حساس ادارے اور ٹیکنالوجی

نصرت جاوید  ہفتہ 5 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سینیٹ کی ایک کمیٹی ان دنوں حکومت سے بہت ناراض ہے۔ اسے یقین ہے کہ ’’حساس ادارے‘‘ معزز اراکین پارلیمان کی ٹیلی فونوں کے ذریعے ہونے والی گفتگو سننے اور اسے ٹیپ کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ حکومت انھیں لگام ڈالنے میں ناکام رہی تو ایک ’’خود مختار پارلیمان‘‘ کے رکن ہوتے ہوئے وہ از خود کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ممکنہ طور پر یہ ’’قدم‘‘ کیا ہو سکتا ہے؟ میں گھنٹوں اس سوال پر غور کرنے کے باوجود کوئی مناسب جواب نہ ڈھونڈ پایا۔ ہاں کچھ اس طرح کے فقرے بار بار ذہن میں آتے رہے جو لکھ دوں تو معزز اراکین ناراض ہو جائیں گے۔ ’’حساس ادارے‘‘ تو ان کے قابو میں خیر کیا آئیں گے مجھ دو ٹکے کے صحافی کے لیے کافی بے آرامی پیدا ہو جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ سر جھکا کر بازو کی گلی سے نکل جائوں۔

ٹیلی فون ٹیپ ہونے کی بات چلی تو بس اتنا یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں غلام اسحاق خان اور فاروق خان لغاری نے آٹھویں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین حکومتیں اور ان کی اسمبلیاں فارغ کی تھیں۔ 1988ء میں جنرل ضیاء نے جو اسمبلی توڑی تھی اسے فوجی آمر کی فضائی حادثے میں شہادت یا ہلاکت کے بعد سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ 1988ء کے انتخابات کو مگر اسی فیصلے میں روکا نہیں گیا۔ انھیں یہ کہہ کر ہونے دیا گیا کہ خلقِ خدا نئے انتخابات کے لیے پوری طرح تیار نظر آ رہی ہے۔ 1988ء میں ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین کی حد تک یہ گمان رہا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان ان کی حکومت کو آٹھویں ترمیم کے اختیارات کی بدولت برطرف نہیں کر سکتے۔ غلام اسحاق خان بھی کچھ عرصہ تک یہی محسوس کرتے رہے اور بجائے محترمہ کو فارغ کرنے کے انھوں نے ان کی پہلی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی پشت پناہی کی۔ یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم اس کی ناکامی کا ذمے دار نواز شریف کو ٹھہراتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے دل سے ان کا ساتھ اسی لیے نہیں دیا کہ محترمہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جانے کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی وزیر اعظم بن جاتے۔ مگر یہ بات حقیقت نہ تھی۔

اس وقت کے صدر، آرمی چیف بیگ اور پنجاب حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود محترمہ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی تو اس کی ایک اہم وجہ ان دنوں کا انٹیلی جنس بیورو بھی تھا جس کے ان دنوں کے سربراہ کے علاوہ دو اور اہم افسر بھی دل سے محترمہ کے وفادار تھے۔ میں اس زمانے میں ضرورت سے زیادہ Active رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ میں نے ٹھوس ذرایع سے دریافت کر لیا کہ کون کون سے رکن اسمبلی کو محض اس کے ٹیلی فون سن کر جمع شدہ معلومات کی بنیاد پر Handle کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک 9/11 بھی نہیں ہوا تھا۔ موبائل فون بھی ایک نئی اور نادر شے تھی۔ انٹرنیٹ وغیرہ تو بہت دور کی باتیں تھیں۔ 2014ء میں ٹیکنالوجی بہت ہی آگے جا چکی ہے۔

کئی غیر ممالک میں آپ کو الیکٹرونکس کے بڑے اسٹوروں میں ایسے Scanners ڈیڑھ سے دو سو ڈالر کے درمیان بغیر کسی تردد کے مل جاتے ہیں جنھیں لے کر آپ گھر بیٹھے ان تمام ٹیلی فونوں پر ہونے والی گفتگو سن سکتے ہیں جو آپ کے مکان کے قریبی ٹاور کے توسط سے ہو رہی ہوتی ہے۔ ’’حساس‘‘ ادارے تو پھر ’’حساس‘‘ ادارے ہیں۔ جن کے پاس نہ جانے کیا کیا ٹیکنالوجی موجود ہو گی۔ ویسے بھی ہمارے معزز اراکین پارلیمان یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 9/11 کے بعد اس وقت کے امریکی صدر بش کے Tight  Buddy یعنی جنرل مشرف نے پاکستان کو War  on Terror میں امریکا کا اتحادی بنا دیا تھا۔ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے ’’حساس اداروں‘‘ کی Capacity Building کے لیے انھوں نے اربوں ڈالر خرچ کیے اور پاکستان کو دہشت گردوں کا سراغ لگانے میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی بھی وافر انداز میں فراہم کی۔ مشرف حکومت مگر Double Game کھیلتی رہی اور بالآخر صدر اوبامہ کو اپنے جہاز اور کمانڈوز بھیج کر اسامہ کو ایبٹ آباد میں قتل کرنا پڑا۔

9/11 میں ایک بار پھر دہرا دوں گویا کل ہی کی بات ہے۔ اس سے کئی سال پہلے محترمہ بے نظیر کی پہلی، نواز شریف کی اوّل اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومتوں کو جب پہلے غلام اسحاق خان اور بعد ازاں فاروق لغاری نے فارغ کیا تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ تینوں مرتبہ ایک فہرست عدالت میں پیش ہوئی۔ یہ ثابت کرنے کے معزول کردہ حکومتیں اپنے مخالفین کے فون ٹیپ کیا کرتی تھیں۔ تینوں فہرستوں میں اس بدنصیب کا نام بھی شامل تھا جس کا شمار ’’حکومت کے خلاف خبریں دینے والے صحافیوں‘‘ میں کیا گیا تھا۔ 1997ء کے بعد سے قومی اسمبلیوں کو معزول کر دینے کی روایت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ٹیکنالوجی تو لیکن اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمارے ’’حساس ادارے‘‘ اس حوالے سے ہونے والی نت نئی ایجادات سے بے خبر ہوں۔ ان کے پاس میرے اور آپ کے فون سننے کی Capacity پوری طرح موجود ہے۔ اصل سوال اس صلاحیت کے ’’مناسب‘‘ استعمال کا ہے۔

’’استعمال‘‘ کا ذکر ہوا تو میں آپ کو حلفاََ یہ بیان کرتا ہوں کہ ایک زمانے میں ہمارے ایک ’’حساس ادارے‘‘ کے سربراہ کے ساتھ میرا صحافی اور افسر والا رشتہ نہیں تھا۔ وہ میرے حقیقی چچا کی مانند تھے اگرچہ تھے نہیں۔ وہ مجھ سے اس بات پر بہت خفا رہتے کہ میں ان سے ملنے سے گھبراتا ہوں۔ ایک دن میں نے آئیں، بائیں، شائیں کرتے ہوئے اپنا دفاع کرنا چاہا تو غصے سے پھٹ کر بولے ’’مجھے تم کو اپنا مخبر بنانے کی ضرورت نہیں تمہارے پیشے میں کافی لوگ پہلے ہی سے میرے ادارے کو میسر ہیں۔‘‘ تھوڑا ٹھنڈا ہو جانے کے بعد انھوں نے مجھے بالآخر یاد دلایا کہ ان کا گھر میرے لیے اپنے گھر کی طرح ہونا چاہیے اور میں جب چاہوں وہاں آ کر رات کا کھانا کھائوں۔ ان کے غصے اور پیش کش کے چند دن بعد میں اچانک ان کے ہاں پہنچ گیا۔ وہ اپنے اس کمرے میں جسے انھوں نے دفتر نما بنارکھا تھا صوفے پر بیٹھے گرین فون پر کسی سے معذرت خواہانہ ہوں ہاں کر رہے تھے۔ فون ختم ہوا تو پتہ چلا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کا فون تھا۔ نام کیا لینے بس اتنا کافی ہے کہ ’’حساس ادارے‘‘ کے سربراہ کو ڈانٹ پٹی تھی کہ فلاں فلاں وزیر کے ٹیلی فون باقاعدگی سے مانیٹر کیوں نہیں ہو رہے۔

بے شمار قصے ٹیلی فونوں کے بارے میں آپ کو سنا سکتا ہوں۔ ان میں سے چند ایک بڑے چسکے والے بھی ہیں۔ مگر وہ سناتے ہوئے میں یہ بات بڑے اصرار اور اعتماد کے ساتھ کہہ نہیں سکوں گا کہ ہمارے ہاں کا ہر حکمران خواہ وہ جمہوری ہو یا فوجی ’’حساس اداروں‘‘ سے چند افراد کے بارے میں ’’سب کچھ‘‘ سننے جاننے کو ہمیشہ سے بے تاب رہتا ہے۔ اب ’’حساس ادارے‘‘ والے اگر اپنے ’’باس‘‘ کی خاطر دس فون  24 گھنٹے Under Observation رکھ سکتے ہیں تو 30/50 اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق بھی تو سن سکتے ہیں۔ ’’حساس اداروں‘‘ کے پاس ٹیکنالوجی اورCapacity ہے تو اس کا ’’استعمال‘‘ بھی ہو گا۔ اس کے بارے میں اتنا حیران اور پریشان کیوں ہونا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔