں قائد اعظم کو کوئی ضروری نوٹ لکھوانا تھا جو وہ خود ڈکٹیٹ کرانا چاہتے تھے۔ چنانچہ یوسف صاحب مجھے لے کر ان کے پاس چلے گئے۔

یوسف صاحب نے قائد اعظم سے میرا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ کئی سال سے میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور بہت لائق آدمی ہیں۔ قائد اعظم کا کچھ رعب ایسا تھا کہ اچھے اچھے ان کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے تھے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت میں ان کے سامنے یقیناً خوفزدہ تھا۔ قائد اعظم ایک بہت لمبی سی میز کے ایک جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک جملہ بولا مگر فوراً ہی ان کو احساس ہوا ہم دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ میں ان کی بات پوری طرح نہ سن سکوں۔ چنانچہ انھوں نے مجھ سے کہا: My boy, come closer to me چنانچہ میں اٹھ کر ان کے قریب ایک جانب بیٹھ گیا۔ انھوں نے صرف ایک صفحے کا نوٹ لکھوایا جو میں نے جلد ہی ٹائپ کرکے یوسف صاحب کو دکھایا۔ اس کے بعد دوبارہ بہت صاف ستھرا ٹائپ کرکے قائد اعظم کے پاس بھجوا دیا۔ سچ یہ ہے کہ جب تک وہ دستخط ہوکر واپس نہیں آیا، میرا دل دھڑکتا رہا۔‘‘

خواجہ ناظم الدین کے بعد غلام محمد گورنر جنرل بن کر ایوان مملکت میں آئے اور پھر یہیں سے حصول اقتدار کے لیے پاکستان میں محلاتی سازشوں کی ابتدا ہوئی۔ فخر عالم لکھتے ہیں کہ غلام محمد کے گرد فوراً ہی خوشامدی لوگوں کا ایک ٹولہ جمع ہوگیا۔ ویسے ان کا دبدبہ بہت تھا کیوں کہ وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے۔ فخر عالم لکھتے ہیں ’’غلام محمد کے پاس ایک چھوٹا بکس تھا جسے وہ کسی کو چھونے نہیں دیتے تھے۔ وہ اس میں ضروری کاغذات رکھتے اور خود ہی اسے کھولتے اور بند کرتے تھے۔ ایک روز انھوں نے چپراسی سے کہا کہ اس کا ڈھکنا پکڑے رکھنا۔ وہ چپراسی نیا تھا اور بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اتفاق سے ڈھکنا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ انھوں نے اسے بہت ڈانٹا اور گالیاں دیں اور مجھے بلاکر کہا کہ چپراسی بہت بدتمیز اور نااہل ہے اسے فوراً نوکری سے نکال دو‘‘۔ میں اسے لے کر ملٹری سیکریٹری کے پاس گیا۔ انھوں نے اسے نکالا تو نہیں مگر کہہ دیا کہ لاٹ صاحب کے سامنے نہ جانا۔ اسکندر مرزا کے بارے میں فخر عالم زبیری لکھتے ہیں ’’ اسکندر مرزا کا خط بہت برا تھا اور پھر وہ ہر چیز خود لکھتے تھے۔اس کی وجہ سے عملے کو کافی دقت پیش آتی تھی۔ انھیں پینے پلانے کا بھی بہت شوق تھا۔

ان کے زمانے میں ایوان صدر میں ڈنر بہت ہوتے تھے۔ ان کے اوپر ان کی بیگم ناہید خانم کا بڑا اثر تھا۔ وہ حکومت کے کاموں میں بھی دخل دیتی تھیں۔ اکتوبر 1958ء میں اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کیا اور ماشل لا لگایا۔ اس کے نتیجے میں وہ خود بھی کالعدم ہوگئے۔ جنرل ایوب نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1959 کے آخر میں جب دارالحکومت راولپنڈی منتقل ہوا تو آرمی ہاؤس ایوان صدر بن گیا۔ فخر عالم راولپنڈی پہنچ گئے اور ان کی ترقی ہوگئی۔ اب وہ صدر کے سیکریٹریٹ میں سیکشن آفیسر ہوگئے۔25 مارچ 1969 جب ایوب خان نے حکومت چھوڑی تو اس وقت اگرچہ ملک میں آئینی حکومت تھی جو 1962 کے آئین کے تحت کام کر رہی تھی۔ عنان حکومت فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے ہاتھ میں آئی۔ انھوں نے ملک میں مارشل لا لگا دیا، ایوب خان کا بنایا ہوا آئین معطل ہوگیا اور پاکستان کی بدبختی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ فخر عالم زبیری لکھتے ہیں۔دو مارشل لا نافذ ہونے کے بعد دس دن تک مرکزی سیکریٹریٹ کا کام معطل رہا۔ ہم لوگ روزانہ دفتر جاتے، وہاں چائے پی جاتی، گپ شپ ہوتی۔ پھر 4 اپریل کی صبح یحییٰ خان نے پریزیڈنٹ ہاؤس میں مرکزی سیکریٹریوں اور دوسرے اعلیٰ حکام سے خطاب کیا۔

انھوں نے تمام افسروں کو خوب ڈانٹا اور کہا کہ ’’سارے سول سرونٹس بڑے خوشامدی ہوتے ہیں اور چاپلوسی کرکے ہر نئے حکمراں کو غلط راستے پر لگا دیتے ہیں مگر میں ان باتوں میں آنے والا نہیں ہوں‘‘ پھر جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔فخر عالم زبیری لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بہت لوگوں نے زمینیں اور جائیدادیں بنائیں۔ ایوان صدر میں ایک سیکیورٹی افسر تھے۔ وہ اکثر میرے پاس آکر بیٹھا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک روز مجھ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے سے ایوان صدر میں کام کرتے ہیں۔ آپ نے کوئی مکان یا پلاٹ اپنے نام الاٹ نہیں کرایا۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے یہ کام کرادوں کیوں کہ جنرل رانی کے ذریعے یہ کام بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا، جی نہیں ۔ شکریہ‘‘

ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں فخر عالم لکھتے ہیں: ’’وہ بے انتہا محنتی آدمی تھے۔ روزانہ رات گئے تک کام کرتے تھے۔ وہ اکثر فائلوں پر اپنے ہاتھ سے طویل نوٹ تو نہیں لکھتے تھے مگر دلچسپ ریمارکس دے دیتے تھے۔ جنرل رضا کو جنھیں وزارت خارجہ میں سیکریٹری ایڈمنسٹریشن مقرر کیا گیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو مرتبہ ملازمت میں توسیع مل چکی تھی۔ جب تیسری بار ان کی ملازمت میں توسیع کا کیس بھٹو صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے اس پر لکھا:Let him die in the chair بھٹو صاحب اپنے اسٹاف کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اکثر رات کو خود بھی دفتروں کا چکر لگاکر دیکھتے تھے کون کیا کر رہا ہے۔ اس وقت ان کے سیکریٹری افضل سعید اور راؤ رشید ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ وہ جس طرح اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو نہ بھولتے تھے اسی طرح جس کی کوئی بات بری لگتی تھی اسے بھی فراموش نہیں کرتے تھے اور آسانی سے معاف نہیں کرتے تھے۔فخر عالم زبیری نے دو سال صدر ضیا الحق کے ساتھ آرمی ہاؤس میں وقت گزارا اور عزت سے ریٹائر ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب جب کہ میں ملازمت سے ریٹائر ہوگیا ہوں ایسا لگتا ہے جیسے زندگی بھر ایک ڈرامہ دیکھتا رہا ہوں۔ اس ڈرامے کے کردار اسٹیج پر آتے اور جاتے رہے‘‘۔ یہ سب اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور فخر عالم بھی اپنے رب سے جا ملے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔