سوری بیٹا تم نے ٹھیک کہا تھا

سلیم خالق  اتوار 1 جنوری 2023
رمیز  راجہ کا تقریب میں لوگوں سے خوب ذکر ہوتا رہا سب یہ پوچھتے رہے کہ ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ والی کیفیت کب ختم ہو گی۔ فوٹو : ٹویٹر

رمیز راجہ کا تقریب میں لوگوں سے خوب ذکر ہوتا رہا سب یہ پوچھتے رہے کہ ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ والی کیفیت کب ختم ہو گی۔ فوٹو : ٹویٹر

‘‘بابا بابر اعظم اننگز ڈیکلیئرڈ کر دیں گے تاکہ میچ دلچسپ ہو جائے’’ جب میرے 12سالہ بیٹے نے مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا ‘‘یار کوئی کامن سینس کی بات کرو،پچ بالکل فلیٹ اور ہماری بولنگ بھی اچھا پرفارم نہیں کر رہی،ایسے میں کون بے وقوف ایسا خطرہ مول لے گا،تم جلدی تیار ہو نکاح کی تقریب میں بھی جانا ہے’’ یہ کہہ کر میں ٹی وی لاؤنج سے چلا گیا۔

ہمیں شاہدآفریدی کی بیٹی کی تقریب نکاح میں جانا تھا اسی لیے میں اسٹیڈیم سے بھی جلدی واپس آ گیا تھا،کچھ دیر بعد میرے بیٹے نے بتایا کہ بوبی بھائی (بابراعظم ) نے اننگز ڈیکلیئرڈ کر دی تو میں نے حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا تو کیا ہوا انگلینڈ بھی تو ایسے کرتا ہے،اس پر وہ مسکرانے لگا اور میں نے جھینپ مٹاتے ہوئے سوچا کہ حفیظ نے جب یہ کہا تھا کہ میرے 12سالہ بیٹے کو رمیز راجہ سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ ہے تو اس پر وہ تلملا اٹھے تھے لیکن واقعی آج کل کے بچے کھیل کو بہتر سمجھتے ہیں۔

خیر سچ بتاؤں تو اس فیصلے پر میں نے زیر لب ایک لفظ کہا جسے یہاں تحریر نہیں کر سکتا،بہادری اور حماقت میں ایک باریک لائن ہوتی ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے،پاکستانی تھنک ٹینک نے احمقانہ فیصلہ کیا جس سے ہم ہار بھی سکتے تھے،آج کل کے دور میں کسی بھی ٹیم کیلیے 15اوورز میں 138رنز بنانا کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔

پاکستان نے اننگز کے اختتام پر ایسی جارحیت دکھائی نہ ہی بعد میں فیلڈ پلیسنگ ایسی تھی جس سے نظر آئے کہ اٹیک کیا جا رہا ہے،پھر سامنے اگر زمبابوے کی ٹیم بھی ہو تب بھی ایسے خطرات مول لینے سے بچنا چاہیے،ہمیں تو تقریباً ہارا ہوا میچ ڈرا کرنے کا موقع ملا تھا لیکن پھر اسے ہارنے کے چکر میں تھے،خیر شکر ہے کم روشنی نے محفوظ رکھا ورنہ اس ایڈوینچر پر نہ صرف تھنک ٹینک کو برا بھلا کہا جاتا بلکہ بات آگے بھی نکل سکتی تھی۔

میں نے بعد میں پتا کیا تھا یہ فیصلہ اکیلے بابر اعظم کا نہیں تھا بلکہ اس میں ثقلین مشتاق اور میچ نہ کھیلنے والے محمد رضوان بھی شریک تھے،خیر ’’آل ویل اف اینڈز ویل‘‘ اختتام ہمارے لیے اچھا رہا، ہوم گراؤنڈ پر مسلسل پانچواں ٹیسٹ ہارنے کی رسوائی سے بچ نکلے،مسلسل تیسری ہوم سیریز گنوانے کا فی الحال خطرہ بھی ٹل گیا،اس میچ میں پاکستان کی فائٹنگ اسپرٹ قابل تعریف رہی۔

بیشتر لوگوں کو لگتا تھا کہ بچنا محال ہے لیکن امام الحق،سرفراز احمد،سعود شکیل ، محمد وسیم جونیئر اور میر حمزہ نے وکٹ پر قیام کر کے ٹیم کو ڈرا کی آس دلائی، ہمارا مسئلہ بولنگ لائن کا ہے،ٹیسٹ جیتنے کیلیے آپ کو 20 وکٹیں لینا پڑتی ہیں اگر ایسا نہ کر سکیں تو جتنی بھی اچھی بیٹنگ کریں مسائل ہوتے ہیں،ڈیڈ پچز نے ہماری پیس بولنگ کو بے اثر بنا دیا،اسپنرز بھی رنز ایسے بانٹ رہے ہوتے ہیں جیسے اپنی بات پکی ہونے پر لڈو تقسیم کر رہے ہوں۔

اگر دوسرا ٹیسٹ اور سیریز جیتنی ہے تو بہتر پچ بنانا ہو گی،اگر ایسا نہ کیا تو پھر نجم سیٹھی اور رمیز راجہ کی سوچ میں فرق کیا ہو گا،ویسے مجھے شک ہے کہ 2 دن میں ایسا کیا ہو پائے گا کہ نیشنل اسٹیڈیم کی پچ میں ڈرامائی تبدیلی آ جائے،خیر امید بہتری کی رکھنی چاہیے جیسے پاکستانی کرکٹرز کو تھی،نیشنل اسٹیڈیم میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران میں نے نظر دوڑائی تو تقریباً پوری ٹیم موجود تھی،سیکیورٹی اہلکار بھی مستعد کھڑے تھے، واپس جاتے ہوئے بابر اعظم و دیگر وہاں موجود افراد سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرتے رہے۔

محمد رضوان بلاشبہ پاکستانی ٹیم کے چند خوش اخلاق کرکٹرز میں سے ایک ہیں،میری ان سمیت بعض کرکٹرز اور ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق سے مسجد کے باہر علیک سلیک ہوئی،وہاں موجود ایک صاحب نے کسی کھلاڑی سے پوچھا کیا خیال ہے میچ بچا لیں گے اس کا جواب تھا بالکل انشااللہ ،بعد میں ایسا ہی ہوا،پانچویں روز بھی نیشنل اسٹیڈیم میں خالی نشستیں کھلاڑیوں کو منہ چڑاتی رہیں،چند سو افراد ہی موجود تھے،شاید کراؤڈ سے زیادہ کھلاڑی تو پاکستانی ون ڈے اسکواڈ میں ہی شامل ہوں، خیر یہ تو مذاق کی بات ہے۔

میں نے شام کو تقریب میں جب شاہد آفریدی سے پوچھا کہ ارادہ کیا ہے 2 ٹیمیں تو بنا ہی دی ہیں،اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ‘‘ بھائی ان میں سے کوئی ایک کھلاڑی بھی ایسا بتا دیں جس میں صلاحیت نہ ہو یا جس نے پرفارم نہ کیا ہو،میں جانتا ہوں اس سیریز میں سب کو تو موقع نہیں مل سکے گا لیکن پاکستانی ٹیم میں نام آنے کا احساس انھیں مستقبل میں مزید بہتر پرفارم کرنے کیلیے موٹیویٹ کرے گا،انھیں پتا چلے گا کہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور سلیکٹرز ان پر نگاہیں رکھے ہوئے ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر ارشد خان،معین خان اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر عبدالرقیب سے بھی تقریب میں میری گپ شپ ہوتی رہی،آفریدی سے میری بہت پرانی دوستی ہے،ہم نے ایک دوسرے سے یہ بات بھی کی کہ وقت کتنی تیزی سے گذر رہا ہے،اپنی شادیوں کا وقت کل ہی کی بات لگتا ہے اب بچوں کی شادی کا ٹائم آ گیا،وہاں شاہد کے والد صاحبزادہ فضل الرحمان آفریدی کا پْرنور چہرہ نگاہوں میں گھومتا رہا جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں،وہ مجھ سے اپنی بچوں کی طرح محبت کرتے تھے،ان ہی کی تربیت کا اثر ہے کہ آج آفریدی فیملی کے سب لوگ چاہے وہ شاہد ہوں یا طارق، مشتاق، اقبال یا دیگر سب اپنے اپنے شعبوں میں خوب ترقی کر چکے ہیں۔

رمیز  راجہ کا تقریب میں لوگوں سے خوب ذکر ہوتا رہا سب یہ پوچھتے رہے کہ ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ والی کیفیت کب ختم ہو گی اس پر میرا یہی جواب ہوتا کہ جب آپ کو پاور ملے تب  قدم زمین پر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں مگر اکثر لوگ ایسے میں اپنے دوستوں کو بھول جاتے ہیں، ساتھیوں سے انداز بھی متکبرانہ ہوتا ہے،پھر جب اقتدار چھن جائے تو آس پاس کوئی موجود نہیں ہوتا،ایسے میں ویسی ہی فرسٹریشن ہوتی ہے جس کے رمیز راجہ اب شکار ہیں،خیر پاکستان کرکٹ میں اکثر ایسا ہوتے رہتا ہے ہم تو یہی امید کر سکتے ہیں کہ نئی انتظامیہ  بہتری لائے گی،امید پر ہی دنیا قائم ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔