یہ روایت تو ہماری نہیں

عابد محمود عزام  ہفتہ 5 اپريل 2014

اگرچہ زمانے کے بدلتے معیارات کی بدولت عمر رسیدہ افراد کے احترام و عزت میں کمی واقع ہورہی ہے،لیکن اس کے باوجود بوڑھے بزرگوں کے ساتھ ادب و احترام کا برتائوکرنا ہمارے مشرقی معاشرے کا جزلاینفک ہے۔ بڑوں کے ساتھ بے ادبی والا معاملہ کرنا یہاں ایک انتہائی معیوب عمل تصور کیا جاتاہے۔ اپنے بزرگوں کی اکثریت کو اولڈ ہومز میںداخل کروا دینے والے مغربی معاشرے کو ہمارے ہاں بے حس و احسان فراموش معاشرہ گردانا جاتا ہے کہ جہاں اپنے بزرگوں کو اس مقام سے بھی محروم رکھا جاتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کے مذاہب، معاشروں اور ملکوں میں بہت سے فرق پائے جانے کے باوجود ہر جگہ والدین اور بزرگوں کے احسانات اور شفقتیں یکساں ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے بڑھاپے میں ان کے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا جائے جیسا انھوں نے اپنی اولاد کے ساتھ ان کے بچپن میں کیا تھا۔بڑھاپے میں ان سے کنارہ کشی اختیار کرلینا سراسر فطرت انسانی کے خلاف ہے۔

گزشتہ دنوں اسی حوالے سے ایک خبر روزنامہ ایکسپریس کے صفحات پر شایع ہوئی کہ ایک اولڈ ایج ہوم میں اولاد کی محبت و توجہ کو ترستی بدرالنسا نامی عمر رسیدہ خاتون اپنے مالک حقیقی سے جا ملی، ضعیف خاتون 2 برس سے اولڈ ہوم ٹرسٹ میں اولاد کی عدم توجہی اور پیار نہ ملنے کے باعث نفسیاتی مریضہ بن کر زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو یاد کرکے روتی اور چلاتی تھی، لیکن اولاد اسے اپنے گھر رکھنے کو تیار نہ تھی۔ 2 برس کے دوران انتظامیہ کے بلانے پر اس کا بیٹا صرف5 دفعہ ملاقات کے لیے آیا، وہ ٹرسٹ کو ماں کی دیکھ بھال کرنے کے عوض کوئی معاوضہ بھی نہیں دیتا تھا،جب کہ اولڈ ہوم ٹرسٹ انتظامیہ کے مطابق ضعیف خاتون کی فیملی کی معاشی حالت اتنی بدتر بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی ماں کی بہتر دیکھ بھال نہ کر پاتے،حالانکہ مذکورہ ضعیفہ خاتون نے جوانی میں ہی بیوہ ہوجانے کے باوجود کبھی اپنے بچوں کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔

خبر کے ساتھ ہی اس بوڑھیا کی تصویر اپنی اولاد کی احسان فراموشی اور بے حسی کی گواہی دیتے ہوئے بتا رہی تھی کہ یہ ساری ستم ظریفی معاشرے کی بے حسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہ خبر پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ شاید ہمارا مشرقی معاشرہ بھی مغربی معاشرے کے اولڈ ہوم کلچر کی ڈگر پر چل پڑا ہے ۔ کسی کی اچھی چیز میں پیروی کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن مغرب کی اندھی تقلید کا تجربہ اپنے بزرگوں پر کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟اور اسی قسم کے واقعات پورے معاشرے کو داغ دار اور بدنما کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ماضی میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔یہ مانا کہ انسان ترقی کرتا ہوا آسمانوں کو چھونے لگا ہے۔ کل تک پیدل سفرکرنے والا انسان آج گاڑیوں اور ہوائی جہازوں پر سفر کرنے لگا ہے،خط کے ذریعے مہینوں میں اپنا پیغام پہنچانے والا انسان آج موبائل کا ایک بٹن دبانے سے اپنا پیغام پہنچانے لگا ہے، کمپیوٹر نے ساری دنیا کو اس کے سامنے ایک گائوں کی شکل میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے،لیکن کیا یہ ترقیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان اپنے والدین کو بوڑھا ہونے پر بے یارومددگار چھوڑ دے؟ حالانکہ والدین اپنی اولاد کو اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا اور زمانے کی سختیوں کا سامنا کرنا اس امید پر سکھاتے ہیں کہ یہ ننھے پودے جب کل تناور درخت بنیں گے تو ان کی ٹھنڈی چھائوں میں والدین اپنی زندگی کے تمام غم بھول جائیں گے۔ ماں بچے کو جنم دینے سے پہلے سے اس کے بڑا ہونے تک کس قدر تکلیف برداشت کرتی ہے۔ بچے کی پیدائش پر والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے،بچہ خود کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتا، والدین اس کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتے ہیں،بچے کو کوئی تکلیف پہنچے تو والدین تڑپ کر رہ جاتے ہیں،بچے کی تکلیف میں راتیں آنکھوں میں گزار دیتے ہیں،جب بچہ کچھ بڑا ہوتا ہے تو اسے تعلیم دلوانے کی فکردامن گیر ہوجاتی ہے، جب وہ پڑھ لکھ لیتا ہے تو والدین کو اس کی نوکری کی فکر اور پھر اس کی شادی کی فکر ستانے لگتی ہے۔

یہ بات انسانی عقل سے کس قدر متضاد معلوم ہوتی ہے کہ والدین تو اپنی ساری خوشیاں اولاد کی خوشیوں پر قربان کردیں اور جب اولاد اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے تو وہ انھی والدین کو بھول جائے، جنہوں نے اسے بچپن سے لے کر جوانی تک ہر قسم کا سہارا دیا ۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ والدین کی شفقت میں پناہ لینے والی اولاد بڑھاپے میں والدین کو ایک چھت کا سائبان بھی نہیں دے پاتی، اولڈ ہومز یا فلاحی اداروں کے دارالامان بعض والدین کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔ جہاں وہ اولاد کی محبت کو زندگی بھر ترستے رہتے ہیں، انھیں یہی سوچ ستائے رکھتی ہے کہ انھوں نے جن کو اپنے ہاتھوں سے پالا پوسا آج وہی اولاد انھیں اولڈ ہومز میں چھوڑ کر چلی گئی۔ جب والدین اپنے دس بچوں کو پال سکتے ہیں تو کیا دس بچے اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے؟

حالانکہ اپنی جوانی پر ناز کرنے والے ہر انسان نے کل بوڑھا ہونا ہے، آج وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ جیسا سلوک کرے گا کل اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہم تو مسلمان ہیں،ہمارا مذہب تو ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کے ساتھ پیش آنے،ان کے ساتھ نرم دلی اور عجز و انکساری کا برتائو کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ خدا کا شکر ہے ہمارے معاشرے میں مکافات عمل سے ڈرنے والوں اور اپنی کامیابیوں کو والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دینے والوں کی کثرت ہے، جو سمجھتے ہیں کہ بزرگ سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں، جو پورے خاندان کو اپنی مہربان وسعتوں میں سمیٹے رکھتے ہیں۔ اس کے باجود ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ مغربی معاشرے کے جراثیم سرایت کرتے جا رہے ہیں، ملک میں اولڈ ہومز میں داخل کروائے جانے والے بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اولڈ ہومز اور ایسے مراکز موجود ہیں، جہاںاولاد کے ہاتھوں ستائے ہوئے بزرگ خواتین و حضرات اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں۔

بحیثیت مجموعی سب کو سوچنا چاہیے کہ کیا اہل مشرق نے بھی اولڈ ہومز کی روایت اہل مغرب سے مستعار لے لی ہے؟جہاں گھر کے بزرگ افرادکو فالتو سامان کی طرح اولڈ ہومز میں جمع کروا دیا جاتا ہے، سال کے بعد اولاد صرف ایک دن کے لیے جاکر ان سے ملاقات اور محبت کا اظہار کرتی ہے۔ جہاں وہ محض یادوں کے سہارے زندگی کے بقیہ دن گزار دیتے ہیں، جب کہ ہمارے معاشرے کی اصل تو یہ نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں تو ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ کی رضا میں رب کی رضا ہے، آج یہی معاشرہ اس جنت اور اس رضائے ربانی سے دامن بچاتا نظر آتا ہے۔کہیں مغرب کی اندھی تقلید ہمیں بھی مہلک مقام تک نہ لے جائے، جس سے ہماری عائلی قدریں پامال اور معاشر ے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی چولیں ڈھیلی ہونا شروع ہوجائیں۔ مغرب آج اسی لیے اپنی عائلی زندگی کو برباد کربیٹھا ہے، کیونکہ اس نے معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی اپنے بزرگوں کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیا ہے، جب کہ اہل مشرق کی اکثریت آج بھی بزرگوں کو اپنے ساتھ رکھتی ہے ،ان کی زندگی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے ، جس کا مثبت اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ مغرب بزرگوں کی اس نعمت سے محروم ہوکر آج پستیوں میں جاگرا ہے۔ اگر ہمیں ان پستیوں سے بچنا ہے تو اپنی اقدار پر مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم رہنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔